بہت کٹھِن ہے ڈَگر پنگھٹ کی…!

0

عباس دھالیوال

گزشتہ 7سال سے جب سے مرکز میں مودی سرکار نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تب سے اب تک ان کے سامنے حزب اختلاف کی حیثیت ایک بونے کی سی بنی چلی آ رہی ہے۔ لیکن اب اس سال جبکہ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی نے صوبہ کے اسمبلی الیکشن میں اپنی شاندار جیت درج کرتے ہوئے بی جے پی کو کراری شکست دی ہے تو جیسے حزب اختلاف کی دوسری پارٹیوں میں بھی تھوڑی ہلچل ہونے لگی ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی این سی پی کے شرد پوار نے جس طرح سے مختلف پارٹیوں کے لیے چناوی حکمت عملی بنانے والے پرشانت کشور سے ملاقات کی وہ سبھی کو معلوم ہے اور اس میٹنگ کے دوران کس موضوع پر گفتگو ہوئی ہوگی ماہرین کے مطابق اس کا بھی اندازہ لگا پانا مشکل نہیں ہے۔
اس سے قبل بنگال کی جیت کے بعد جس طرح سے ممتا بنرجی اور مرکز کے بیچ مختلف تنازعات پیدا ہوئے۔ کبھی وزیر اعظم کی میٹنگ میں ممتا کا دیر سے پہنچنا کبھی ممتا کے وزرا کے خلاف سی بی آئی کی کارروائی ہو تو کبھی مغربی بنگال کے سابقہ چیف سکریٹری کو مرکز کی جانب سے دہلی بلانے کا معاملہ… کل ملا کر یہ سب ایسے معاملات رہے جن میں مرکزی و صوبائی سرکار کے بیچ ایک رسہ کشی ہوتی ہوئی محسوس ہوئی یا یوں کہہ لیں کہ مرکز و ممتا کے بیچ شہہ اور مات کا کھیل چلا یعنی تم ڈال ڈال ہم پات پات…اس سب مذکورہ کھیل میں جس طرح سے ممتا نے اپنی کھیلا ہوبے والی امیج کو دیش کے لوگوں کے سامنے پیش کیا اس سے سیاسی میدان میں تھوڑی بہت دلچسپی رکھنے والے بھی خوب اچھی طرح سے واقف ہیں۔
جبکہ اس سے قبل بنگال الیکشن میں بی جے پی نے ممتا کو صوبہ کی حکومت سے بے دخل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، لیکن اس سب کے باوجود ممتا نے جس طرح سے بی جے پی کی تمام چناوی حکمت عملیوں کو ناکام بناتے ہوئے مغربی بنگال میں اپنی ٹی ایم سی پارٹی کی شاندار طریقے سے جیت دلوا کے اپنی پارٹی کی حکومت تیسری بار بنانے میں کامیاب ہوئیں۔ اس جیت کے بعد سے تو ممتا کے حوصلے پوری طرح سے بلند ترین مقام پر ہیں۔ جس طرح سے اب ممتا حزب اختلاف کے مختلف رہنماؤں سے ملاقات کر رہی ہیں اس کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ممتا نے 2024 کے لوک سبھا کے جنرل الیکشن کی تیاری ابھی سے شروع کر دی ہے. اسی سلسلے کے میں گزشتہ دنوں دہلی میں انھوں نے حزبِ اختلاف کے بڑے رہنماؤں سے ایک کے بعد ایک ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں سے تو واضح اشارے یہی ملتے ہیں کہ آئندہ لوک سبھا الیکشن میں وہ مرکزی سیاست میں اپنا ایک خاص رول ادا کرنے کی خواہاں ہیں۔

ادھر تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کا متحد ہونا تو ممکن ہے مگر ایک ساتھ رہنا آسان نہیں ہے۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن میں بہت انتشار ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے عزائم و مفاد ہیں اور تقریباً ہر بڑا اپوزیشن لیڈر وزیرِ اعظم بننے کے خواب دیکھتا ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق تو ممتا بنرجی 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے خلاف ایک مضبوط اپوزیشن اتحاد قائم کرنے کی کوشش میں ہیں، تاکہ وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف عام انتخابات میں حزبِ اختلاف کا ایک مشترکہ امیدوار سامنے لایا جا سکے۔ مختلف نیوز رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں ممتا بنرجی گزشتہ ہفتہ حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور سینئر رہنما راہل گاندھی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔
اپوزیشن اتحاد کے ضمن میں اس ملاقات کو بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ممتا بنرجی نے کہا کہ سونیا گاندھی نے انہیں چائے پر مدعو کیا تھا۔ ان کے مطابق انہوں نے ملک کی سیاسی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پیگاسس کے جاسوسی کے اسکینڈل اور کورونا وائرس کے سلسلے میں بھی گفتگو کی۔اس کے ساتھ ساتھ ممتا نے دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کجریوال سے بھی ملاقات کی۔ قبل ازیں وہ دہلی میں نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے صدر شرد پوار سے بھی ملیں۔ اس کے علاوہ ممتا نے کانگریس کے سینئر رہنماؤں کمل ناتھ اور آنند شرما سے بھی ملاقاتیں کیں۔
دریں اثنا انھوں نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ ایسی مثالیں موجود ہیں جب راتوں رات ملک کی سیاسی صورتِ حال بدل گئی۔ انہوں نے کہا کہ 1977 میں کیا ہوا تھا۔ اس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کو شکست ہوئی تھی۔ اٹل بہاری واجپائی نے ایک سال کے اندر ہی اپنی مقبولیت کھو دی تھی۔ ہماری جمہوریت میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر اپوزیشن بی جے پی کے خلاف اتحاد قائم کرنے میں سنجیدہ ہو جائے تو چھ ماہ کافی ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات کے دوران اپوزیشن اتحاد کی قیادت کریں گی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ میں نجومی نہیں ہوں۔ اس کا انحصار اس وقت کے حالات پر ہے اور اگر کوئی دوسرا قیادت کرتا ہے تو انہیں کوئی دشواری نہیں ہے۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ یہ سمجھتی ہیں کہ وہ بنگال سے آکر قومی سیاست کی قیادت کر سکیں گی اور لوگ انہیں تسلیم کر لیں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ جب نریندر مودی اور امت شاہ گجرات سے آ کر حکومت کر سکتے ہیں تو وہ قیادت کیوں نہیں کر سکتیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ مغربی بنگال کے انتخابات میں بھی یہ دونوں رہنما باہر سے ہی آئے تھے جب کہ وہ باہر سے نہیں آئی تھیں۔
ادھر اس ضمن میں سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ممتا بنرجی پارلیمانی انتخابات سے بہت پہلے سے ہی زمینی سطح پر کام کر رہی ہیں۔ امید ہے کہ اس بار حزبِ اختلاف کا اتحاد قائم ہو جائے گا۔ حالانکہ اس سے پہلے 2019 کے انتخابات میں بھی اس طرح کا اتحاد قائم کرنے کی کوششیں کی گئیں تھیں لیکن اس وقت سیاسی جماعتوں کو حکمتِ عملی تیار کرنے کے لیے بہت کم وقت ملا تھا جس کے نتیجے میں وہ کوشش کامیاب نہیں ہو پائی تھی۔
ادھر تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کا متحد ہونا تو ممکن ہے مگر ایک ساتھ رہنا آسان نہیں ہے۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن میں بہت انتشار ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے عزائم و مفاد ہیں اور تقریباً ہر بڑا اپوزیشن لیڈر وزیرِ اعظم بننے کے خواب دیکھتا ہے۔
ادھر ٹی ایم سی کے ترجمان اور رکن پارلیمنٹ ڈیرک اوبرائن کا کہنا ہے کہ بی جے پی مخالف جماعتوں کو مشترکہ ایجنڈا بنانا ہوگا۔ بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کا متحد ہونا کافی نہیں ہے۔ان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے علاوہ تمام آئینی اداروں، میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ حکومت سے سخت سوالات کرنا ہوں گے۔ صرف اپوزیشن جماعتوں سے حکومت مخالف محاذ تیار نہیں ہوگا بلکہ سول سوسائٹی کو بھی اس میں شامل ہونا ہوگا۔
کل ملا کر حزب اختلاف کو اکٹھا کرنا بھی ابھی کسی ٹیڑھی کھیر سے کم نہیں ہے ۔ اب دیکھنا ہوگا کہ ممتا بنرجی 2024 میں اس منتشر حزب اختلاف کو کس طرح سے یکجا کر مضبوط و مستحکم بناتے ہوئے مودی کے مد مقابل کھڑا کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں، لیکن فی الحال تو یہی کہنا ہوگا کہ:
بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی…
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS