راحت رساں اور مثبت فیصلہ

0

عرصہ کے بعد مرکزی کابینہ نے کوئی ایک ایسا فیصلہ کیا جسے عام آدمی کیلئے راحت رساں کہاجاسکتا ہے۔کورونا بحران، بڑھتی بے روزگاری، تباہ حال معیشت اور آئے دن بینکوں میں ہورہے گھوٹالوں سے پریشان عام آدمی میں مالی احساس تحفظ پیدا کرنے کی سمت ڈپازٹ انشورنس اور کریڈٹ گارنٹی کارپوریشن بل میں ترمیم کا فیصلہ بلا شبہ ایک مثبت قدم کہا جاسکتا ہے۔ کابینہ سے اس قانون میں ترمیم کی تجویز منظور ہونے کے بعداب اسے پارلیمنٹ کے اسی اجلاس میں پیش کیا جاناہے اور وہاں سے منظوری کے بعد یہ ترمیم باقاعدہ قانونی شکل اختیار کرلے گی۔ اس قانون میں ترمیم کے بعد بینکوں کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں وہاں رقم جمع کرنے والے عام آدمی کو مقررہ وقت کے اندر مالی مدد مہیا ہوگی۔اس نئے قانون کے مطابق عام آدمی اپنی جمع رقم میں سے5لاکھ روپے تک90دنوں کے اندر حاصل کرپائیں گے۔ پہلے اس رقم کی حدفقط ایک لاکھ روپے تھی۔ آپ کی چاہے جتنی ہی رقم کیوں نہ جمع ہو اگر بینک دیوالیہ ہوجاتا ہے تو آ پ کو حکومت صرف ایک لاکھ روپے تک کی ہی ضمانت فراہم کرتی تھی اور یہ رقم کب ملے گی اس کیلئے وقت کا بھی کوئی تعین نہیں تھا۔ جمع کنندگان کو دیوالیہ بینک کی تنظیم نو ہونے تک برسوں انتظا ر کرنا پڑتا تھا۔ یہ مدت تو بعض اوقات 8سے 10برس تک کی بھی ہوجاتی تھی۔ لیکن اب نئی ترمیم کے مطابق نہ صرف رقم کی حد 5لاکھ روپے تک بڑھادی گئی ہے بلکہ اس کی ادائیگی کیلئے بھی تین مہینوں کا وقت مقرر کردیاگیا ہے۔قانون میں ان ترامیم کے تحت بینکوں کے دیوالیہ ہونے کے بعد پہلے کے 45دنوں میں ڈپازٹ انشورنس اور کریڈٹ گارنٹی کارپوریشن ( ڈی آئی جی سی) تمام جمع کنندگان سے متعلق تفصیلات اکٹھی کرکے اس کا جائزہ لے گا اوراگلے45 دنوں میں 5 لاکھ روپے تک کی رقم واپس کی جائے گی۔
ایک بار یہ قانون بن جانے کی صورت میں اس سے نہ صرف مستقبل کے جمع کنندگان میں ان کی رقم کے تئیں تحفظ کا احساس پیدا ہوگا بلکہ گزشتہ برسوں میں دیوالیہ ہونے والے بینکوں بشمول پی ایم سی بینک، لکشمی ولاس بینک اور یس بینک کے لاکھوں صارفین کوبھی اس سے راحت ملے گی۔ اس قانون کا اطلاق یکم فروری2020سے ہونا ہے۔ ڈپازٹ انشورنس اور کریڈٹ گارنٹی کارپوریشن بل 1963 میں اس سے قبل 1993 میں ترمیم کی گئی تھی، اب 30برسوں کے بعد اس قانون میں ترمیم کو منظوری ملی ہے جس کا فائدہ عام آدمی کو حاصل ہوگا۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے ماتحت کام کرنے والے ڈپازٹ انشورنس اور کریڈٹ گارنٹی کارپوریشن اپنی آئینی حیثیت میں ایک انفرداری ادارہ ہے۔جونجی اور عوامی بینکوں، چھوٹے مالیاتی بینکوں، مقامی حلقہ کے بینکوں، کوآپریٹیو بینکوں، علاقائی دیہی بینکوں، پیمنٹ بینکوں اور غیر ملکی بینکوں کی ہندوستانی شاخوں میں جمع رقم کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے انشورڈ کرتا ہے اوراس کی پریمیم کی ادائیگی بینک کرتے ہیں۔ اب تک بینک 100 روپے کی جمع رقم پر ڈی آئی سی جی سی کو 10پیسے کا پریمیم ادا کرتے رہے ہیں لیکن نئی ترمیم کے مطابق اس پریمیم میں بھی اضافہ کرکے اسے ہر100روپے پر12پیسے کردیاگیا ہے۔ ڈی آئی جی سی جی سی ایکٹ1961 کی دفعہ 16(1) کے مطابق بینک کے دیوالیہ ہوجانے کی صورت میں یہ ادارہ ہر ایک جمع کرنے والوں کو رقم ادا کرنے کیلئے ذمہ دار ہوتا ہے۔
اکتوبر2019میں مہاراشٹر کے پی ایم سی بینک میں ہوئے گھوٹالہ کے بعد اس کے عام اکائونٹ ہولڈر اب تک خوار ہورہے ہیں۔حکومت کے مطابق اس بینک میں کل مالیاتی ذخائر 11600 کروڑ روپے ہیں لیکن قانون نہ ہونے اور رقم کی حد بندی کی وجہ سے اس بینک کے ہزاروں اکائونٹ ہولڈرس کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔یہی صورتحال لکشمی ولاس بینک اور یس بینک کے گاہکوں کے ساتھ بھی ہے جنہوں نے اپنی محنت کی گاڑھی کمائی تحفظ کی غرض سے بینکوں میں جمع کی تھی لیکن بینکوں میںآنے والے بحران اور گھوٹالوں کی وجہ سے ان کی رقم ڈوب گئی۔ اب اس قانون میں نئی ترمیم ان لاکھوں چہرے پر مسکراہٹ لانے کا سبب بنے گی۔
امید تو یہی کی جاسکتی ہے کہ پارلیمنٹ کے رواں اجلاس میں یہ ترمیمی بل پیش کیاجائے گا لیکن پارلیمانی اجلاس کا جو منظر نامہ ہے، اس میں نہیں لگتا ہے کہ ہنگاموں کے درمیان بل پاس ہونے کا کوئی کام ہوپائے گا۔13اگست تک جاری ہونے والے اس اجلاس میں حکومت نے کل38بل پاس کرانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اب تک ان میں سے کسی ایک بل پر بحث کی نوبت بھی نہیں آئی ہے جس سے یہ خدشہ پیدا ہورہاہے کہ حکومت شاید ہی یہ ترمیمی بل ایوان میں پیش کرسکے۔ بہتر تو یہی ہوگا کہ حکومت کسی بھی صورت اس بل کو ایوان میں رکھے اور اس پر منظوری کی مہرلگوالے بصورت دیگر بینک بحران کے شکار لاکھوں لوگوں کے انتظار کی مدت مزید طویل ہوجائے گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS