بھارتی دارالحکومت نئی دہلی پولیس کے ترجمان چنمئے بسوال نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ہمیں نیشنل سائبر کرائم پورٹل کی جانب سے ایک شکایت موصول ہوئی ہے۔ یہ شکایت سلّی ڈیل نامی ایک ایپ کے سلسلے میں ہے۔ جنسی ہراسانی کے دفعات کے تحت کیس درج کیا گیا ہے اور ہم اس کی تفتیش کر رہے ہیں۔”
اس سے قبل قومی خواتین کمیشن اور دہلی خواتین کمیشن نے بھی دہلی پولیس کمشنر کو نوٹس بھیج کر اس معاملے میں کارروائی کرنے کے لیے کہا تھا۔
A group of men made a database of Muslim women and named it “Sulli Deals”. Images of Muslim women, including mine, were shared there. It is a clear case of trafficking, which is legally and morally wrong. But here, a particular section is openly supporting them. (1/3)
— Saniya Sayed (@Ssaniya_) July 5, 2021
معاملہ کیا ہے؟
گزشتہ اتوار اور پیر کو متعدد مسلم خواتین کی تصویروں کے ساتھ ‘سلّی فار سیل‘ نام سے ایک اوپن سورس ایپ بنا کر اسے GitHub نامی ایک مقبول ہوسٹنگ پلیٹ فارم پر جاری کیا گیا۔’سُلّی‘ دراصل مسلم خواتین کے لیے توہین آمیز لفظ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
اس ایپ میں استعمال ہونے والی مسلم خواتین کی تصاویر اور دیگر معلومات ٹوئٹر سے لی گئی تھیں۔ اس ایپ میں اسّی سے زائد مسلم خواتین کی تصاویر، ان کے نام اور ٹوئٹر ہینڈلز دیے گئے تھے۔ ان خواتین میں صحافی اور پائلٹ بھی شامل تھیں۔ اس ایپ کے سب سے اوپر لکھا تھا،”فائنڈ یو ر سلّی ڈیل”۔ اس پر کلک کرنے پر ایک مسلم خاتون کی تصویر، نام اور ٹوئٹر ہینڈل کی تفصیلات سامنے آجاتی تھی۔
Issued Notice to Police on a very serious matter of cyber crime where pictures of several Muslim women were displayed online without their consent and termed as ‘Sulli Deal of the day’. FIR should be registered and strong action should be taken. #SulliDeals pic.twitter.com/MyvKGTsvJ1
— Swati Maliwal (@SwatiJaiHind) July 7, 2021
اس ایپ کو ہوسٹنگ پلیٹ فارم پر ڈالنے کے بعد متعدد مسلم خواتین کو ہراساں کرنے کی شکایتں موصول ہوئیں۔ بعض خواتین نے اس سلسلے میں پولیس سے شکایت بھی کی تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ بیشتر نے سماجی بدنامی کے خوف اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے شکایت درج کرانا مناسب نہیں سمجھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر اس طرح کی ہراسانی سے بہت خوف زدہ ہیں۔
سخت مذمت
متعدد مسلم تنظیموں کے علاوہ صحافیوں کی انجمنوں نے بھی اس کی سخت مذمت کرتے ہوئے پولیس سے قصورواروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے مسلم خواتین بشمول صحافیوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر اہانت آمیز رویے پر سخت اعتراض کیا ہے۔
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کے جنرل سکریٹری سنجے کپور نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”یہ درپردہ حملہ دراصل سماج کے بعض طبقات میں خواتین اور بالخصوص مسلم عورتوں نیز موجودہ حکومت کی کھل کر نکتہ چینی کرنے والی خواتین کے تئیں درپردہ منافرت کی علامت ہے۔”
Didn't check Twitter last night. Woke up this morning to realise my name, along with those of many other Muslim women was up on GitHub as a list of "Sulli Deals". Thankfully by the time I came across it, it had been taken down. But just the screenshots sent shivers down my spine. pic.twitter.com/CGXivEyjyC
— Fatima Khan (@khanthefatima) July 5, 2021
ٹویٹر بھارت میں خصوصی قانونی تحفظ سے محروم ہو گیا
ٹک ٹاک: پاکستان میں پابندیوں کے سبب چھ ملین ویڈیوز ہٹا دیں
سنجے کپور نے بتایا کہ انہوں نے قومی خواتین کمیشن نیز قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو خط لکھ کر کہا ہے کہ اس مسئلے پر فوراً کارروائی کریں اور قصورواروں کا پتہ لگا کر انہیں سخت سزائیں دیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کو بھی ایسی حرکتوں پر لگام لگانے کے لیے مناسب اور فوری اقدامات کرنے چاہییں۔
سوشل میڈیا سے حذف
معاملہ سنگین ہوتے دیکھ ہوسٹنگ پلیٹ فارم گٹ ہب نے اس ایپ کو ہٹا دیا۔ گٹ ہب کی سی ای او ایریکا بریسکیا نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا،”ہم نے اس معاملے میں یوزر اکاؤنٹ معطل کر دیا ہے۔ رپورٹ کی بنیاد پر معاملے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ گٹ ہب کی پالیسیاں ایسے مواد، جو ہراساں کرنے، تفریق کرنے اور تشدد کو بڑھاوا دینے والوں، کے خلاف ہیں۔ یہ مواد ہماری پالیسیوں کے خلاف ہے۔”
گٹ ہب نے تاہم یہ نہیں بتایا کہ اس کے پلیٹ فارم پر اس طرح کا مواد کیسے شائع ہو گیا۔
گوگل نے کنّڑ کو ‘غلیظ ترین بھارتی زبان‘ بتانے پر معذرت کر لی
پاکستان میں تنقیدی یوٹیوب چینلز، حکومتی ارادے کیا ہیں؟
مسلم خواتین کی تصاویر کو چرا کر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ڈالنے کے واقعات ہوتے رہے ہیں
یہ سلسلہ پرانا ہے
مسلم خواتین کی تصاویر کو چرا کر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ڈالنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ماضی میں اس طرح کے متعدد واقعات ہوتے رہے ہیں۔
گزشتہ مئی میں ہی عید کے دوران دائیں بازو کے عناصر نے مسلم خواتین کی تصاویر چرا کر ٹوئٹر اور یو ٹیوب پر’نیلامی‘ کے لیے ڈال دی تھیں۔ حتی کہ یوٹیوب پر مسلم خواتین کی ویڈیو ڈال کر لکھا گیا تھا،”ان کا دیدار کرکے اپنی آنکھوں کو سکون پہنچائیں۔”