فضائی آلودگی موجب قہر

0

خوب سے خوب تر کی تلاش میں آسمانوں کی سیر کرنے والی زمینی دنیا پرگزشتہ دو دہائیوںسے قدرتی آفات عذاب مسلسل کی طرح نازل ہورہی ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ سن 2000کے موازنہ میں قدرتی آفات کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہوگئی ہے ا وراس کی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں بتائی جارہی ہیں۔ دنیابھر میں ہونے والی ان موسمیاتی تبدیلیوں سے براعظم ایشیا سب سے زیادہ متاثر ہے۔اس دوران ایشیا میں 3,068 بڑے واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں۔چھوٹے واقعات کا شمار ہی نہیں ہے۔ اس حوالے سے اقوا م متحدہ نے تنبیہ کی ہے کہ سن 2030 تک قدرتی آفات سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں 50 فیصد تک کا اضافہ ہوجانے کا خدشہ ہے۔لیکن ایسی تنبیہات پر کوئی بھی کان نہیں دھرتا ہے اور نہ آفات سے نمٹنے کی پیش بندی کی جاتی ہے۔ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کی حالت تو ا ور بھی ناگفتہ بہ ہے۔ہندوستان کے حوالے سے اگر دیکھاجائے تو یہاںقدرتی آفات کی قہر سامانی میں روز بروز اضافہ ہورہاہے تازہ واقعہ آسمانی بجلی گرنے کا ہے جس کی وجہ سے مختلف ریاستوں میں چند سیکنڈ کے دوران 80افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ قدرتی آفت سے ہونے والی بے وقت موت کو روکنے کی تدبیر پر ٹھوس عمل کیاجائے۔اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ قدرت کی جانب سے آنے والی کسی بھی آفت پر انسان کا قابوپالینا ممکن نہیں ہے لیکن اس سے بچائو اور محفوظ رہنے کی تدبیر پر عمل کرکے انسانی زندگیاں ضرور بچائی جاسکتی ہیں۔
اتر پردیش، راجستھان، جھارکھنڈ، بہارا ور مدھیہ پردیش میں بارش کے ساتھ قہر بن کر گرنے والی آسمانی بجلی سے 80 سے زیادہ افراد کی موت ہوجانا یہ بتاتاہے کہ بجلی گرنے کے واقعات سے بچائو کی نہ تو کوئی تدبیر اختیار کی جاتی ہے اورا گر کوئی تدبیر ہے بھی تو اس پر عمل آوری کیلئے عوام میں ویسی بیداری نہیں ہے۔ بجلی گرنے کے فوراً بعد اتراکھنڈ کے دھرم شالہ میں بادل پھٹنے کاواقعہ بھی قدرتی آفت ہی ہے۔اس طرح کے واقعات ہرسال کئی بار پیش آتے ہیں لیکن ان سے بھی محفوظ رہنے کا کوئی طریقہ اب تک نہیں اختیار کیاجاسکاہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہر سال ہندوستان میںسیکڑوں لوگ آسمانی بجلی کی وجہ سے جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق قدرتی آفتوں سے ہونے والی اموات ایک تہائی سے زیادہ آسمانی بجلی کی وجہ سے ہوتی ہیں اوراس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان آفات سے محفوظ رہنے کے سلسلے میں بیداری نہیں لائی جاتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت اور زیادہ تر ریاستوں میں آسمانی بجلی گرنے کو قدرتی آفت یاڈیزاسٹر ہی تسلیم نہیں کیاجاتا ہے جب کہ اس آفت سے ہونے والی اموات میں لگاتار اضافہ ہورہاہے۔ یکم اپریل 2019 سے 31 مارچ 2020 کے درمیان آسمانی بجلی کی وجہ سے 2876لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ اترپردیش میں سب سے زیادہ283، مدھیہ پردیش میں248، بہار میں221، اڑیسہ میں200اور جھارکھنڈ میں172لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ ان ہی پانچ ریاستوںمیں60فیصد سے زیادہ اموات درج کی گئی ہیں۔ 2004کے بعد سے ہندوستان میں ہر سال بجلی گرنے سے اوسطاً2000 افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔جب کہ 1968 سے 2004 کے درمیان ایسے واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد سالانہ 1500 اوسطاً رہی ہے۔ 2020 کے واقعات کا مکمل ڈیٹا اب تک جاری نہیں کیا گیا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ تیزی سے ہونے والی بے قابو شہر کاری اور پیڑوںکی کٹائی ان واقعات اور ان سے ہونے والی اموات کی تعداد بڑھانے کی اہم وجہ ہیں۔ کئی ایسے مطالعات سامنے آئے ہیں جن سے پتہ چلا ہے کہ اب دیہی علاقوں کے مقابلے شہری علاقوں میں بجلی گرنے کے واقعات بڑھے ہیں۔قدرتی واقعہ ہونے کے سبب اس میں ہونے والے اضافہ کی بالکل ہی درست وجہ بتانا توممکن نہیں ہے لیکن بے قابو طریقے سے ہونے والی شہر کاری اس کی اہم وجہ ہے۔ ماہرین نے گلوبل وارمنگ کو بھی ایسے واقعات کا سبب بتایا ہے۔ شہری علاقوں میںپیڑوں کی کٹائی میں آنے والی تیزی کی وجہ سے بھی ایسے واقعات کا سلسلہ تیز ہوجاتا ہے۔ان ہی وجوہات سے دیہی علاقوں کے مقابلے شہری علاقوں میں لگاتار گرمی بڑھتی جارہی ہے۔ شہری علاقوں میں بڑھتی آلودگی اور کاربن کا اخراج بھی ان واقعات میں اضافہ کا سبب ہے۔ میگھالیہ اور شمال مشرقی ریاستوں میں اب بھی ہریالی رہنے کی وجہ سے وہاں بجلی گرنے اوراس سے ہونے والی اموات کی تعداد ملک کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ایسے میں ضرورت ہے کہ ہم ترقی کے نا م پر قدرتی وسائل کو ختم کرنے کا سلسلہ بند کریں۔جنگلات اور پیڑوں کی کٹائی کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے جائیں ساتھ ہی ان واقعات پرتحقیق اوردرست انتباہی سسٹم وضع کیے جائیںتاکہ اس سے ہونے والے جان و مال کے نقصان کو کم کیاجاسکے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS