ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی نے معمول کی ہفت روزہ بریفنگ کے دوران جمعے کے روز ان خبروں کی واضح طورپر تردید کی کہ وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے طالبان رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کی ہے۔
اریندم باگچی کا کہنا تھا،”ہم نے وزیر خارجہ کے طالبان کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے میڈیا میں بعض رپورٹیں دیکھی ہیں۔ لیکن میں واضح طور پر ان دعووں کی تردید کرتا ہوں کہ وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے کسی طالبان رہنما سے ملاقات کی ہے۔ اس طرح کی خبریں جھوٹی اور شرانگیز ہیں۔”
شبہات نے کیوں جنم لیا؟
گزشتہ ماہ کے اوائل میں ہندوستانی وزیر خارجہ کینیا جاتے ہوئے دوحہ میں اچانک رکے تھے۔ انہوں نے وہاں قطر کے قومی سلامتی مشیر سمیت کئی عہدیداروں سے ملاقات کی تھی۔ دوحہ میں قیام کے سلسلے میں پہلے سے کوئی سرکاری اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنے مختصر قیام کے دوران افغانستان سے امریکی اور بین الاقوامی فورسز کی واپسی کے بعد افغانستان کی ممکنہ صورت حال پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
اس ملاقات کے بعد ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ بھارتی وزیر خارجہ نے طالبان کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کی، جنہوں نے جے شنکر کو یقین دلایا کہ عسکریت پسند تنظیم کا مستقبل میں بھارت کے ساتھ تعلقات میں پاکستان کا کوئی رول نہیں ہوگا۔
طالبان سے متعلق بھارتی پالیسی میں بڑی تبدیلی
طالبان کے ساتھ بھارتی رہنما کے ملاقات کی خبروں کو اس وقت مزید تقویت ملی جب قطر کے ایک سینئر سفارت کارنے بتایا کہ بھارت افغانستان میں مستقبل کے ایک اہم عنصر طالبان کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے جمعے کے روز بھی کہا کہ بھارت افغانستان میں تمام امن مساعی اور اس میں شامل مختلف فریقین کی حمایت کرتا ہے۔
بھارت نے وزیر خارجہ جے شنکر کی طالبان رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کی خبروں کو’جھوٹا اورشرانگیز‘ قرار دیا ہے
بات چیت ہورہی ہے؟
بھارتی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر نہ سہی لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت کسی نہ کسی سطح پر طالبان کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔
اسٹریٹیجک امور کے ماہر قمرآغا نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان سے بات چیت کرنے کے لیے بھارت پر اس وقت کافی دباؤ ہے کیونکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ طالبان اقتدار میں آ سکتے ہیں۔ ”ہندوستان کے اندر سفارت کاروں کا ایک بڑا گروپ طالبان کے ساتھ بات چیت کا حامی ہے۔ اور چونکہ خطے کے بعض ممالک نے طالبان کے ساتھ بات چیت شروع کردی ہے ایسے میں بھارت نہیں چاہے گا کہ وہ اکیلا رہ جائے۔‘‘
’ہندوستان کو طالبان کے ساتھ براہ راست بات کرنا چاہیے‘
موقف میں تبدیلی کا سبب
برسوں قبل امریکا نے ‘اچھے طالبان اور برے طالبان‘کی اصطلاح پیش کرکے طالبان کے ساتھ با ت چیت شروع کی تھی۔ اس وقت بھارت نے بات چیت کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ’اچھے طالبان‘جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ اس لیے طالبان سے بات چیت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
ہندوستان کے سابق خارجہ سیکرٹری ششانک کہتے ہیں کہ اب طالبان سے بات چیت کرنے کے پیچھے ہندوستان کے تین مقاصد ہوسکتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں افغانستان میں بھارت کی طرف سے مختلف ترقیاتی منصوبوں میں کی گئی تقریبا ً تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی حفاظت کرنا، تشدد کی وجہ سے ملک چھوڑنے والے افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو ہندوستان آنے سے روکنا اور دہشت گرد تنظیموں سے لڑائی کے حوالے سے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا۔
ششناک کے مطابق بھارت میں کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ طالبان کے ساتھ تعلقات رکھنے سے بھارت کو آنے والے دنوں میں پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
ہندوستان کے متعدد سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کو طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے چاہئیں
طالبان کے ساتھ تعلق رکھنا ضروری کیوں؟
ہندوستان کے متعدد سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کو طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔ بھارتی وزارت خارجہ میں سیکرٹری کے عہدے پر کام کرچکے وویک کاٹجو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلاء کی وجہ سے وہاں جو صورت حال پیدا ہورہی ہے اس کے مدنظر طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے۔
دنیا کو افغانستان میں پاکستانی ‘کارستانیوں‘ کا پتا ہے، بھارت
معروف تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاونڈیشن کے سینئر فیلو سوشانت سرین کا خیال ہے کہ بھارت سرکار کو طالبان کے ساتھ رابطہ ضرور رکھنا چاہئے کیونکہ بھارت کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ طالبان بالواسطہ طور پر کس حد تک پاکستان کے مفادات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ آنے والے دنوں میں اگر طالبان نے پورے ملک پر قبضہ کرلیا تو ایسے میں اس کے بھارت سے کیا توقعات ہوں گے۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کے تقریبا ً چار سو اضلاع میں سے کم از کم پچاس پر طالبان نے قبضہ کرلیا ہے۔ تاہم میڈیا رپورٹوں کے مطابق طالبان ایک سو کے قریب اضلاع پر قبضہ کرچکے ہیں۔
افغانستان میں ہندوستان کی طرف سے مختلف ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی کی گئی ہے
طالبان کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی وجہ
بعض ہندوستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ جیسی تنظیمیں موجود ہیں اور مستقبل میں ان کے طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ہندوستان کا افغانستان کے حوالے سے پاکستان پر بالواسطہ حملہ
ہندوستانی صحافی اور ‘دی گریٹ گیم ان افغانستان‘ کے مصنف کلول بھٹاچاریہ کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ بھارت طالبان کو اسلامک اسٹیٹ کے خلاف ایک تدارک کے طورپر استعمال کرنا چاہتا ہو کیونکہ بھات میں جو دہشت گردانہ واقعات ہو رہے ہیں ان میں اسلامک اسٹیٹ کے کسی نہ کسی طرح ملو ث ہونے کے اشارے مل رہے ہیں۔
کلول بھٹاچاریہ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”جموں میں بھارتی فضائیہ کے اڈے پر جو ڈرون حملہ ہوا اس میں اسلامک اسٹیٹ کے ملوث ہونے کے آثار ملے ہیں جس سے ہندوستان کی فکر مندی بڑھ گئی ہے۔”