کشمیریت سے گلزار ہوتا کشمیر

0

کشمیر کی ہر سرکاری عمارت پر اب ترنگا شان سے لہراتا ہے۔ آرٹیکل370کی رخصتی کے دو برس بعد کشمیر میں آئی یہ سب سے بڑی تبدیلی بھی ہے اور تبدیلی کی سب سے خوشنما تصویر بھی۔ دو برس پہلے تک یہ بات تصور سے بھی پرے تھی۔ ہر سرکاری پروگرام، میٹنگ اور جشن میں قومی پرچم اور جموں و کشمیر ریاست کا جھنڈا دونوں لگائے جاتے تھے۔ لیکن 5؍اگست2019کو الگ وِدھان(قانون ساز اسمبلی)، الگ نشان کا سسٹم ختم ہونے کے بعد جموں و کشمیر کا الگ پرچم بھی پرانے دنوں کی یاد بن کر رہ گیا ہے۔ اس کی جگہ نئے کشمیر کا مقدر بنتی جارہی ایک اور تبدیلی نے لے لی ہے، جو اس خوشنما تصویر میں چارچاند لگارہی ہے۔ کل تک جس فضا پر بارود کی بو کا قبضہ تھا، آج وہاں زعفران کی کیاریوں کی حکومت ہے۔ دہشت کا گڑھ اب ترقی کا نیا ٹھکانہ بن رہا ہے اور نوجوانوں کے ہاتھ اب قتل کے لیے نہیں، بلکہ قلم تھامنے کے لیے اٹھ رہے ہیں۔
دو سال قبل تک سری نگر کے ڈاؤن ٹاؤن سے لے کر پلوامہ تک کے چوراہوں پر پتھرباز تعینات رہتے تھے، لیکن اب سب تبدیل ہوچکا ہے۔ پتھراؤ85فیصد تک کم ہوگیا ہے۔ جموں و کشمیر پولیس کے مطابق سال2019میں 1,990سے زیادہ پتھراؤ کے واقعات ہوئے تھے۔ وہیں سال2020میں ایسے 250واقعات رپورٹ ہوئے۔ اس سال بھی ایک دو معاملات کو چھوڑ کر پتھربازی کا کوئی بڑا واقعہ سامنے نہیں آیا ہے۔
پتھربازی کی تبدیل ہوتی تصویر کا ایک سرا سرحد کی بدلی تاثیر سے بھی جڑتا ہے، جہاں فری-ہینڈ ملنے کے بعد ہمارے جوان دہشت گردوں کے لیے موت بن کر ٹوٹ رہے ہیں۔ مئی2018سے جون 2021تک یعنی تین سال میں جموں و کشمیر میں سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان 400 تصادم ہوئے جن میں 630دہشت گردوں کو مار گرایا گیا۔ اس سال 31جولائی تک 7پاکستانی دہشت گردوں سمیت 90سے زیادہ دہشت گردوں کو ڈھیر کیا جاچکا ہے۔
ظاہر ہے کہ 370ہٹائے جانے کے بعد علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کے بہاوے میں آئے کشمیر کے نوجانوں نے دہشت کا حشر اور انہیں مین اسٹریم سے جوڑنے کی حکومت کی کوششوں سے متاثر ہوکر پتھر اٹھانا چھوڑ دیا ہے۔ لیکن مقامی انتظامیہ کسی طرح کی غفلت میں نہیں رہنا چاہتی۔ اس لیے گزشتہ ہفتہ ہی اس نے پتھربازوں پر مزید سخت ایکشن لیتے ہوئے انہیں سرکاری نوکری نہ دینے اور ان کا پاسپورٹ ویریفائی نہ کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔
دراصل کشمیر میں تبدیلی کی لہر نے معاشرہ کے جس طبقہ کو سب سے زیادہ تبدیل کیا ہے، وہ یہاں کے نوجوان ہی ہیں۔ موجودہ نظام نوجوانوں کو کشمیری معاشرہ کا عام حصہ نہیں، بلکہ اس کی روح کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ اس کی وجہ بھی ہے۔ کشمیر میں 35سال سے کم عمر والے نوجوانوں کی آبادی 65فیصد ہے اور وہاں دہائیوں کے عدم استحکام سے سب سے زیادہ متاثر بھی یہی طبقہ رہا ہے۔ بہتر امکانات کی تلاش میں کشمیری نوجوان ایک روایت کی طرح نقل مکانی کرنے کے لیے مجبور رہے ہیں۔ اس نقصان کی ہرممکن تلافی کے لیے انتظامیہ نے ’بیک ٹو ویلیج‘ پروگرام کی شروعات کی ہے، جس میں دیہی علاقوں میں 50 ہزار نوجوانوں کو خود روزگار (self-employed)دینے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ اس سے بڑی تعداد میں کشمیری نوجوانوں کو اپنی سرزمین میں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے 200 کروڑ کے فنڈ سے اضلاع میں سینٹر آف ایکسی لینس بنائے جارہے ہیں۔

کل تک جو کشمیری نوجوان ہدف کی کمی میں بندوق تھام لیتے تھے، وہ اب کشمیر کی ترقی میں اپنی منزل حاصل کررہے ہیں۔ سی ایم آئی ای کے اعدادوشمار کے مطابق جموں و کشمیر میں مارچ، 2021کے آخر میں بے روزگاری کی شرح کم ہوکر 9فیصد رہ گئی ہے۔ یہ اعدادوشمار گوا، دہلی اور راجستھان سے بہتر ہیں۔ حالاں کہ اپوزیشن پارٹیاں ان اعدادوشمار پر سوال اٹھاتی رہتی ہیں، لیکن لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا تو اگلے پانچ سال میں بے روزگاری کو مکمل طور پر ختم کرنے کی بات کررہے ہیں۔

کل تک جو کشمیری نوجوان ہدف کی کمی میں بندوق تھام لیتے تھے، وہ اب کشمیر کی ترقی میں اپنی منزل حاصل کررہے ہیں۔ سی ایم آئی ای کے اعدادوشمار کے مطابق جموں و کشمیر میں مارچ، 2021کے آخر میں بے روزگاری کی شرح کم ہوکر 9فیصد رہ گئی ہے۔ یہ اعدادوشمار گوا، دہلی اور راجستھان سے بہتر ہیں۔ حالاں کہ اپوزیشن پارٹیاں ان اعدادوشمار پر سوال اٹھاتی رہتی ہیں، لیکن لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا تو اگلے پانچ سال میں بے روزگاری کو مکمل طور پر ختم کرنے کی بات کررہے ہیں۔ اس ہدف کو پورا کرنے میں نئی صنعتی پالیسی سب سے بڑا ذریعہ بن سکتی ہے۔نیوانڈسٹریل اسکیم کے تحت اسی سال جنوری میں ریاست کو 28ہزار 400کروڑ کا انسینٹیو ملا ہے۔ سمجھا جارہا ہے کہ اس طرح کی صنعتی پالیسی کسی ریاست کے پاس نہیں ہے۔ حکومت کو اس سے 45-50ہزار سرمایہ کاری آنے کی امید ہے، جس سے بلاک اور دوردراز کے علاقوں کی صنعتی ترقی ہوسکے گی اور 8سے 9لاکھ مزید نوجوانوں کو روزگار بھی ملے گا۔
گزشتہ دو سال کو دیکھیں تو کشمیر میں ترقی کی رفتار ایسی نظر آئی ہے جیسے کسی جنگ کی تیاری چل رہی ہو۔ جموں و کشمیر میں اب آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم ہیں۔ دو دو سینٹرل یونیورسٹیاں ہیں، نفٹ ہے۔ دو ایمس کی تعمیر ہورہی ہے۔ دو کینسر انسٹی ٹیوٹ بن رہے ہیں۔ سات پیرامیڈیکل اور نرسنگ کالج بن رہے ہیں۔ نوجوانوں کے لیے بامبے اسٹاک ایکسچینج کے تعاون سے فائنانشیل سروس کی ٹریننگ اور ٹاٹاٹیکنالوجی کے تعاون سے اسکل ڈیولپمنٹ کا کام چل رہا ہے۔
نوجوانوں کی ہی طرح خواتین بھی تبدیلی کے مرکز میں ہیں۔ اس سمت میں خاتون کاروباریوں کے لیے ’حوصلہ‘ اسکیم ایک تاریخی کوشش کہی جائے گی۔ کشمیر میں خواتین کا معاشرہ میں درجہ بہتر ہے اور تعلیم سے متعلق کافی بیداری بھی ہے۔ حوصلہ اسکیم اسی حقیقت کے پیش نظر بنائی گئی لگتی ہے، کیوں کہ یہ خواندہ خواتین کو معاشی طور سے آزاد، صحت کے شعبہ میں تعاون اور لیڈرشپ میں حصہ داری کا اسٹیج فراہم کراتی ہے۔ اس اسکیم کے سبب کشمیری خواتین کی آئی ٹی، ای-لرننگ، ای-کامرس، ٹیلی میڈیسن جیسے شعبوں میں شراکت داری میں اضافہ ہوا ہے۔
خصوصی ریاست کا درجہ واپس ہونے کے بعد جموں و کشمیر میں اقتدار کے ڈی سینٹرلائزیشن کی کوشش بھی تیز ہوئی ہے۔ اس کے تحت ہی وہاں پہلے پنچایت اور پھر بی ڈی سی الیکشن کرائے گئے۔ جمہوریت کے تہوار پر دہشت گردی کا سایہ دور دور تک نہیں نظر آیا، بلکہ اس میں شرکت کرنے کے لیے مقامی لوگ بے خوف ہوکر باہر نکلے۔ کئی جگہ پر پاکستان سے آئے پناہ گزینوں تک نے ووٹنگ میں حصہ لیا۔ اس عمل کی کامیابی سے اس حقیقت کو بھی تقویت ملتی ہے کہ مقامی لوگوں کا اس بات پر بھروسہ مضبوط ہو رہا ہے کہ جمہوریت کوئی جملہ نہیں، بلکہ کشمیر کی ضرورت ہے۔
کشمیری پنڈتوں کی واپسی کا مسئلہ ضرور ابھی رفتار نہیں پکڑ پایا ہے۔ لیکن یہ ایشو حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ سوال بے گھر لوگوں کے تحفظ کا ہے اور انتظامیہ کی سوچ ایسی ہے کہ یہ واپسی تب تک ممکن نظر نہیں آرہی، جب تک ان کے گھروں کی مرمت نہیں ہوجاتی۔ متبادل کے طور پر انتظامیہ کلگام، بڈگام، گاندربل، شوپیان، باندی پورہ، بارہمولہ اور کپواڑہ اضلاع میں بڑے پیمانہ پر ٹرانزٹ رہائش بنارہی ہے اور ان میں سے زیادہ تر کے لیے نومبر، 2022تک کے وقت کی حد بھی رکھی گئی ہے۔
مختصراً کشمیر میں کشمیریت بحال کرنے کے لیے حکومت نے پوری طرح کمر کس لی ہے۔ اس کشمیریت کے وزیراعظم نریندر مودی بھی مرید ہیں۔ وزیراعظم خود کئی عوامی مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ نہ گولی سے سلجھنے والا ہے، نہ گالی سے بلکہ یہ سلجھے گا ہر کشمیری کو گلے لگانے سے۔ وزیراعظم کی قیادت میں مرکزی حکومت اور مقامی انتظامیہ اسی ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ اس کے لیے گزشتہ دو سال میں پالیسی، نیت اور صحیح فیصلہ کے سنگم سے جو تبدیلی نظر آئی ہے، اس سے یہی اعتماد مضبوط ہوا ہے کہ کشمیر میں کشمیریت گلزار کرنے کی کوشش صحیح سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔

اُپیندررائے

(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS