سراج الدین فلاحی
28 جون کو وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نے صحت، سیاحت اور چھوٹی صنعت جیسے وہ شعبہ جات جو کووِڈ کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں، ان کی بحالی کے لیے 6.28 لاکھ کروڑ روپے کے ایک بڑے معاشی یا راحت پیکج کا اعلان کیا ہے۔ لاکھوں کروڑ روپے کی معاشی مدد دے کر وزیر مالیات نے بتایا کہ اس سے نہ صرف روزگار بڑھے گا بلکہ ملک کی معیشت پر چھائے بحران کے گھنے بادل بھی چھٹیں گے اور معاشی ترقی کی رفتار تیز ہو گی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ گزشتہ سال مئی کے مہینے میں سرکار نے ملک کی معیشت کو مضبوطی فراہم کرنے کے لیے 20 لاکھ کروڑ کا ایک پیکج دیا تھا۔ اس میں سے اب تک کتنے روپے آپ کے ہاتھ لگے، یہ آپ بہتر جانتے ہوں گے۔ کووِڈ وبا کی دوسری لہر سے بدحال معیشت کو راحت دینے کے لیے سرکار نے ایک بار پھر اسی اینٹی بائیوٹک کا استعمال کیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ پیکج بھی اسی کی توسیع ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سرکار کے پاس کوئی نئی سوچ یا معقول منصوبہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پچھلے سال والی اسکیموں کا اعادہ کر رہی ہے۔ قبل اس کے کہ ہم سرکار کے ذریعے دیے گئے معاشی پیکج کا تجزیہ کریں، پیکج میں کیا ہے، پہلے اس پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔
اہم سوال لوگوں کے ذہنوں میں اٹھ رہا ہے کہ سرکار ڈائریکٹ کیش ٹرانسفر کی جگہ صرف لون دے رہی ہے، چنانچہ اس قرض کو دینے کے لیے وہ گارنٹی بھی دے رہی ہے، شرح سود بھی کم کر رہی ہے اور رہن رکھنے کی شرط بھی ہٹا رہی ہے لیکن ان حالات میں جبکہ ملک کی ایک بڑی تعداد کے پاس قوت خرید نہیں ہے، کوئی قرض لے کر کیا کرے گا؟
وزیر مالیات نے 8 نئی یوجناؤں کا اعلان کیا ہے جن میں بطور خاص پسماندہ علاقوں میں انفرااسٹرکچر کو سدھارنے اور بہتر سہولیات مہیا کرنے کے لیے 50 ہزار کروڑ کی کریڈٹ گارنٹی اسکیم ہے۔ یہ لون گارنٹی اسکیم ایک لاکھ 10 ہزار کروڑ روپے کی ہے جس میں 50 ہزار کروڑ روپے ہیلتھ سیکٹر کے لیے اور باقی دیگر شعبہ جات کے لیے ہیں۔ گویا اب اگر کوئی ہاسپٹل، نرسنگ ہوم وغیرہ بنوانا چاہتا ہے تو وہ بینکوں سے 7.95 فیصد کی شرح سود پرسو کروڑ روپے تک کا لون لے سکتا ہے۔ اگر وہ کسی وجہ سے لیا گیا لون بینکوں کو واپس لوٹا نہیں سکا تو اس اسکیم کے تحت سرکار اس کی گارنٹر بنی رہے گی۔ اس کے علاوہ کووِڈ کی مار جھیل رہی ٹورسٹ کمپنیوں کو 10 لاکھ اور ٹورسٹ گائیڈوں کو ایک لاکھ کا قرض سرکار کی گارنٹی پر دیا جائے گا، ساتھ ہی ابتدائی 5 لاکھ غیر ملکی سیاحوں کی ویزا فیس معاف کر دی جائے گی تاکہ زیادہ سے زیادہ سیاح ہندوستان آئیں اور سیاحت کو فروغ حاصل ہو۔ MSME یعنی چھوٹی صنعتوں کو سہارا دینے کے لیے سرکار نے پچھلے سال جو 3 لاکھ کروڑ روپیوں کی ایمرجنسی گائیڈ لائنز جاری کی تھیں، اس کا سائز بڑھا کر اب ساڑھے چار لاکھ کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ یہاں بھی سرکار گارنٹی لے رہی ہے یعنی اس اسکیم کے تحت چھوٹے صنعت کاروں کو بغیر کسی گارنٹی کے لون ملے گا۔ اس کے علاوہ سرکار نے ایک نئی اسکیم کا اعلان کیا ہے جس میں 25 لاکھ چھوٹے کاروباری بطور خاص دیہی علاقوں میں کیرانا اسٹور، جنرل اسٹور وغیرہ جن کو لون کی ضرورت ہے، ان کو سوا لاکھ روپے تک کا لون رعایتی شرح سود پر دیا جائے گا۔ آتم نربھر بھارت روزگار یوجنا اور نئے روزگار پیدا کرنے پر ملنے والی اِن سینٹو اسکیم بھی ایک سال تک کے لیے بڑھا دی گئی ہیں۔
6.28 لاکھ کروڑ روپے کے معاشی پیکج کا اگر آپ بغور مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ سرکار نے ڈوبتی معیشت کو پھر سے لون کے حوالے کر دیا۔ سوال صرف یہ نہیں ہے کہ سرکار کی ان یوجناؤں سے کس کو اور کتنا فائدہ ہو گا، اہم سوال یہ بھی ہے کہ چھوٹی صنعتوں کو سہارا دینے کے لیے سرکار نے پچھلے سال جو 3 لاکھ کروڑ روپے کی کریڈٹ گارنٹی اسکیم جاری کی تھی، اس سے تو ابھی تک صرف 2.69 لاکھ کروڑ روپے کا لون ہی لیا گیا ہے یعنی پیسہ اسکیم کے سائز سے کم اٹھا ہے۔ ایسے میں اس اسکیم میں 1.5 لاکھ کروڑ روپے بڑھانے کا کیا مطلب؟ اگر اسکیم کے سائز سے زیادہ عرضیاں پڑی ہوتیں یعنی لوگ لون کی ڈیمانڈ زیادہ کر رہے ہوتے تب اس اسکیم کے سائز کو بڑھانے کا کچھ حاصل ہوتا۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ یہ کریڈٹ گارنٹی اسکیم غریبوں کے لیے کوئی معاشی اسکیم تو ہے نہیں، کیونکہ لون تو لون ہوتا ہے۔ تمام شرطیں پوری کرنے کے بعد لون صرف لینا ہی نہیں ہوتا بلکہ اسے سود سمیت لوٹانا بھی ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سرکار کووِڈ سے متاثر چھوٹی صنعتوں کو مضبوطی فراہم کرنے کے لیے معاشی مدد کے نام پر لون بانٹ رہی ہے۔ تیسرا اہم سوال جو ابتدا سے ہی لوگوں کے ذہنوں میں اٹھ رہا ہے کہ سرکار ڈائریکٹ کیش ٹرانسفر کی جگہ صرف لون دے رہی ہے، چنانچہ اس قرض کو دینے کے لیے وہ گارنٹی بھی دے رہی ہے، شرح سود بھی کم کر رہی ہے اور رہن رکھنے کی شرط بھی ہٹا رہی ہے لیکن ان حالات میں جبکہ ملک کی ایک بڑی تعداد کے پاس قوت خرید نہیں ہے، کوئی قرض لے کر کیا کرے گا؟ کسی بھی کاروباری کو قرض کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب اس کے سامنے خریداروں کی قطاریں ہوں، مال بک رہا ہو اور اس کے پاس خام مال خریدنے کے لیے ، سپلائی چین بنانے کے لیے پیسے نہ ہوں یعنی پیسہ نہ ہونے کی صورت میں وہ مال نہ خرید پا رہا ہو اور خریداروں کو سامان نہیں دے پا رہا ہو تو وہ لون کی طرف بھاگتا ہے۔ اس وقت جبکہ بازار میںبے روزگاری عروج پر ہے، ڈیمانڈ نچلی سطح پر ہے، کارخانے اور کاروبار بند پڑے ہیں، غیر یقینی صور حال کے مدنظرلوگوں کے دلوں میں ڈر سمایا ہوا ہے جس کے نتیجے میں پیسے والے لوگ بھی سامان نہیں خرید رہے ہیں تو کاروباری لون لے کر کیا کریں گے؟ مگر سرکار ہے کہ صرف لون بانٹنے پر آمادہ نظر آ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سرکار مہنگائی سے عام لوگوں کی معیشت بگاڑ کر ملک کی معیشت سدھارنے میں جٹی ہے، چنانچہ پہلے وہ ٹیکس کی شکل میں غریبوں کی جیب سے پیسے نکالتی ہے اور پھر راحت پیکج کے نام پر لون بانٹتی ہے۔
دنیا کی کسی بھی بڑی معیشت میں جب سرکار کہتی ہے کہ ہم اتنا بڑا پیکج لے کر آ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ گویا وہ یہ کہہ رہی ہے کہ ہم اپنی جیب سے عوام یا چھوٹے کاروباریوں کی جیب میں اتنا پیسہ منتقل کریں گے یا سرکار کا Net cash outflow اتنا ہو گا۔ تقریباً 8 فیصد کی شرح سود پر لون کی شکل میں پیسے دے کر اسے راحت یوجنا کیسے کہا جا سکتا ہے؟ جہاں تک موجودہ سرکار کی یوجناؤں کی بات ہے تو MOSPI کے ذریعے دیے گئے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں، آپ دیکھیں گے کہ 2014 کے بعد یعنی گزشتہ 7 برسوں کے دوران سرکار نے 1768 پروجیکٹوں یا یوجناؤں کا اعلان کیا ہے لیکن ان میں 995 یوجنائیں ایسی ہیں جو ابھی تک شروع نہیں ہوئی ہیں اور جو شروع ہوئی ہیں، ان میں بیشتر دیری سے چل رہی ہیں، اس لیے یوجناؤں کا اعلان سننے سے قبل یہ بات بھی دھیان میں رکھنی چاہیے کہ پچھلی یوجناؤں کا کیا حشر ہوا۔
بہر کیف، سرکار لون بانٹ رہی ہے۔ امید ہے، اب لوگ لون لیں گے، امید یہ ہے کہ لیے گئے لون سے چھوٹے صنعت کاروں کا کاروبار چل پڑے گا اور امید یہ بھی ہے کہ یہ صنعت کار اس لون کو چکا بھی سکیں گے۔ ویسے امید پر ہی دنیا قائم ہے۔
[email protected]