آن لائن تعلیم کے چیلنجز

0

سدھیر کمار

وبا کے دور میں ہندوستان میں ٹیکنالوجی پر مبنی تعلیم کی افادیت کو نئی جہت ملی ہے۔ ملک کا تعلیمی نظام اس وقت حتی الامکان آن لائن نظام میں ڈھلتا جارہا ہے۔ پورے ملک کے تعلیمی ادارے سوا سال تک بند ہی رہے۔ حالاں کہ اب ریاستوں نے تعلیمی اداروں کو پھر سے کھولنے کی سمت میں قدم بڑھائے ہیں۔ لیکن اب آن لائن تعلیم ایک وسیع متبادل کے طور پر قائم ہوگئی ہے۔ لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ وبا نے اسکول منیجرز، کوچنگ چلانے والوں، غیرمستقل ٹیچروں اور ملازمین کی معیشت اور زندگی کو بڑے پیمانہ پر متاثر کیا ہے۔ ساتھ ہی کروڑوں طلبا کا مستقبل بھی ابھی بیچ میں ہی ہے۔ مستقبل کی فکر کی وجہ سے وہ مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہورہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے طویل عرصہ تک بند رہنے کے سبب طلبا کی ہمہ جہت ترقی(all round development) بھی متاثر ہوئی ہے۔ اسکول احاطہ کا ماحول طلبا میں احساس ذمہ داری کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اسکول محض چند کمروں کا ڈھانچہ نہیں ہوتا، بلکہ وہاں بچے تعلیم کے ساتھ تہذیب اور زندگی کا سبق بھی سیکھتے ہیں۔ اسکول احاطہ میں ساتھی طلبا کے ساتھ سوشل ڈیولپمنٹ ہوتا ہے۔ بچوں میں ایک مہذب اور ذمہ دار شہری کی بنیاد پڑتی ہے۔ یہ کچھ ایسی خصوصیات ہیں جو آن لائن تعلیم کے تناظر میں نافذ نہیں ہوتی ہیں۔
لیکن آن لائن تعلیمی ذریعہ کا جو ایک اور پہلو ابھی سامنے آیا ہے، اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے اسکولوں میں ٹیکنالوجی پر مبنی تعلیم کی حالت اطمینان بخش نہیں ہے۔ اس معاملہ میں ہمارے اسکول ابھی بھی بہت پیچھے ہیں۔ وبا نے ملک میں تکنیک پر مبنی تعلیم کی صحیح تصویر سامنے رکھ دی۔ بنیادی ڈھانچہ کی کمی، بجلی کی قلت، مہنگے اور انٹرنیٹ کے مسئلہ کی وجہ سے آن لائن تعلیم کو مکمل اونچائی نصیب نہیں ہوپارہی ہے۔ حال میں آئی انٹیگریٹڈ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن انفارمیشن سسٹم کی 2019-20 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کے 15لاکھ اسکولوں میں سے صرف38.54فیصد اسکولوں میں ہی کمپیوٹر دستیاب ہیں۔ مدھیہ پردیش کے محض13.59، بہار کے 14.19 اور آسام کے 15فیصد اسکولوں میں ہی کمپیوٹر کی سہولت مہیا ہے۔ اگر بات کریں اسکولوں میں انٹرنیٹ دستیابی کی تو اس معاملہ میں صورت حال مزید بری ہے۔ ملک کے صرف22فیصد اسکولوں یعنی 15لاکھ اسکولوں میں سے صرف3لاکھ 30ہزار اسکولوں میں ہی انٹرنیٹ کی سہولت ہے۔ کیرالہ اور دہلی کے اسکولوں میں بالترتیب 88اور 86فیصد اسکولوں میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے، لیکن دوسری طرف تریپورہ میں محض3.85، میگھالیہ میں 3.88اور آسام میں 5.82فیصد اسکولوں میں ہی انٹرنیٹ کنکشن ہیں۔ ظاہر ہے تکنیکی تعلیم اور مواصلات کی جدید تکنیک سے ہمارے طلبا آج بھی کوسوں دور ہیں۔ تکنیکی دور میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی گنتی بنیادی سہولتوں میں ہوتی ہے۔ آن لائن تعلیم کے دور میں سرکاری اسکولوں کے پچھڑے پن کی یہ ایک اہم وجہ ہے، جس پر پالیسی بنانے والوں کو سوچنے کی ضرورت ہے۔

آن لائن تعلیمی ذریعہ کا جو ایک اور پہلو ابھی سامنے آیا ہے، اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے اسکولوں میں ٹیکنالوجی پر مبنی تعلیم کی حالت اطمینان بخش نہیں ہے۔ اس معاملہ میں ہمارے اسکول ابھی بھی بہت پیچھے ہیں۔ وبا نے ملک میں تکنیک پر مبنی تعلیم کی صحیح تصویر سامنے رکھ دی۔ بنیادی ڈھانچہ کی کمی، بجلی کی قلت، مہنگے اور انٹرنیٹ کے مسئلہ کی وجہ سے آن لائن تعلیم کو مکمل اونچائی نصیب نہیں ہو پا رہی ہے۔

وبا کی وجہ سے پوری دنیا میں اسکولی تعلیم متاثر ہوئی ہے۔ انفیکشن سے بچاؤ کی کوششوں کے تحت دنیا کے 190 سے زیادہ ممالک کو اپنے اسکولوں کے دروازے بند کرنے پڑے۔ یونیسکو کے مطابق کووڈ-19 کی شروعات کے بعد دنیا کے 138 ممالک کے تقریباً ڈیڑھ ارب طلبا کی تعلیم اسکولوں کے بند ہونے سے متاثر ہوئی ہے۔ اسکولی تعلیم میں آئے اس خلل کے بعد ایک متبادل کے طور پر آن لائن تعلیم کا رجحان تیزی سے تو بڑھا ہے، لیکن اس طرح کی تعلیم تک رسائی ہر ایک کی نہیں ہوپائی۔ اکنامسٹ انٹلیجنس یونٹ کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ اسکولوں کے بند رہنے سے پوری دنیا میں ایک ارب 60کروڑ اسکولی بچوں میں سے صرف 10کروڑ بچوں کی ہی تعلیم متاثر ہونے سے بچ پائی۔یعنی ایسے بچے اسکول بند ہونے کے باوجود گھر پر رہ کر آگے کی پڑھائی کرپانے میں کامیاب ہوپائے ہیں۔ اس کی واحد بڑی وجہ گھر پر تکنیک کی سہولت کی رہی۔ لیکن دوسری طرف آن لائن تعلیم تک رسائی ممکن نہ ہونے کے سبب دور کروڑ بچوں کا مستقبل بیچ میں ہے۔ اگر ہندوستان کے تناظر میں بات کریں تو دیہی علاقوں میں یا چھوٹے شہروں میں تو اسمارٹ فون کی عدم دستیابی، انٹرپٹڈ الیکٹریکل سسٹم، الیکٹرانک گیزیٹ خریدنے کا اہل نہ ہونا اور دھیمی رفتار سے چلنے والے انٹرنیٹ جیسے مسائل نے بچوں کے مستقبل پر گرہن لگادیا ہے۔ حکومتیں بھلے ہی ملک میں 100فیصد بجلی کا خواب پورا ہونے کی بات کہہ کر اپنی پیٹھ تھپتھپا لیں، لیکن ملک میں بجلی اور بجلی سپلائی کی حقیقی حالت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ منسٹری آف رورل ڈیولپمنٹ کے ذریعہ 2017-18میں کرایا گیا ایک سروے بتاتا ہے کہ ملک میں 16فیصد کنبوں کو روزانہ ایک سے 8گھنٹے، 33فیصد کنبوں کو 9سے 12گھنٹے اور صرف47 فیصد کنبوں کو ہی 12گھنٹے سے زیادہ بجلی ملتی ہے۔ آن لائن تعلیم کے لیے بجلی کے ساتھ ساتھ اسمارٹ فون یا کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت کا مہیا ہونا اہم شرط ہے۔ لیکن اس معاملہ میں ہماری حالت بہت اچھی نہیں ہے۔ 2017-18 کے نیشنل سیمپل سروے رپورٹ کی مانیں تو ملک کے صرف24فیصد کنبوں کے پاس ہی انٹرنیٹ کی سہولت ہے۔ ایسے میں آن لائن تعلیم کیسے پورے ملک کے بچوں کو ہموار شکل میں دستیاب ہوگی، یہ بڑا سوال ہے۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ ملک کے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے زیادہ تر بچے کم آمدنی والے طبقہ کے کنبوں سے آتے ہیں۔ ان کے پاس نہ تو اسمارٹ فون کی سہولت ہوتی ہے اور نہ ہی انٹرنیٹ پیک خریدنے کی حیثیت۔ ایسے کنبوں میں غریبی، بیداری اور ٹیکنیکل نالج کی کمی میں تکنیک پر مبنی تعلیم کی ضرورت کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ ایسے میں ملک کے کروڑوں بچے چاہ کر بھی آن لائن تعلیم کا فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ دیہی علاقوں کے وہ بچے جن کے پاس وسائل کی انتہائی کمی ہے، آن لائن تعلیم کے دور میں یقینا پیچھے رہ جائیں گے۔ طویل عرصہ تک اسکولوں کے بند رہنے سے بچوں کی پڑھائی کا سلسلہ ٹوٹا ہے۔ ایسے میں پڑھائی کے تئیں دلچسپی کا کم ہونا بھی فطری ہی ہے۔ جب اسکول دوبارہ کھلیں گے تو ظاہر ہے کہ بچوں کے لیے پڑھائی میں دوبارہ اسی طرح سے ہم آہنگ ہونا آسان نہیں ہوگا۔ لاکھوں بچے تب تک اسکول بھی چھوڑ چکے ہوں گے۔ وبا نے بچوں کو اسکول سے جوڑنے کی ساری قواعد کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔
آن لائن تعلیم معاشرہ میں ایک گہری تفریق بھی پیدا کرسکتی ہے۔ کچھ وقت پہلے یونیسکو نے ہندوستان کو الرٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ تعلیم پانے کے لیے یہ سوچنا غلط ہے کہ آن لائن سیکھنا ہر کسی کے لیے آگے کا راستہ کھولتا ہے، کیوں کہ آن لائن پڑھائی سے دور دراز کے علاقوں میں رہ رہے بچے آن لائن پڑھائی نہیں کرسکتے۔ اس لیے کسی خاص طبقہ کو دی جانے والی تعلیم معاشرتی تفرقہ میں اضافہ کرے گی۔ ایسے میں حکومت کو ان بچوں کے مستقبل کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے، جو اسکول سے دور ہوکر اپنے مستقبل کو داؤ پر لگانے پر مجبور ہیں۔ 2020-21کے معاشی سروے میں کہا گیا تھا کہ اگر آن لائن تعلیم کا صحیح استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے تعلیمی نتائج میں ہونے والی عدم مساوات ختم ہوں گی۔ لیکن کیا آن لائن تعلیم کی آفاقی رسائی کے بغیر اس عدم مساوات کو ختم کرپانا ممکن ہوگا؟
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS