لاپروائی کے حادثات اور سوال

0

یوگیش کمار گوئل

گزشتہ دنوں آگرہ کے دھریائی گاؤں میں چار سالہ بچہ اپنے ہی گھر کے باہر تقریباً 180فٹ گہرے گڑھے(بورویل) میں گر گیا تھا۔ غنیمت یہ رہی کہ اتنے گہرے گڑھے میں گرنے کے باوجود ڈیزاسٹر مینجمنٹ ٹیم نیشنل ڈیزاسٹر رسپونس فورس(این ڈی آر ایف) کی ریسکیوٹیم نے اس بچہ کو کچھ ہی گھنٹوں کے اندر بچالیا۔ دراصل بچہ کے گھر کے باہر یہ گڑھا کھلا پڑا تھا۔ اس سے قبل 6مئی کو راجستھان کے جالور ضلع کے سنچورعلاقہ میں بھی چار سال کا بچہ انل کھیلتے کھیلتے 95فٹ گہرے گڑھے میں گرگیا تھا۔ تب اسے بچانے کے لیے این ڈی آر ایف کی تین ٹیموں کو کئی گھنٹے سخت مشقت کے باوجود کامیابی نہیں مل پائی تھی اور تب دیسی جگاڑ کے سہارے 16گھنٹے بعد بچہ کو صحیح سلامت باہر نکالا جاسکا تھا۔ لیکن ہر بچہ تو ایساخوش قسمت نہیں ہوتا، جسے موت کے منھ سے زندہ باہر نکال لیا جاتا ہو۔
گزشتہ سال 2دسمبر کو اترپردیش کے مہوبہ ضلع کے کلپہاڑ علاقہ کے بودھورا گاؤں میں چار سالہ ایک بچہ کھیت میں کھیلتے وقت وہاں کھلے پڑے 30فٹ گہرے گڑھے میں گرگیا تھا۔ این ڈی آر ایف کی ٹیم نے 20گھنٹے کی بچاؤ مہم کے بعد اسے باہر تو نکال لیا تھا، لیکن تب تک اس کی سانسیں تھم چکی تھیں۔ اس بچہ کے والد نے فصلوں کی سینچائی کے لیے کھیت میں کھدائی کرائی تھی لیکن بورنگ کامیاب نہیں ہونے پر گڑھے کو بند کرانے کے بجائے اسے پتھر سے ڈھک کر چھوڑ دیا تھا۔ کھیت میں کھلا پڑا تین فٹ گہرا یہی گڑھا بچہ کے لیے موت ثابت ہوا۔

سپریم کورٹ نے برس2010میں نوٹس لیتے ہوئے کچھ ہدایات جاری کی تھیں۔ 2013میں کئی ہدایات میں اصلاح کرتے ہوئے نئی ہدایات جاری کی گئیں، جن کے مطابق گاؤوں میں ٹیوب ویلوں کی کھدائی سرپنچ اور ایگریکلچرل ڈپارٹمنٹ کے افسران کی نگرانی میں کرانی لازم ہے، جب کہ شہروں میں یہ کام گراؤنڈ واٹر ڈپارٹمنٹ، ہیلتھ ڈپارٹمنٹ اور میونسپل کارپوریشن کے انجینئر کی دیکھ ریکھ میں ہونا لازمی ہے۔

تشویش کی بات یہ ہے کہ بیداری کے باوجود ایسے حادثات گزشتہ کچھ برسوں سے مسلسل سامنے آرہے ہیں۔ لیکن ان سے ہم نے اب تک بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ایسے حادثات پر فل اسٹاپ لگانے کے لیے اب تک کہیں کوئی کارگر کوشش ہوتی بھی نظر نہیں آئی۔ ایسے حادثات میں اکثر فوج اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی بڑی ناکامیوں کے سلسلہ میں بھی سوال اٹھنے لگے ہیں کہ خلا تک میں اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہورہے ہندوستان کے پاس چین اور کچھ دیگر ممالک جیسی خودکار ٹیکنالوجی (automated technology) کیوں نہیں ہیں، جن کا استعمال کرکے ایسے معاملات میں بچوں کو نسبتاً کافی جلدی گہرے کنوؤں سے باہر نکالنے میں مدد مل سکے۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخر بار بار ہوتے ایسے دردناک حادثات کے باوجود ملک میں ٹیوب ویلوں کے گڑھے کب تک اسی طرح کھلے چھوڑے جاتے رہیں گے اور کب تک معصوم جانیں ان میں پھنس کر اسی طرح دم توڑتی رہیں گی۔ کوئی بھی بڑا حادثہ ہونے کے بعد انتظامیہ کے ذریعہ ان گہرے گڑھوں کو کھلا چھوڑنے والوں کے خلاف مہم چلا کر سختی کی باتیں دہرائی تو جاتی ہیں، لیکن بار بار سامنے آتے ایسے حادثات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ سختی کی یہ سب باتیں کسی حادثہ کے سامنے آنے پر لوگوں کے غم و غصہ کے ختم ہونے تک ہی برقرار رہتی ہیں۔ اس کے بعد لوگ بھی بھولنے لگتے ہیں اور انتظامیہ بھی پہلے کی طرح ہی لاپروا ہوجاتا ہے۔
ایسے حادثات کے لیے گڑھوں کو کھلا چھوڑنے والے کھیت مالکان کے ساتھ ساتھ گرام پنچایت اور مقامی انتظامیہ بھی برابر کے قصوروار ہوتے ہیں۔ دو برس پہلے مدھیہ پردیش میں دیواس ضلع کے ایک گاؤں میں ایک شخص کو کھیت میں خشک بورویل کھلا چھوڑ دینے کے جرم میں ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ نے دو سال کی بامشقت قید اور 20ہزار روپے کے جرمانہ کی سزا سنائی تھی۔ عدالت نے حکم میں کہا تھاکہ لوگ گہرے گڑھے کھدوا کر انہیں اس طرح کھلا چھوڑ دیتے ہیں جس سے ان میں بچوں کے گرنے کے واقعات ہوجاتے ہیں۔ معاشرہ میں بڑھ رہی لاپروائی کے ایسے معاملات میں سزا دینے سے ہی لوگوں کو سبق مل سکے گا۔ اگر مدھیہ پردیش میں ضلع عدالت کے کسی فیصلہ کی طرح ایسے سبھی معاملات میں فوری انصاف کے عمل کے ذریعہ قصورواوں کو سخت سزا ملے تبھی لوگ کھلے بورویل بند کرنے سے متعلق سرگرم ہوں گے۔ ورنہ یہ گہرے گڑھے اسی طرح معصوموں کی زندگی چھینتے رہیں گے اور ہم گھڑیالی آنسو بہاتے رہ جائیں گے۔
اب تک متعدد معصوم زندگیاں ایسے گڑھوں میں سما کر زندگی کی جنگ ہارچکی ہیں۔ لیکن المیہ ہے کہ سپریم کورٹ کی سخت ہدایات کے باوجود ایسی کوششوں کی جانب پیش قدمی نہیں کی گئی جس سے ایسے معاملات پر قدغن لگ سکے۔ ملک میں ہر سال اوسطاً پچاس بچے بیکار پڑے کھلے گہرے گڑھوں میں گرجاتے ہیں اور ان میں سے بہت سے بچے انہی میں زندگی کی آخری سانسیں لیتے ہیں۔ ایسے حادثے متاثرہ کنبہ کو زندگی بھر کا ناقابل برداشت غم دینے کے ساتھ ساتھ معاشرہ کو بھی بری طرح جھنجھوڑ جاتے ہیں۔ گراؤنڈ واٹر ڈپارٹمنٹ کے اندازہ کے مطابق پورے ملک میں تقریباً 2کروڑ 70لاکھ ٹیوب ویل ہیں، لیکن ان میں کارآمد ٹیوب ویلوں کی تعداد اور بیکار ٹیوب ویلوں کی تعداد اور ان کے مالک کا قومی سطح کا کوئی ڈاٹابیس موجود نہیں ہے۔ ایسے بڑھتے واقعات کے مدنظر سپریم کورٹ نے برس2010میں نوٹس لیتے ہوئے کچھ ہدایات جاری کی تھیں۔ 2013میں کئی ہدایات میں اصلاح کرتے ہوئے نئی ہدایات جاری کی گئیں، جن کے مطابق گاؤوں میں ٹیوب ویلوں کی کھدائی سرپنچ اور ایگریکلچرل ڈپارٹمنٹ کے افسران کی نگرانی میں کرانی لازم ہے، جب کہ شہروں میں یہ کام گراؤنڈ واٹر ڈپارٹمنٹ، ہیلتھ ڈپارٹمنٹ اور میونسپل کارپوریشن کے انجینئر کی دیکھ ریکھ میں ہونا لازمی ہے۔ عدالت کی ہدایات کے مطابق بورویل کھدوانے کے کم سے کم 15دن پہلے ضلع مجسٹریٹ(ڈی ایم)، گراؤنڈ واٹر ڈپارٹمنٹ، ہیلتھ ڈپارٹمنٹ اور میونسپل کارپوریشن کو اطلاع دینی لازمی ہے۔ بوریل کی کھدائی سے پہلے اس جگہ پر وارننگ کا بورڈ لگایا جانا اور اس کے خطرے کے بارے میں لوگوں کو الرٹ کیا جانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ایسی جگہ کو خاردار تاروں سے گھیرنے اور اس کے آس پاس کنکریٹ کی دیوار کھڑی کرنے کے ساتھ گڑھوں کے منھ کو لوہے کے ڈھکن سے ڈھکنا بھی لازمی ہے۔ لیکن ان ہدایات پر کہیں عمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ ورنہ اتنے زیادہ حادثات کیوں ہوتے! سپریم کورٹ کی ہدایات میں واضح ہے کہ بورویل کی کھدائی کے بعد اگر کوئی گڑھا ہے تو اسے کنکریٹ سے بھردیا جائے، لیکن ایسا نہ کیا جانا ہی حادثات کا سبب بنتا ہے۔ ایسے حادثات میں نہ صرف بے گناہ معصوموں کی جان جاتی ہے بلکہ بچاؤ کے کاموں پر بے پناہ دولت، وقت اور محنت بھی برباد ہوتی ہے۔
اکثر ہوتا یہی ہے کہ تیزی سے پانی کی کم ہوتی زمینی سطح کے سبب ٹیوب ویلوں کو چالو رکھنے کے لیے کئی مرتبہ انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا پڑجاتا ہے اور پانی کم ہونے پر جس جگہ سے ٹیوب ویل ہٹایا جاتا ہے، وہاں لاپروائی کے سبب بورویل کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کہیں کھودے گئے گڑھوں یا خشک ہوچکے کنوؤں کو بوری، پالی تھین یا لکڑی کے پھٹوں سے ڈھک دیا جاتا ہے تو کہیں انہیں پوری طرح سے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے اور انجانے میں ہی کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش آجاتا ہے تو کسی کنبہ کو پوری زندگی کا ناقابل برداشت درد دے جاتا ہے۔ نہ صرف حکومت بلکہ معاشرہ کو بھی ایسی لاپروائیوں سے متعلق الرٹ رہنا ہوگا تاکہ مستقبل میں پھر ایسے دردناک حادثات نہ ہوں۔ ملک میں ایسی خودکار تکنیکوں کا بھی انتظام کرنا ہوگا، جو ایسے سنگین حالات میں فوراً راحت مہیا کرنے میں کامیاب ہوں۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS