انسانی وسائل کا زیاں

0

ہندوستان جنت نشان کی بدحال اور تباہ حال معیشت نے زندگی کے ہرشعبہ کو متاثر کررکھا ہے۔ سرکار کے بلند بانگ دعوے اب تک تو زمین پر کہیں نظر نہیںآئے لیکن کورونا وائرس کے انفیکشن سے بچائو کیلئے غیر منظم لاک ڈائون، پابندیوںاور تعلیمی اداروں کی بندش نے جہاں زندگی کاحسن گہنا دیا ہے وہیں انسانی وسائل کی ناقابل معافی بربادی کی منفرد تاریخ بھی لکھی جا رہی ہے۔آئندہ کل یکم اگست اتوار کو انجینئر، پی ایچ ڈی ہولڈر، پوسٹ گریجویٹ اور گریجویٹ امیدواروں کی بھاری تعداد مغربی بنگال کے ایک اسپتال میں ’ ڈوم ‘ کی اسامی پر بحالی کیلئے امتحان دینے والی ہے۔ یہ درست ہے کہ کوئی کام چھوٹایابڑا نہیں ہوتا ہے، محنت کی عظمت پر یقین رکھنے والے ہر کام کرنے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں لیکن جس کام کیلئے آٹھویں جماعت کا پاس ہونا ہی کافی ہو،اس کام کیلئے اگر پی ایچ ڈی ہولڈر، ڈاکٹر و انجینئر، پوسٹ گریجویٹ اور گریجویٹ افراد مجبور ہوجائیں تو یہ انسانی وسائل کی ناقابل معافی بربادی ہی کہی جائے گی۔ جو لوگ اس کام پر مجبور ہوں گے اس سے نقصان صرف ان کا نہیں ہوگا بلکہ ان کی اعلیٰ تعلیم پر صرف ہونے والی دولت، وقت اور حصول علم میں معاشرے کی جانب سے ملنے والی مددکا بھی یہ مکمل زیاں ہے۔
بصد افتخار شہر نشاط کہے جانے والے مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتامیں محکمہ صحت کے ماتحت قائم نیل رتن سرکار میڈیکل کالج و اسپتال کے مردہ خانہ میں لیباریٹری اٹینڈنٹ جسے پہلے ’ڈوم‘ کے نام سے جانا جاتاتھا،کی 6اسامیوں کیلئے گزشتہ سال دسمبر میں اشتہار آیاتھا او ر لیاقت کم ازکم آٹھویں جماعت پاس مطلوب تھی۔ اس اشتہار کے جواب میں 8000اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد نے درخواست دی ہے جن میں 100انجینئر، 500افراد پوسٹ گریجویٹ، ان میں سے کئی ایک ایم فل،‘ پی ایچ ڈی کیلئے رجسٹرڈ اور 2200افراد گریجویٹ ہیں۔ان تمام امیدواروں میں84خواتین سمیت کل 784 کو اتوار یکم اگست کو تحریری امتحان کیلئے طلب کیا گیا ہے، اگر یہ امتحان پاس کرلیتے ہیں تو ان میں سے6افراد کو ڈوم کی اسامی پر بحال کیا جائے گا اور ان کی ماہانہ تنخواہ 15000 روپے ہوگی۔اسپتال کے انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ڈوم کے عہدہ کیلئے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی اتنی بھاری تعداد نے درخواست دی ہو۔ عام طور پر ایسی اسامیوں کیلئے اسپتال میں پہلے سے ہی کام کررہے ’ ڈوم‘ کے رشتہ دار ہی درخواست دیاکرتے تھے۔’ ڈوم‘ کا کام کسی بھی طرح سے توہین آمیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتہائی اہم کام ہے، اگر اس اسامی پر کوئی کام نہ کرے تو اسپتالوں کے مردہ خانے ہی بند ہوجائیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس کام کیلئے اعلیٰ تعلیم کا کوئی فائدہ نہیںہے۔ اس کام کیلئے درخواست دینے والے امیدوار وں کو بھی یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے۔لیکن ان کی اہلیت کے مطابق ملازمتوں کا نہ ملنا ان کیلئے سوہان روح بنا ہوا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں برسرکار ہوجائیں۔ اسی لیے انہوں نے درخواست دی ہے۔
سوشلزم کے بوجھ سے کراہ رہے ہندوستان کو نجات دلانے کیلئے 30 سال قبل 1991میں جب اس وقت کی نرسمہارائو حکومت نے عالمی معیشت کیلئے ہندوستان کے بند دروازے کھولے اور لائسنسنگ راج کو یک قلم منسوخ کرکے ’ایل پی جی‘ یعنی لبرالائزیشن، پرائیویٹائزیشن اور گلوبلائزیشن(کھلاپن، نجکاری اور عالم کاری) کا آغاز کیا تو اس سے ہندوستان کی معیشت میں تیزی آئی تھی، روزگار کے نئے نئے مواقع پیدا ہوئے تھے۔ سرکاری ملازمتوں پرا نحصار کم ہوا تھا اور نجی اداروں و کمپنیوں میں خالی اسامیوں کی باڑھ سی آگئی تھی۔ تقریباًدو دہائیوں تک ہندوستان کی معیشت ایک مخصوص رفتار سے گردش کرتی رہی لیکن آج یہ چمک ماند پڑتے پڑتے اب بالکل ہی ختم ہورہی ہے۔اقتصادی اصلاحات کی تین دہائیوں کی تکمیل کے موقع پر آج ملک میں بے روزگاری کی شرح گزشتہ نصف صدی کی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ عالم کاری اورکھلی معیشت کے باوجود صورتحال اتنی سنگین ہوتی جارہی ہے ؟ اس وجہ کی جانب ماہرین نے بار بار توجہ دلائی ہے اور کہا ہے کہ عام لوگوں تک پیسہ پہنچایاجائے، انسانی وسائل پر سرمایہ کاری کی جائے۔ گردش زر کو تیز کیاجائے کیوں کہ معیشت اسی اصول پر چلتی ہے اور روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں لیکن ماہرین کی یہ دلیل صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہے اور آج ڈوم کے عہدہ پر تقرری کیلئے ڈاکٹر اورانجینئر امتحان دے رہے ہیں۔
ہندوستان میں ملازمت کی یہ دردناک داستان ایسی نہیں ہے کہ اس سے سرسری گزر جایاجائے۔ صورتحال کی سنگینی یہ تقاضا کررہی ہے کہ اس کا جائزہ لے کر اس کے تدارک کی اگر کوشش نہیں کی گئی تو یہ انسانی وسائل جن پر ہندوستان کو ناز ہے انہیں ضائع اور برباد ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا ہے۔ضرورت ہے کہ صنعتوں اور تجارتوں میں سرمایہ لگانے کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل میں بھی سرمایہ کاری کی جائے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو ان کی ہنر مندی اور لیاقت کے مطابق روزگار کے وسائل مہیاکیے جائیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS