طالبان کے قدم مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں، وہ افغانستان کے ایک کے بعد ایک شہر کو دائرۂ اثر میں لیتے جا رہے ہیں۔ نئی خبر یہ ہے کہ ایران کی سرحد سے متصل افغان صوبے نمروز کے دارالحکومت زرنج اور اس کے بعد جوزجان صوبے کے دارالحکومت شبرغان پر طالبان کا قبضہ ہو گیا ہے۔ اس قبضے کی بڑی اہمیت ہے، کیونکہ 5 سال بعد طالبان کا قبضہ کسی صوبے کے دارالحکومت پر ہوا ہے۔ اس سے پہلے 2016 میں صوبہ قندوز کے دارالحکومت قندوز پر ان کا قبضہ ہوا تھا، البتہ قبضہ وہ برقرار نہیں رکھ سکے تھے۔ قندوز ان کی گرفت سے آزاد کرا لیا گیا تھا مگر اس وقت کے حالات کچھ اور تھے، آج حالات کچھ اور ہیں۔ طالبان کے سامنے افغان فوسز زیادہ دیر تک جمی نہ رہ سکیں۔ اس کے بعد وہ پیچھے ہٹ گئیں۔ دونوں دارالحکومتوں پر قبضہ جمانے میں طالبان کو دشواری پیش نہیں آئی۔غور طلب سوال یہ ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو پھر طالبان کو کابل پر قبضہ کرنے، نئی حکومت کی تشکیل میں کیا دشواری پیش آئے گی۔ وہ لوگ جو طالبان کو عالمی امن کے لیے خطرہ مانتے ہیں، انہیں ان سوالوں کے جواب بھی تلاش کرنے چاہئیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک آخر اتنے برسوں تک افغانستان میں کیا کرتے رہے؟ طالبان سے کیسی جنگ لڑتے رہے کہ 20 برس کی جنگ میں بھی وہ کمزور نہیں ہو سکے؟ سوال یہ بھی ہے کہ افغان افواج کی ٹریننگ کیا محض دکھاوے کے لیے تھی؟ ان پر پیسے کیا یوں ہی برباد کیے جاتے رہییا ہوا یہ ہے کہ امریکیوں نے افغانوں کو فوجی تو بنا دیا، ان کے ہاتھوں میں ہتھیار تو تھما دیے مگر وہ ہمت، وہ شجاعت، وہ جاں بازی ان میں پیدا نہیں کر سکے جو طالبان میں ہے؟ مگر ایسا کیوں ہوا؟ امریکہ نے بڑے طمطراق سے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے یہ کہا تھا کہ وہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ یہ جنگ ان کے لیے ’صلیبی جنگ‘ ہے، چنانچہ یہ توقع کی گئی تھی کہ امریکہ فیصلہ کن جنگ کرنے کے بعد ہی افغانستان سے فوجیوں کو واپس بلائے گا، وہ دنیا سے دہشت گردی ختم کیے بغیر افغان جنگ ختم نہیں کرے گا مگر افغان جنگ کی وجہ سے پچھلے 20 برس میں روس اور چین کی طاقتوں میں اضافے سے امریکہ ناواقف نہیں ہے، اس لیے یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ کے مفاد میں ہی افغان جنگ ختم کرنے کا اعلان تھا اور اسی لیے جو بائیڈن نے ان کا فیصلہ نہیں بدلا۔
امریکہ نے جیسے افغان جنگ شروع کی اور پھر ختم کرنے کا اعلان کیا، اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا بھلے ہی یہ مانے کہ امریکہ نے اس کے لیے جنگ کی مگر سچ یہ ہے کہ جنگ امریکہ نے اپنے لیے کی۔ 9/11 کے بعد اس کے لیے یہ دکھانا ضروری ہو گیا تھا کہ وہ وہی امریکہ ہے جس نے پرل ہاربر پر حملے کے بعد دوسری عالمی جنگ کا روپ بدل دیا تھا اور پھر ہیروشیما اور ناگاساکی پر اس کے حملوں نے یہ بتا دیا تھا کہ وہ کتنا تباہ کن جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر افغان جنگ امریکہ کے لیے جاپان سے لڑنے، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے جیسی نہیں ثابت ہوئی۔ اس جنگ کے کھنچ جانے کی وجہ سے امریکہ کی اقتصادیات پر منفی اثرات مرتب ہوئے، وہ اس چین کا ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا مقروض ہو گیا جس سے ٹریڈ وار چھیڑے ہوئے ہے، چنانچہ امریکہ نے جنگ ختم کرنے میں ہی بھلائی سمجھی۔ جنگ ختم کرتے وقت اس نے یہ نہیں سوچا کہ 20 برس کی جنگ کے بعد طالبان کہاں ہیں، افغان فوجی صحیح معنوں میں کتنے طاقتور ہیں اور اگر طالبان کا کنٹرول افغانستان کے بڑے علاقے پر ہو جائے گا تو پھر اس خطے پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے۔
کہنے کو تو یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ افغان فوج تیار کرنے کے لیے بڑا خرچ کیا گیا ہے، 2011 میں ہی اس کا بجٹ 12 ارب امریکی ڈالر تھا یعنی 10 برس میں اس پر کافی خرچ کیا گیا۔ اسی لیے دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ افغان فوج دنیا کی 7 ویں سب سے طاقتور فوج ہے، اس کے 186,000 متحرک فوجی طالبان کے قدم آگے نہیں بڑھنے دیں گے، وہ افغانستان کی وہ صورت حال نہیں بننے دیں گے جو روسی فوجیوں کے جانے کے بعد بنی تھی مگر طالبان کی پیش قدمی کا جو سلسلہ جاری ہے اور افغان فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کی جس طرح سے خبریں آرہی ہیں، اس سے افغانستان کی صورت واضح ہوتی جا رہی ہے۔ نئی صورتحال اس خطے کے لیے تشویشناک ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ امریکہ حالات کی تبدیلی سے واقف نہیں مگر حیرت انگیز طور پر وہ خاموش ہے۔
[email protected]
طالبان کے بڑھتے قدم
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS