وبھوتی نارائن رائے
انسان کی سب سے پرانی سرگرمیوں میں شریک جاسوسی، ایک گریک میتھالوجیکل کریکٹر پیگاسس کے سبب ہماری بحث کے مرکز میں آگیا ہے۔ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ایک مرتبہ بوتل سے باہر آنے کے بعد جن کس کس کے کندھوں پر بیٹھے گا۔ یہ تو منافقت ہوگی کہ کوئی جاسوسی کی ضرورت یا اتنے بڑے معاملہ کو سرے سے ہی مسترد کردے، لیکن اس مرتبہ اپنے بھی سٹپٹائے ہوئے ہیں۔ نہ اگلتے بن رہا ہے، نہ نگلتے۔
ہماری آج کی دنیا میں جاسوسی کے دو طریقے سب سے زیدہ مقبول ہیں۔ پہلا ’ہیوم اِنٹ‘ یعنی انسانوں کے ذریعہ جاسوسی اور دوسرا ’اِلیکٹ اِنٹ‘ یعنی کمیونیکیٹ کرنے یا حاصل کرنے کے آلات میں نقب لگاکر مطلب کی اطلاعات حاصل کرنا۔ اگر آسان زبان میں کہنا ہو تو پیگاسس دوسری فہرست میں آئے گا، لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب ان لوگوں کا انتخاب ہے، جنہیں جاسوسی کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ یہاں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ اسرائیلی کمپنی این ایس او کے ذریعہ ڈیولپ سافٹ ویئر پیگاسس کو وہاں کی حکومت نے ’جنگ کے ہتھیار‘ کے طور پر اعلان کررکھا ہے۔ ’جنگ کا ہتھیار‘ اعلان کردہ پروڈکٹ کی فروخت سرکاری کنٹرول میں آجاتی ہے۔ ہندوستانی شہریوں کے لیے یہ سمجھنا تھوڑا مشکل ضرور ہوگا، کیوں کہ ہمارے یہاں ابھی تک ایسا سامان صرف عوامی ڈومین میں ہی تیار ہوتا ہے، لیکن حال میں فرانسیسی جنگی طیارے رافیل کی خرید سے اسے سمجھا جاسکتا ہے۔ رافیل کو ایک پرائیویٹ فرینچ کمپنی نے بنایا ضرور ہے، لیکن وہ اسے کسی ملک کو فروخت تبھی کرے گی، جب اسے اپنی حکومت کی اجازت مل جائے۔ این ایس او کے لیے بھی ضروری ہے کہ یہ پیگاسس اسرائیلی حکومت کی اجازت سے ہی کسی ایسی حکومت کو فروخت کرے، جس کا حقوق انسانی کا ٹریک ریکارڈ اچھا رہا ہو۔ اسے کسی غیرسرکاری تنظیم کو نہیں فروخت کیا جاسکتا۔
پیگاسس اپنی فہرست میں اب تک کا سب سے مہلک سافٹ ویئر ہے۔ اسے کسی بھی موبائل فون، کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ میں بغیر اس سے جسمانی رابطہ کیے ڈالا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ کافی حد تک محفوظ سمجھی جانے والی ایپل کی مشینیں بھی اس کے نشانہ سے نہیں محفوظ رہ سکتیں۔ محض ایک بے قصور سا پیغام پڑھے جاتے ہی یہ سافٹ ویئر کسی بھی اکیوپمنٹ میں ایسے وائرس کو داخل کرادے گا، جس سے اس اکیوپمنٹ کی ساری سرگرمیوں تک اس کے ہینڈلر کی پہنچ ممکن ہوجائے گی۔ یہ وائرس اکیوپمنٹ میں دستیاب کیمرہ، وائس ریکارڈر، میل، جغرافیائی موجودگی یا کوئی بھی دوسرا ایپ، جسے ڈاؤن لوڈ کیا گیا ہوگا، اپنے ہینڈلر تک قابل رسائی کرادے گا۔ اس میں یہ بھی صلاحیت ہے کہ پکڑے جانے کا خطرہ ہونے پر یا غلطی سے کسی دوسرے سم کارڈ سے رابطہ ہوجانے پر یہ خود کو تباہ بھی کرسکتا ہے۔ شاید اس کی انہی صلاحیتوں کے سبب تیار کرنے والی کمپنی پر پابندی ہے کہ وہ اس پروڈکٹ کو کسی غیرسرکاری تنظیم کو نہیں فروخت کرے گی۔
کوئی شک نہیں کہ ملک میں فون ٹیپنگ کے لیے ایک مقررہ قانونی عمل ہے، لیکن پیگاسس جیسے سافٹ ویئر تو بغیر کسی جائز قانون کے استعمال میں لائے جاسکتے ہیں۔ یہ اپنے پیچھے کوئی نشان نہیں چھوڑتے، اس لیے بعد میں قصوروار کا پتہ لگانا بھی تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ خطرہ جتنا بڑا ہے، اس میں جمہوریہ کے سارے اداروں کو سرجوڑ کر ایک ساتھ غور کرنا ہوگا اور اس سے نمٹنے کے لیے مل کر حکمت عملی بنانی ہی ہوگی، تبھی جمہوریت محفوظ رہ سکے گی۔
دنیا کی تو چھوڑیں، ایسا بھی نہیں کہ ہندوستان میں پہلی مرتبہ اپنے مخالفین کی جاسوسی کوئی حکومت کرارہی تھی۔ وزیراعظم چندرشیکھر کی حکومت اس الزام پر گرگئی تھی کہ خفیہ ایجنسی کے لوگ راجیوگاندھی کے گھر کی نگرانی کررہے تھے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ایک مقررہ عمل کے تحت مجاز اتھارٹی سے اجازت لے کر کسی کے ٹیلی فون سننا ایک قانونی کارروائی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ اس مرتبہ اتنا شورشرابہ ہورہا ہے؟ اس کے دو پریشان کرنے والے اسباب ہیں۔ ایک تو یہ سافٹ ویئر صرف حکومتوں کو فروخت کیا جاسکتا ہے اور دوسرا، شکار ہوئے لوگوں کی جو فہرست ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جاری کی ہے، وہ بڑی متنوع ہے۔
اس فہرست میں راہل گاندھی یا ممتابنرجی کے قریبی افراد کے نام تو ہیں ہی، اس میں برسراقتدار پارٹی کے ایک موجودہ اور ایک مستقبل کے وزیر کا نام بھی ہے۔ صحافیوں اور ایکٹیوسٹوں سے ہوتی ہوئی آپ کی نگاہیں ایک نام پر اٹک جاتی ہیں، جو سپریم کورٹ کی ایک سینئر خاتون اہلکار کا ہے۔ نہ صرف اس کا، بلکہ اس کے شوہر سمیت کئی رشتہ داروں کے ٹیلی فون نمبر اس فہرست میں ہیں۔ اس اہلکار نے فوراً چیف جسٹس کے خلاف جنسی ہراسانی کی ایک شکایت درج کرائی تھی۔ فون کی نگرانی اور خاتون اہلکار کی شکایت کا وقت ایک ہی ہے، اس لیے فطری طور پر کچھ سنجیدہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں۔
پالیسی وجوہات سے ہندوستان میں پیگاسس کسی غیرسرکاری ادارہ کے پاس نہیں ہوسکتا، اس لیے مزید ضروری ہے کہ حکومت واضح کرے کہ اس نے یہ سافٹ ویئر خریدا تھا یانہیں؟ محض اتنا بیان دینے سے کہ اس کی کسی ایجنسی نے فون جاسوسی نہیں کی ہے، کام نہیں چلے گا۔ ویسے بھی یہ حقوق انسانی سے منسلک معاملہ ہے اور بدقسمتی سے بین الاقوامی برادری کے سامنے ہندوستان کا ریکارڈ خراب ہوا ہے۔ اگلے ہفتہ امریکی وزیرخارجہ نئی دہلی آرہے ہیں اور ان کے مجوزہ ایجنڈے میں حقوق انسانی ایک ایشو ہے۔ قوی امکان ہے کہ پیگاسس کا معاملہ بھی اٹھے۔
این ایس او نے تنازع بڑھنے کے بعد اپنی صفائی میں کہا ہے کہ پیگاسس کے سبب کروڑوں لوگ دنیا میں چین کی نیند لے پاتے ہیں۔ بات صحیح ہوسکتی ہے، اگر اس کا استعمال مافیا یا دہشت گردگروپوں کے خلاف کیا جائے۔ پہلی مرتبہ اس سافٹ ویئر کا کامیاب استعمال میکسیکو میں ڈرگ مافیا کے خلاف کیا گیا اور تبھی دنیا کی توجہ اس کی جانب مبذول ہوئی۔ ہمارے ملک میں جہاں دہشت گرد یا منظم جرائم کے سامنے کئی مرتبہ حکومت بونی لگنے لگتی ہے، اس کا مؤثر استعمال ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ ایک دودھاری تلوار کی طرح ہے۔ یہ یاد رہے، ابھی بھی جمہوریت ہندوستانی معاشرہ میں بہت مقدس قدر نہیں بن پائی ہے، اس لیے حکومتوں کی فطری خواہش ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کی جاسوسی کرائیں۔ ایسے میں پیگاسس جیسے سافٹ ویئر کا بلاروک ٹوک استعمال سارے اداروں کے لیے، جن میں آزاد عدلیہ و صحافت بھی شریک ہیں، خطرہ ہے۔
کوئی شک نہیں کہ ملک میں فون ٹیپنگ کے لیے ایک مقررہ قانونی عمل ہے، لیکن پیگاسس جیسے سافٹ ویئر تو بغیر کسی جائز قانون کے استعمال میں لائے جاسکتے ہیں۔ یہ اپنے پیچھے کوئی نشان نہیں چھوڑتے، اس لیے بعد میں قصوروار کا پتہ لگانا بھی تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ خطرہ جتنا بڑا ہے، اس میں جمہوریہ کے سارے اداروں کو سرجوڑ کر ایک ساتھ غور کرنا ہوگا اور اس سے نمٹنے کے لیے مل کر حکمت عملی بنانی ہی ہوگی، تبھی جمہوریت محفوظ رہ سکے گی۔
(مضمون نگار سابق آئی پی ایس افسر ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)