یہ دوستی دنیا بدل سکتی ہے

نئی دہلی آئے امریکی وزیرخارجہ نے بائیڈن انتظامیہ کی بات دوہرائی کہ امریکہ-ہند تعلقات کو مضبوط کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا

0

ششانک

جنوری، 2021میں جو بائیڈن کے صدر عہدہ کا حلف لینے کے بعد یہ تیسرا موقع تھا، جب امریکی حکومت کا کوئی سینئر لیڈر ہندوستان آیا۔ امریکی وزیرخارجہ اینٹنی بلنکن گزشتہ روز دیر شام نئی دہلی سے کویت روانہ ہوچکے ہیں، لیکن ان سے پہلے وزیردفاع لائڈ آسٹن اور آب و ہوا میں تبدیلی کے معاملات پر امریکی صدر کے خصوصی سفیر جان کیری کے ہندوستان دورے یہ اشارے دے چکے ہیں کہ بائیڈن حکومت نئی دہلی کو کتنی اہمیت دے رہی ہے۔
بلنکن کا یہ دورہ دوطرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ علاقائی رشتوں کی دَشا-دِشا طے کرنے والا سمجھا جائے گا۔ انڈوپیسفک ریجن میں امن اور استحکام کو بڑھاوا دینے کے علاوہ افغانستان میں علاقائی تحفظ کے ایشوز پر کہیں زیادہ مضبوطی سے مل کر کام کرنے پر اتفاق رائے ہوا ہے۔ ایسا سمجھا جارہا ہے کہ افغانستان بات چیت کا مرکز رہا، کیوں کہ امریکہ جس طرح سے وہاں سے نکلا ہے، اس سے ہندوستان بھی تشویش میں مبتلا ہے۔ رات کے اندھیرے میں امریکی فوجیوں نے افغانستان چھوڑا اور ہوائی جہاز سے وہ اپنے ملک کے لیے روانہ ہوئے۔ بھلے ہی امریکہ نے افغان حکومت کو اس کے بارے میں واضح کردیا تھا، لیکن چھپتے چھپاتے امریکی فوج کی روانگی کئی ایشیائی ممالک کو ویت نام جنگ کی یاد دلاگئی۔ 1975میں سائیگان(ہو چی منہہ شہر) سے امریکی فوج اپنے دامن پر ہار کا داغ لے کر اسی طرح لوٹی تھی۔ افغانستان سے اس کی گھر واپسی کو بھی کئی ممالک اسی طور پر دیکھ رہے ہیں۔
ہندوستان کے ساتھ دقت یہ ہے کہ افغانستان کے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر اور کاروباری منصوبوں میں اس نے تقریباً تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ اتنا ہی نہیں، نئی دہلی نے وہاں کے سبھی 34صوبوں میں 400سے زیادہ منصوبے شروع کیے ہیں۔ چوں کہ وہاں اب تک کوئی مستحکم حکومت کی تشکیل نہیں ہوسکی ہے اور طالبان اپنے اثرورسوخ کے دائرہ کے مسلسل وسیع ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں، اس لیے نئی دہلی ان ترقیاتی کاموں کے مستقبل کے سلسلہ میں تشویش میں مبتلا ہے۔ ایک جواز یہ دیا جاسکتا ہے کہ طالبان شاید ان منصوبوں کو نقصان نہ پہنچائیں، مگر جس طرح سے پاکستان مسلسل ہندوستان کے بارے میں پروپیگنڈہ کررہا ہے اور امریکی فوج کی واپسی کو ہندوستان کی ہار کے طور پر غلط بیانی کررہا ہے، اس سے خطرہ یہ ہے کہ کہیں پاکستان نوزا دہشت گرد طالبان کی آڑ میں ان ترقیاتی کاموں کے لیے خطرہ نہ بن جائیں۔ نئی دہلی واشنگٹن سے یہ یقین چاہتا ہے کہ وہ افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ دینے کے بجائے ایک ٹھوس حکمت عملی کے تحت اس کی مدد کرتا رہے۔

کل ملاکر بلنکن کا یہ دورہ کئی معنوں میں قابل ذکر ثابت ہوا ہے۔ وزیرخارجہ بننے کے بعد وہ پہلی مرتبہ ہندوستان آئے تھے اور وہاں انہوں نے بائیڈن انتظامیہ کا یہ ڈائیلاگ دوہرایا کہ امریکہ اور ہندوستان کے مابین تعلقات کو مضبوط کرنے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ اس میں کسی طرح کی کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔ اچھی بات ہے کہ حکومت ہند کی طرف سے بھی انہیں مثبت جواب ملا ہے۔ دونوں ممالک کی یہ عہدبندی آنے والے دنوں میں عالمی سسٹم کو کئی طرح سے متاثر کرسکتی ہے۔

ہندوستان اور امریکہ کے رشتہ میں ’کواڈ‘ بھی کافی اہمیت رکھتا ہے۔ ہندوستان، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان سے مل کر بنی یہ تنظیم ابھی بھلے ہی قانونی جامہ نہیں پہن سکی ہے، لیکن اس نے چین کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ پر اپنی سکیورٹی اور اقتصادی تعلقات کو تیزی سے مضبوط بنانا شروع کردیا ہے۔ مارچ2021میںامریکی صدر جو بائیڈن نے اس کی ایک ورچوئل میٹنگ بلائی تھی، جس میں آسٹریلیا، ہندوستان اور جاپان کے سربراہان حکومت ترتیب وار اسکاٹ ماریسن، نریندر مودی اور یوشی ہیدے سُگا نے آن لائن شرکت کی تھی۔ اس میٹنگ میں انہوں نے کووڈ-19ٹیکے سے متعلق ایک ٹاسک گروپ کی تشکیل بھی کی تھی اور طے کیا تھا کہ جاپان کی معاشی مدد وآسٹریلیا کی لاجسٹک مدد سے ہندوستان انڈوپیسفک کے ممالک کے لیے امریکی ویکسین کی ایک ارب خوراک بنائے گا۔ جانسن اینڈ جانسن میں تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے ٹیکہ کی تعمیر میں دیری کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے، لہٰذا نئی صورت حال میں اس فیصلہ کو کس قدر پورا کیا جائے گا، اس پر بھی بلنٹن سے چرچہ ہوئی ہوگی۔ کورونا کے ڈیلٹا پلس ویرینٹ کے بڑھتے معاملے اور انڈوپیسفک ممالک میں ہندوستان کے شامل ہونے کے سبب نئی دہلی ویکسین-تعمیر سے متعلق زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ ہندوستان ہر ممکن پروڈکشن کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن اسے اس کے لیے کچے مال کی ضرورت ہے جو امریکہ ہی مہیا کراسکتا ہے۔
ویسے، کواڈ سے امریکہ کے مفاد بھی کافی وابستہ ہیں۔ دو سمندروں کو سمیٹنے والا انڈوپیسفک ریجن امریکہ کے سمندری مفادات کو بخوبی پورا کرتا ہے۔ 2019میں ان سمندروں سے 19کھرب ڈالر قیمت کا امریکی بزنس ہوا۔ اقوام متحدہ کے مطابق تو اس سال دنیا کی کل برآمد کے 42فیصد اور درآمد کے 38فیصد پروڈکٹس یہاں سے گزرسکتے ہیں۔ فطری ہے، اس کاروبار کا ایک بڑا کھلاڑی امریکہ ہوگا۔
بلنکن کے اس دورہ میں ہتھیاروں کی خرید کا معاملہ بھی اٹھا ہوگا اور ہندوستان میں مبینہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی کا بھی۔ مگر یہ ایسے مسائل ہیں جو ہر ایک بات چیت کا حصہ تو ہوتے ہیں لیکن ان پر کوئی خاص سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ البتہ امریکہ میں ہندنژاد کو ہونے والی دقتیں اب آپسی بات چیت کا اہم مسئلہ بنتی جارہی ہیں۔ امریکہ کی ویزا پالیسی پر ہندوستان سوال اٹھاتا ہی رہتا ہے، اب این آرآئیز پر ہونے والے نسلی حملے بھی تشویش کی وجہ بن گئے ہیں۔ ہندوستان مسلسل اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ ایشیائی لوگوں کے خلاف کسی طرح کا جسمانی یا جذباتی تشدد نہیں ہونا چاہیے۔ اچھی بات ہے کہ بائیڈن انتظامیہ بھی اس سمت میں سنجیدہ ہے اور این آر آئیز ہی نہیں، تمام تارکین وطن کا تحفظ یقینی بنانے کی بات کہہ رہا ہے۔
کل ملاکر بلنکن کا یہ دورہ کئی معنوں میں قابل ذکر ثابت ہوا ہے۔ وزیرخارجہ بننے کے بعد وہ پہلی مرتبہ ہندوستان آئے تھے اور وہاں انہوں نے بائیڈن انتظامیہ کا یہ ڈائیلاگ دوہرایا کہ امریکہ اور ہندوستان کے مابین تعلقات کو مضبوط کرنے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ اس میں کسی طرح کی کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔ اچھی بات ہے کہ حکومت ہند کی طرف سے بھی انہیں مثبت جواب ملا ہے۔ دونوں ممالک کی یہ عہدبندی آنے والے دنوں میں عالمی سسٹم کو کئی طرح سے متاثر کرسکتی ہے۔
(مضمون نگار سابق خارجہ سکریٹری ہیں۔)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS