ذیابیطس نے بڑھایا بلیک فنگس کا خطرہ

0

پنکج چترویدی

کووڈ کی دوسری لہر کو ملک نے بہت ہی مشکل حالات میں جھیلا،بے بس نظام کے سامنے دوا، آکسیجن، بستروں کی کمی کے درمیان اپنوں کو مسلسل کھوتے ہوئے اور پھر اکیلے پڑتے ہوئے۔ یقینا کورونا وائرس کی اس نئی شکل کی پہیلی ابھی بھی سلجھی نہیں ہے اور ہمارا صحت نظام ملک اوردنیا کے تجربات کی بنیاد پر علاج کی پالیسی بنارہا ہے اور گزشتہ دو ماہ میں دیکھیں تو علاج کے طے شدہ سبھی معیار کو خود ہی مسترد کرچکا ہے۔ اس جلدبازی اور وسائل کی کمی کے درمیان ہندوستان کو نئی دقت نے گھیر لیا ہے اور اس خوفناک بیماری کا بھی نہ تو معقول علاج ہے اور نہ ہی جو بھی علاج دستیاب ہے اس کے لیے لازمی دوا-انجکشن۔ بلیک فنگس کے سبب اموات، آنکھ نکالنے یا جبڑا کاٹنے کے جو معاملات سامنے آرہے ہیں، اس نے کووڈ کی دہشت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اصل میں ہمارا نظام دوررس سوچ نہیں رکھتا ہے اور مسئلہ کے بڑھنے اور اس کے مہنگے علاج کے لیے ساری طاقت لگادیتا ہے۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ فنگس کا حملہ تب ہی ہوتا ہے جب کسی کے جسم کی قوت مزاحمت بہت کمزور ہو، ورنہ فنگس تو ہمارے ماحول میں زمین کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی رہے ہیں۔ اس بات پر کسی کی آخر توجہ کیوں نہیں گئی کہ ہندوستان کو ذیابیطس یا شوگر کی عالمی راجدھانی کہا جاتا ہے۔ دو سال پہلے کے سرکاری اعدادوشمار کو صحیح مانیں تو اس وقت ملک میں کوئی 7کروڑ 30لاکھ لوگ ایسے تھے جو ذیابیطس یا شوگر کی زد میں آچکے تھے۔ اندازہ ہے کہ 2045 تک یہ تعداد13کروڑ پار کرجائے گی۔
شوگر ویسے تو خود میں ایک بیماری ہے لیکن اس کے سبب جسم کے کھوکھلا ہونے کا جو عمل شروع ہوتا ہے، اس سے مریض کسی بھی باہری بیکٹیریا، جراثیم وغیرہ سے نبردآزما ہونے میں کمزور ہوجاتا ہے۔ کووڈ کے سبب ایک تو جسم کی قوت مزاحمت ختم ہوئی پھر اگر کسی مریض کے خون میں شوگر لیول زیادہ ہے یا اس کے لبلبہ(pancreas) میں مناسب انسولین نہیں بنتی تو وہ کسی بھی طرح کے انفیکشن کو برداشت نہیں کرپاتا۔ مسلسل کئی دنوں تک آئی سی یو کے مصنوعی ماحول میں رہنے اور پھر اچانک قدرتی ماحول میں آنے سے کووڈ میں مبتلا مریضوں کا نظام تنفس (respiratory system) متاثر ہوا۔ مسلسل کئی دنوں تک آکسیجن دینے اور اس کے لیے استعمال پانی کو یا تو نہ بدلنے یا پھر پانی کے آلودہ ہونے سے فنگس پنپنے کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی نہیں آکسیجن دینے کا پلاسٹک کا آلہ مسلسل منھ-ناک پر لگے ہونے اور اس دوران ناک-منھ کی صفائی نہ ہونے سے وہاں کف جمع ہونے کے سبب اس جگہ پر فنگس پنپنا ایسی عام وجوہات ہیں جو انڈین میڈیکل سسٹم کی لاپروائی سے فنگل مرض پھیلنے کے اسباب بنے ہیں۔

امریکہ کے نیشنل سینٹر آف بائیوٹکنالوجی انفارمیشن(این سی بی آئی) کی ریسرچ میگزین میں اس سال اپریل میں ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں انتباہ دیا گیا تھا کہ کس طرح بے قابو ذیابیطس کووڈ-19کے چیلنجز میں اضافہ کردے گی اور اس میں بھی فنگس حملہ کا اشارہ تھا۔ باوجود اس کے ہمارے صحت نظام نے کووڈ سے نمٹنے میں نہ ہی ذیابیطس اور نہ ہی میوکورمائیسٹ مولڈ پر توجہ دی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں ظاہر ہوئے بلیک فنگس کے کل معاملات میں 72فیصد ہندوستان میں ہیں۔ اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ مہلک ثابت ہوتا ہے۔ جون 2021کے پہلے ہفتہ تک ہندوستان میں بلیک فنگس کے کل 28252معاملے سامنے آئے اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق ان میں سے 62.3فیصد لوگوں کو ذیابیطس کی بیماری تھی۔ ظاہر ہے کہ ذیابیطس کے تئیں لاپروائی ہندوستان کے لیے بڑا چیلنج ہے۔

یہ بات اب حکومت بھی تسلیم کررہی ہے کہ کورونا کے علاج میں اندھادھند اسٹرائڈ کے استعمال سے مریض کا شوگر لیول بڑھ جاتا ہے، ساتھ ہی بستر پر لیٹے رہنے کے سبب ان کی کوئی جسمانی مشقت بھی نہیں ہوتی جو اس بڑھی بلڈشوگر کو متوازن کرسکے۔ ایسے میں بلیک فنگس کے انفیکشن کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اسٹرائڈ کے استعمال سے جسم کی قوت مدافعت کم ہوتی ہے، جس سے بلیک فنگس کے خلاف جسم میں مدافعتی نظام مؤثر طریقہ سے کام نہیں کرپاتا ہے۔ چنئی میں واقع ڈائبٹیز اسپیشلسٹ سینٹر کے چیف کنسلٹنٹ اور چیئرمین ڈاکٹر وی موہن کے مطابق ذیابیطس کے علاوہ صفائی اور آلودہ آلات کے سبب بھی بلیک فنگس کے معاملات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ڈاکٹر موہن کا کہنا ہے کہ کورنا کیسز اتنے زیادہ آرہے ہیں کہ اسپتالوں میں صفائی پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی جارہی ہے، اس کے سبب اِکوپمنٹ پر فنگس جمع ہونے کا خدشہ بڑھتا ہے۔
جاننا ضروری ہے کہ آج جسے میوکوکوسس کہا جارہا ہے وہ حقیقت میں بہت پرانا مرض جائیگومائیکوسس ہی ہے جو ایک سنگین فنگل انفیکشن(rare fungal infection)ہے۔ یہ ففنگس ہمارے ماحول میں مٹی، پتیوں، سڑی لکڑی اور سڑی ہوئی کھاد، کسی بھی سیلن والی جگہ پر بڑے پیمانہ پر ہوتا ہے۔ میوکورمائیسٹ مولڈ کے سبب یہ انسان کی زندگی پر مہلک حملہ کرتا ہے۔ اس کے سبب جلد کا کالا پڑنا، سوجن، سرخی، السر، بخار کے علاوہ یہ خطرناک بیماری پھیپھڑوں، آنکھوں اور یہاں تک کہ دماغ پر بھی حملہ کرسکتی ہے۔ امریکہ کے نیشنل سینٹر آف بائیوٹکنالوجی انفارمیشن(این سی بی آئی) کی ریسرچ میگزین میں اس سال اپریل میں ایک مضمون شائع ہوا تھاجس میں انتباہ دیا گیا تھا کہ کس طرح بے قابو ذیابیطس(uncontrolled diabetes) کووڈ-19کے چیلنجز میں اضافہ کردے گی اور اس میں بھی فنگس حملہ کا اشارہ تھا۔ باوجود اس کے ہمارے صحت نظام نے کووڈ سے نمٹنے میں نہ ہی ذیابیطس اور نہ ہی میوکورمائیسٹ مولڈ پر توجہ دی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں ظاہر ہوئے بلیک فنگس کے کل معاملات میں 72فیصد ہندوستان میں ہیں۔ اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ مہلک ثابت ہوتا ہے۔ جون 2021 کے پہلے ہفتہ تک ہندوستان میں بلیک فنگس کے کل 28252معاملے سامنے آئے اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق ان میں سے 62.3فیصد لوگوں کو ذیابیطس کی بیماری تھی۔ ظاہر ہے کہ ذیابیطس کے تئیں لاپروائی ہندوستان کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
یہ سچ ہے کہ بلیک فنگس سنگین بیماری ہے اور اب سفید اور پیلے رنگ کے فنگس کے معاملے بھی سامنے آئے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر بروقت علامات نظر آتے ہی صحیح علاج کرایا جائے تو اسے ہرایا جاسکتا ہے۔ فنگس کی بیماری بنیادی طور پر تین اقسام کی ہیں- مائسیٹوما، یہ سب سے خطرناک ہے جب کہ کرومو بلاسٹومائکوسس اور فائے ہائی فومائکوسس کا آسانی سے علاج کیا جاسکتا ہے۔ اس کی شروعاتی علامات کو پہچاننا سب سے اہم ہوتا ہے، بالخصوص کووڈ سے مقابلہ کرکے گھر لوٹے مریضوں کی ناک بند ہونا یا ناک سے خون یا کالا سا کچھ نکلنا۔۔۔ گال کی ہڈیوں میں درد ہونا، ایک طرف چہرے میں درد، سُن یا سوجن ہونا، ناک کی اوپری سطح کا کالا ہونا وغیرہ کو ہلکے میں نہیں لینا چاہیے۔ اس کے علاوہ دانت ڈھیلے ہونا، آنکھوں میں درد ہونا، دھندلا نظر آنا یا دوہرا نظر آنا، آنکھوں کے آس پاس سوجن ہونا، تھران بوسس، نیکروٹک زخم اور سینے میں درد یا سانس لینے میں دقت ہونا بھی اس کی علامات ہیں۔
بلیک فنگس کا علاج تین مراحل میں کیا جاتا ہے۔ پہلے مرحلہ میں صرف انفیکشن کی وجہ کا پتا لگاکر اسے دور کرنا اور شوگر لیول اور ایسی ڈوسس کی نگرانی کی جاتی ہے۔ اس کے بعد سرجری کے ذریعہ سے فوری طور پر ڈیڈ ٹشوز ہٹائے جاتے ہیں تاکہ فنگس کو زیادہ پھیلنے سے روکا جاسکے۔ بلیک فنگس کے بہانہ حکومت کو اب یہ جان لینا ہوگا کہ ذیابیطس سے نجات کے تئیں اگر سنجیدگی نہیں دکھائی تو آنے والے دنوں میں ہمارے اسپتال نئے نئے قسم کے انفیکشنز سے بھرے ہوں گے۔ بدقسمتی ہے کہ ملک کا صحت نظام ذیابیطس کی مہنگی دوائیں زیادہ سے زیادہ فروخت کرنے کے لیے کام کررہا ہے جب کہ ضروری ہے باقاعدگی سے جانچ، کھانے پینے پر کنٹرول، اسٹیم سیل جیسے طریق علاج سے ذیابیطس سے مستقل نجات کو ترجیح دینے کی۔ فی الحال تو ذیابیطس کے مریض بلیک فنگس کے تئیں الرٹ رہیں، اپنا شوگر لیول کنٹرول میں رکھیں، ویکسین ضرور لگوائیں۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS