سراج الدین فلاحی
گزشتہ سال جب پوری دنیا میں لاک ڈاؤن لگا تو لوگوں کا نقل و حمل کم ہو گیا تھا، نقل و حمل کم ہونے سے کروڈ آئل کی کھپت کم ہوگئی، کھپت کم ہونے سے مانگ میں کمی آئی جس کے نتیجے میں قیمت نیچے چلی گئی اور کروڈ آئل کی قیمت جو تقریباً 70 ڈالر فی بیرل تھی، وہ گر کر 20 ڈالر فی بیرل پر آ گئی۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے پٹرول ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کی تنظیم OPEC نے، جنہوں نے عالمی مسابقہ آرائی سے بچنے کے لیے ایک کارٹیل بنا رکھا ہے، اپریل 2020 میں پٹرول کی پیداوار کو کم کرنے کا دو سال کا ایک معاہدہ کیا۔ اوپیک نے کہا کہ اگر پٹرول کی سپلائی کم نہ کی گئی تو قیمت مزید گر جائے گی اور اس کا نقصان صرف اور صرف اس کا ہوگا، چنانچہ اس معاہدے میں طے پایا کہ وہ پٹرول کی پیداوار 10 ارب بیرل فی دن کم کرے گی جو کہ کل پیداوار کا 22 فیصد ہوتا ہے۔ اب جبکہ معیشت کھل چکی ہے، نقل و حمل بڑھنے لگا ہے تو کروڈ آئل کی مانگ میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، لہٰذا کروڈ آئل کی قیمتیں عالمی بازار میں تقریباً 75 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سرکار بار بار اس بات کا اعادہ کر رہی ہے کہ عالمی بازار میں کروڈ آئل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں پٹرول اور ڈیزل مہنگا ہو رہا ہے۔ تو کیا بات صرف عالمی بازار میں کروڈ آئل کی قیمتوں میں اضافہ تک محدود ہے؟
مہنگائی دو طرح کی ہوتی ہے۔ اشیا اور خدمات کی مانگ میں اضافے کی وجہ سے جب ان کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو اسے Demand-pull inflation کہتے ہیں اور جب خام مال یا کاسٹ بڑھنے کی وجہ سے پروڈکٹ مہنگے ہوتے ہیں تو اسے Cost-push inflation کہتے ہیں۔ ہماری معیشت میں ابھی جو مہنگائی دیکھنے کو مل رہی ہے، وہ کاسٹ میں اضافے کے سبب ہے۔ چونکہ ہمارے ملک میں تمام طرح کی اشیا کے ٹرانسپورٹیشن کا انحصار ٹرکوں پر ہے، اس لیے پٹرول اور ڈیزل کے مہنگا ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹیشن کاسٹ بڑھ گئی ہے جس کا سیدھا اثر قیمتوں پر پڑا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران صرف خوردنی تیل کی قیمت میں تقریباً 45 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ پھل، سبزیاں، دال، مسالے اور دودھ یعنی ہر وہ شے جو ہماری زندگی کے لیے ناگزیر ہے، مہنگی ہو گئی ہے، چنانچہ آپ اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ کنزیومر پرائس انڈیکس یعنی سی پی آئی کا افراط زر 6.27 فیصد اور ہول سیل پرائس انڈیکس یعنی ڈبلیو پی آئی کا افراط زر 12.9 فیصد پر پہنچ گیا ہے۔ مہنگائی کی یہ سطح ہمارے ملک میں سرکار کے ذریعے متعین کی گئی بیش ترین سطح سے بھی زیادہ ہے۔ حالات اتنے نازک ہو چکے ہیں کہ اب ماہرین معاشیات Stagflation کا خطرہ ظاہر کر رہے ہیں جس میں اشیا اور خدمات کی قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں جبکہ مانگ کم ہو نے کی وجہ سے معیشت کا پہیہ رک جاتا ہے۔ سرکار کی سر دردی یہ ہے کہ اگر وہ مہنگائی کو کنٹرول کرتی ہے تو جی ڈی پی گروتھ رک جاتا ہے اور جب جی ڈی پی کو بڑھانے کے لیے معیشت میں لیکویڈیٹی ڈالتی ہے تو مہنگائی مزید بڑھ جاتی ہے۔
پھر ان کو خریدنے کے لیے دوسری کمپنی لائی جاتی ہے اور وہ انہیں بینکوں سے لون لے کر ڈوبی ہوئی کمپنی کو کوڑیوں کے دام خرید لیتی ہے جن بینکوں کو پہلی کمپنی نے چونا لگایا تھا۔ ذرا سوچئے کہ یہ اور اس طرح کے گیم جب ہمارے معاشی نظام کا حصہ بن جائیں جن کے ذریعے بینکوں میں رکھی عوام کی گاڑھی کمائی کو یہ بڑے کھلاڑی بڑی آسانی سے لوٹ رہے ہوں تو پھر مہنگائی کا کیا رونا؟
پٹرول اور ڈیزل پر اکسائز ڈیوٹی اور ویٹ کے نام سے مرکزی اور ریاستی سرکاریں جتنی وصولیا ں کر رہی ہیں، ان سے پہلے اتنی وصولی کبھی نہیں ہوئی تھی۔ 2014 میں جب نئی حکومت بنی تو اس وقت پٹرول پر اکسائز ڈیوٹی کے نام سے اس نے تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپے کمائے تھے، اس سال یہ رقم ساڑھے چار لاکھ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ریاستی سرکاریں بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ اس وقت وہ بھی پٹرول اور ڈیزل پر بھاری ویٹ لگا کر پیسے بنا رہی ہیں۔ 2014 میں ریاستی سرکاروں نے ویٹ کے ذریعے 137 ہزار کروڑ روپے کمائے تھے۔ اس سال یہ کمائی دو لاکھ کروڑ سے زیادہ ہے۔ پہلے مہنگائی کی شرح بڑھتی تھی تو لوگوں کی فی کس آمدنی بھی بڑھتی تھی، اب معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس بار مہنگائی بڑھی ہے لیکن لوگوں کی فی کس آمدنی گھٹ گئی ہے۔ آئی ایم ایف کے اعداد وشمار دیکھیں تو ہندوستان میں فی کس آمدنی گھٹ کر ایک لاکھ روپے سے بھی کم ہو گئی ہے جبکہ پڑوسی بنگلہ دیش اور سری لنکا میں فی کس آمدنی ہندوستان سے زیادہ ہے۔ اتنی کم فی کس آمدنی کے باوجود ہندوستان پوری دنیا میں پٹرول اور ڈیزل پر ٹیکس لگانے والے ممالک کی فہرست میں اونچا مقام رکھتا ہے۔ دھیان رہے کہ کسی بھی ملک کی معیشت میں مہنگائی جب لگاتار بڑھتی ہے تو معیشت میں Wage-price spiral کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ اس صورت حال میں مہنگائی کی وجہ سے چونکہ قوت خرید کم ہو جاتی ہے، اس لیے مہنگائی بھتا کے نام پرملازمین کی تنخواہیں بڑھتی ہیں اور بڑھی ہوئی تنخواہ کی وجہ سے مہنگائی مزید بڑھ جاتی ہے یعنی قیمت اور اجرت دونوں ایک دوسرے کا تعاقب کرتی ہیں۔ مہنگائی جب طویل عرصے تک قائم رہتی ہے تو اس ملک کا ایکسپورٹ عالمی بازار میں مہنگا ہونے کی وجہ سے اپنا وقار کھونے لگتا ہے اور پھر وہاں زرمبادلہ کی کمی ہونے لگتی ہے جس کے نتیجے میں امپورٹ کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے اور خام مال کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ نتیجتاً ملک میںایف ڈی آئی کا فلو بھی رک جاتا ہے۔
سرکار پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں لگاتار اضافہ کر رہی ہے۔ اس نے ایک سال تک ملک کے 80 کروڑ غریب عوام کو ماہانہ پانچ کلو اناج مفت دیا ہے جس کی وجہ سے سرکاری خزانے پر سوا دو لاکھ کروڑ کا بوجھ پڑا ہے۔ حالانکہ گزشتہ ایک سال کے اندر امپورٹ ڈیوٹی کی وجہ سے ریفائنڈ اور پام آئل کی قیمتوں میں تقریبا 45 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اکسائز اور ویٹ کے نام پر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں 60 فیصد بڑھی ہیں۔ ایل پی جی میں 31، دالوں میں 12، پھل اور سبزیوں میں تقریباً 9 فیصد کا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اسی لیے وہ کمپنیاں جو اشیائے خوردونوش فروخت کرتی ہیں، ان کی آمدنی گزشتہ ایک سال میں ساڑھے چار لاکھ کروڑ روپے بڑھی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جن کمپنیوں کے پروڈکٹ کووِڈ کی وبا میں سب سے زیادہ مہنگے ہوئے ہیں، ان کمپنیوں نے سیاسی فنڈنگ بھی خوب کی ہے۔ کیا یہی وجہ نہیں ہے کہ اس وقت ملک کی ایک بڑی آبادی اس قدر آلام و مصائب کا شکار ہو گئی ہے کہ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق پچھلے سال کی نسبت اس سال 20 فیصد زیادہ خود کشی کے معاملات سامنے آئے ہیں۔ ہندوستان جہاں تقریباً ایک تہائی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے وہاں بڑی کمپنیاں نہ صرف اپنی مصنوعات کو بیچ کر بھاری منافع کما رہی ہیں بلکہ نئی کمپنیوں کو خریدنے کے لیے بینکوں سے قرض بھی لے رہی ہیں، قرض لے کر خود کو دیوالیہ بھی ڈکلیئر کروا رہی ہیں۔ پھر ان کو خریدنے کے لیے دوسری کمپنی لائی جاتی ہے اور وہ انہیں بینکوں سے لون لے کر ڈوبی ہوئی کمپنی کو کوڑیوں کے دام خرید لیتی ہے جن بینکوں کو پہلی کمپنی نے چونا لگایا تھا۔ ذرا سوچئے کہ یہ اور اس طرح کے گیم جب ہمارے معاشی نظام کا حصہ بن جائیں جن کے ذریعے بینکوں میں رکھی عوام کی گاڑھی کمائی کویہ بڑے کھلاڑی بڑی آسانی سے لوٹ رہے ہوں تو پھر مہنگائی کا کیا رونا؟
[email protected]