نرنکار سنگھ
کورونا وبا سے پوری دنیا میں مچے ہاہاکار کے دوران یہ سوال ایک مرتبہ پھر بحث کا موضوع بن گیاہے کہ کیا کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ زمین سے انسانوں کا وجود ہی ختم ہوجائے؟ تاریخ کے صفحات میں ایسا بہت کچھ ہے جس سے اس خدشہ کو تقویت ملتی ہے۔ حالاں کہ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا ہے کہ زمین پر سے مکمل انسانی نسل کا خاتمہ ہوگیا ہو۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ مستقبل میں ایسا نہیں ہوسکتا۔ دنیا کے مشہور سائنٹسٹ اسٹیفین ہاکنگ تو یہ پیشین گوئی کرچکے تھے کہ اگلے 100-200برسوں میں زمین پر ایسے واقعات رونما ہوسکتے ہیں جس سے مکمل انسانی نسل کا نام و نشان ہی مٹ جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انسانی نسل کو بچانے کے لیے ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم جلد سے جلد چاند اور دیگر سیاروں پر بستیاں بسانے کی کوشش تیز کریں۔
آج سے تقریباً 26کروڑ سال پہلے زمین کو بڑے پیمانے پر تباہی جھیلنی پڑی تھی۔ اس دوران پوری زمین سے چرند-پرند مٹ گئے تھے۔ اسی کے ساتھ ہی زیرزمین اور بیرونی وجوہات سے زمین میں اب تک بڑے پیمانہ پر تباہی کے واقعات بڑھ کر 6ہوگئے ہیں۔ امریکہ میں نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر میشیل ریمپنو کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانہ پر تباہی کے اسباب کی جانچ کے بعد ہی ہم یہ جان پانے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ اب تک کتنی مرتبہ زمین میں بڑے پیمانہ پر تباہی کے واقعات ہوچکے ہیں۔ قبل میں ہوئی ریسرچ سے پتاچلتا ہے کہ بڑے پیمانہ پر تباہی کے سبھی واقعات ماحولیاتی اتھل پتھل کا نتیجہ تھے۔ اس دوران بڑے پیمانہ پر سیلاب اور آتش فشاں پھٹنے کے واقعات ہوئے۔ اس سے لاکھوں کلومیٹر تک زمین میں لاوا پھیل گیا تھا اور زمین جانداروں سے خالی ہوگئی تھی۔
کیا سچ مچ اس صدی کے ختم ہوتے ہوتے انسان کا وجود اس زمین سے مٹ جائے گا؟ اب یہ سوال انسانی نسل کے لیے تشویش کا موضوع بن گیا ہے۔ کیا کوئی وبا، ایٹمی جنگ، ماحولیاتی تبدیلی، مصنوعی ذہانت، بائیوانجینئرنگ، آبادی دھماکہ یا کوئی بڑا دہشت گردانہ حملہ زمین پر جانداروں کی زندگی کو بحران میں ڈال دے گا؟ انسانی نسل کی تاریخ میں ہرہزار سال کے بعد ایسے دور آتے رہے ہیں جب ایک تہائی آبادی ہی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مکمل انسانی نسل معدوم ہوگئی ہو۔ ایک ہزار سال پہلے پوری دنیا میں پلیگ کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ 76ہزار سال پہلے 90فیصد انسانی نسل ہی ختم ہوگئی تھی۔ جینیاتی ثبوتوں (genetics evidence) سے پتا چلتا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آگیا تھا جب زمین پر 10ہزار کے آس پاس ہی لوگ بچے تھے۔
آج ہمارے سامنے سب سے بڑا خطرہ ایٹمی جنگ کا ہے۔ گزشتہ صدی کی چوتھی دہائی میں تو امریکہ اور سوویت یونین ایک دوسرے کو ختم کرنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ لیکن تب کسی طرح سے یہ خطرہ ٹل گیا تھا۔ ایٹمی جنگ بغیر کسی منصوبہ کے بھی شروع ہوسکتی ہے۔ خطرے کی ایک گھنٹی بھی ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتی ہے۔ 1995میں امریکہ نے شمالی علاقہ میں فلیش لائٹ کے مطالعہ کے لیے ایک راکٹ چھوڑا تھا۔ تب روس کے لوگوں نے صدر سے کہا تھا کہ یہ ایٹمی جنگ ہے۔ لیکن روسی صدر نے کہا کہ یہ ایٹمی جنگ نہیں ہے۔ لیکن آج پھر دنیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ جنوبی بحرالکاہل میں امریکہ اور چین کی افواج آمنے سامنے ہیں۔ شمالی کوریا کے صدر کم بار بار امریکہ کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ ایران امریکہ کے درمیان کشیدگی عروج پر چل ہی رہی ہے۔ پاکستان بھی ہندوستان کو بار بار اپنے ایٹمی بموں کی دھمکی دیتا رہتا ہے۔ افغانستان میں طالبان پھر سے اقتدار پر قبضہ کرنے میں لگے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دہشت گرد ایٹمی اسلحہ پر قبضہ کرلیں اور پھر دنیا میں ایٹمی جنگ شروع ہوجائے۔ حالاں کہ ایٹمی جنگ سے پوری انسانی نسل کو خطرہ نہیں ہے۔ لیکن دنیا کے کئی شہر نیست و نابود ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس جنگ سے پوری دنیا میں دھول کے بہت بڑے غبار بنیں گے اور ماحول تبدیل ہوجائے گا۔ماہرین کے مطابق دھول کے یہ غبار دہائیوں تک بنے رہ سکتے ہیں۔ اس سے سورج کی روشنی زمین پر آنا بند ہوجائے گی۔ تب فصلیں بھی پیدا نہیں ہوں گی۔ انسانی نسل کے ساتھ ساتھ دیگر چرند پرند کا وجود بھی خطرے میں پڑجائے گا۔ ایسے میں دنیا کی بہت بڑی آبادی ختم ہوسکتی ہے۔
اقـوام مـتـحـدہ کـی ایک رپـورٹ مـیـں بـھـی انـتـبـاہ دیـا گیا تھا کہ ہمارے پـاس زمـیـن کـو بـچـانـے کـے لـیـے بـہـت ہـی کم وقت رہ گیا ہـے۔ اگـر ہـم نـے کاربن اخـراج روکنـے کـے لیـے صـحـیـح قـدم نـہـیـں اٹـھـائـے تـو 2050 تک انـسـان بـھـی نـاپـیـد ہـونـے کـے دہـانـے پـر آجـائـیـں گـے۔ ہـمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ سبھی ممالک کی حـکـومـتـوں کـو اب مل کـر اس کے لیے کام کـرنا ہـوگا۔
لندن یونیورسٹی میں کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق انسانی نسل کے سامنے ایک بڑا بحران آبادی کے دھماکہ کا ہے۔ بڑھتی آبادی اور ماحولیات میں تبدیلی اتفاق نہیں ہے۔ ہم دنیا کی موجودہ آبادی کا ہی پیٹ نہیں بھرپارہے ہیں۔ بڑھتی آبادی کی وجہ سے غذا کا بحران کھڑا ہونے لگا ہے۔ کھیتی کی زمین سکڑتی جارہی ہے اور وہ بنجر زمین میں تبدیل ہورہی ہے۔ ایسے میں سب کے لیے اجناس کہاں سے آئے گا، یہ کوئی نہیں سوچ رہا۔ بڑھتی آبادی کے ساتھ ساتھ وسائل کی کمی آج سب سے بڑا بحران ہے۔
آسٹریلیا میں کی گئی ایک ریسرچ سے پتا چلتا ہے کہ کیسے ماحولیاتی تبدیلی کے سبب اگلی تین دہائیوں میں انسانی تہذیب ختم ہوسکتی ہے۔ سننے میں ایسا لگتا ہے کہ یہ بہت بڑھا چڑھا کر بتایا جارہا ہے، لیکن اس کے سچ ہونے کے امکانات تصور سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اس مفکر گروپ نے وارننگ دی ہے کہ انسانی تہذیب اگلی تین دہائیوں سے زیادہ نہیں بچ پائے گی۔ اس برس 2050تک زمین کا اوسطاً درجہ حرارت تین ڈگری تک بڑھ جائے گا۔ اس ریسرچ کو سمجھاتے ہوئے آسٹریلیائی ڈیفنس فورس کے چیف اور رائل آسٹریلیائی نیوی کے ایڈمیرل کرس بیری بتاتے ہیں کہ یہ رپورٹ انسان اور زمین کی افسوسناک حالت کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ انسانی زندگی اب خوفناک طور پر ناپید ہونے کے دہانے پر ہے اور اس کی وجہ ہے آب و ہوا کا بحران۔
آب و ہوا میں تیزی سے ہورہی تبدیلی انسانی وجود کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے۔ ایسا خطرہ جو اب بے قابو ہے۔ زمین پر ایٹمی جنگ کے بعد انسانی زندگی کو دوسرا بڑا خطرہ بڑھتے عالمی درجہ حرارت سے ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بھی انتباہ دیا گیا تھا کہ ہمارے پاس زمین کو بچانے کے لیے بہت ہی کم وقت رہ گیا ہے۔ اگر ہم نے کاربن اخراج روکنے کے لیے صحیح قدم نہیں اٹھائے تو 2050تک انسان بھی ناپید ہونے کے دہانے پر آجائیں گے۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ سبھی ممالک کی حکومتوں کو اب مل کر اس کے لیے کام کرنا ہوگا۔ اس ریسرچ سے وابستہ محققین نے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اگلی تین دہائیوں تک کا ایک منظرنامہ تیار کیا ہے۔ اس کے مطابق اگلی تین دہائیوں میں دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی اور زمین کے 35فیصد حصہ کو سال میں 20دن جان لیوا گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ زرعی مصنوعات کے پانچویں حصہ میں کٹوتی ہوگی۔ امیزن کا ماحولیاتی نظام تباہ ہوچکا ہوگا۔ آرکٹک زون گرمیوں میں برف سے پاک ہوجایا کریں گے۔ سمندر کی آبی سطح آدھے میٹر سے بھی زیادہ بڑھ جائے گی۔ ایشیا کی سبھی بڑی ندیوں کا پانی زیادہ مقدار میں خشک ہوجائے گا۔ ایک ارب سے زیادہ لوگ اپنے گھر چھوڑ کر دوسری جگہ آباد ہونے کے لیے مجبور ہوجائیں گے۔ اور زمین کا ایک تہائی حصہ ریگستان میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ انسانی وجود کے لیے یہ بڑے چیلنجز ہیں۔
(بشکریہ: جن ستّا)