ہندوستان میں ٹوئٹر پر عتاب

0

اس مطالبہ کی معقولیت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہندوستان میں کاروبار کرنے والے ہر ملکی اور غیر ملکی ادارہ کو ہندوستان کے قانون کی پاسداری کرنی ہوگی۔ قانون اس لیے بنائے جاتے ہیںکہ فرائض اور حقوق کا تعین ہو، ہر فریق ایک دوسرے کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے۔اس سے معاشرہ میں نظم و نسق قائم رہتا ہے اور امن و امان کے بہتر ماحول میں ترقی اور خوشحالی کے راہ کھلتی ہے۔قانون تسلیم نہ کرنے کی صورت میں مواخذہ اور سزا کا تعین بھی اسی امن و امان کی بحالی اور معاشرہ کو منظم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ لیکن اگر اپنے ناقدین کو بر بنائے دشمنی قانون کے دائرہ میں لاکر انہیں سبق سکھانے کا معاملہ ہو تو پھر اس سے اتفاق کرنا مشکل ہوجاتا ہے اوراس کی معقولیت پربھی شبہات کے بادل منڈلانے لگتے ہیں۔ مرکزی حکومت اور ٹوئٹر کے درمیان جاری تنازع میں یہ طے کرنا ضروری ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے ؟ کیا ٹوئٹر ہندوستان کے قانون کی پابندی سے گریزاں ہے یایہ صورتحال اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ اس نے حکومت کی تنقید کرنا بند نہیں کی ہے؟ بعض افراد یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ فیس بک اورا نسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا آئوٹ لیٹ کو حکومتی ہدایات کی تعمیل میں کوئی دشواری نہیں ہے تو پھر ٹوئٹر کوہی ہندوستان کے قانون کی پابندی میں کیوں مسئلہ ہو رہا ہے؟ آج ہی مختلف ریاستوں کی پولیس نے قانون کی پاسداری نہ کرنے کے الزام میں ٹوئٹر کے خلاف مختلف مقدمات درج کیے ہیں۔ٹوئٹر پر عام لوگوں کے جذبات مجروح کرنے اور بچوں کے جنسی اور جسمانی استحصال کے تازہ الزام میں یہ مقدمات درج کیے گئے ہیں۔اس سے قبل ٹوئٹر کے کیریئر سائٹ پر غلط طریقہ سے ہندوستان کا نقشہ پیش کیے جانے کے خلاف بھی اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں شکایتیں درج ہوچکی ہیں۔تازہ معاملہ، بچوں کے جنسی اور جسمانی استحصال کو فروغ دیے جانے کے الزام میں، دہلی میں درج کیاگیا ہے۔ حالانکہ اب تک اس معاملے میں ٹوئٹر کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں آیا ہے لیکن ٹوئٹر کا یہ دعویٰ رہاہے کہ بچوں کے جنسی استحصال اور اس قبیل کے دیگر معاملوں کے حوالہ سے وہ صفررواداری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔اسی طرح اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے مرکزی حکومت اور ٹوئٹر کے مابین بھی کئی اختلافات ہیںتاہم یہ صورتحال سوشل میڈیا کے دوسرے آئوٹ لیٹ فیس بک یا انسٹاگرام کے ساتھ نہیں ہے۔
بارہا یہ دیکھاگیا ہے کہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں فیس بک اور ٹوئٹر کے راستے الگ الگ ہیں۔ سیاسی تشہیر، جعلی خبریں یا حکومتوں کے خلاف تنقید ہو اس جیسے بہت سے معاملات میںفیس بک کے مقابلے ٹوئٹر نے سیاسی اور معاشرتی طورپر کہیں زیادہ باشعور ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ہندوستان میں بھی معاملات کو دیکھنے اور پرکھنے میں ٹوئٹر کے اس رویہ اور اس کے زیادہ بالغ نظر کردارکو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ مرکزی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی جب یہ شکایت کرتے ہیں کہ ٹوئٹر نے جان بوجھ کر ہندوستان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے قوانین کی پاسداری نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس شکایت کے بین السطور پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سمجھنابھی ضر وری ہے کہ کیا نفاذ قانون کے اس ارادہ کے پس پشت کوئی دوسرا مقصد تو کارفرما نہیں ہے؟ کہیںزبان بندی کیلئے حکومت کا یہ آمرانہ رجحان تو نہیں ہے؟
حکومت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ میں سوشل میڈیا کمپنیوں کیلئے جو ’ رہنما ہدایات‘ رکھی ہیں اس کا مقصد بظاہر یہ یقینی بنانا ہے کہ کوئی بھی فرد یا ادارہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا استعمال کرکے نفرت، بغض اور تشدد کو ہوا نہ دے سکے۔ لیکن گزشتہ مہینہ مئی 2021 میں ان رہنما ہدایات میں رازداری کی خلاف ورزیوں کی جو حدود مقررکی گئی ہیں،ا ن کے حوالے سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اوراسے اظہار رائے کی آزادی پر پابندی اور پرائیویسی کے خلاف حکومت کا آمرانہ رجحان بھی کہاجاتارہاہے۔
ٹوئٹر کے خلاف حکومت کی کارروائی میں بعض حلقے دشمنی کی بو بھی محسوس کررہے ہیں۔اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ہندوستان میں نفرت، تشدد اور اس نوعیت کے دیگر معاملات میں ہونے والی تنقیدکو ٹوئٹر نے اہتمام سے پیش کیا ہے۔خبروں کی ثقاہت کے حوالے سے بھی حکومت کے علی الرغم ٹوئٹر کا اپنا ایک رویہ رہاہے۔ دبائو قبول کرنے کی بجائے اس نے ہمیشہ اپنے تئیں کام کیا ہے۔
ان سب کے باوجود ملک میں اگر کسی کاروبار یا سرگرمی کیلئے قانون ہے تو اس کی پاسداری متعلقین پر لازم ہے۔قانون کی حکمرانی کیلئے یہ صورتحال کبھی گوارا نہیں کی جاسکتی ہے کہ کوئی ادارہ یا فرد اس سے جان بوجھ کر گریزاختیار کرے۔ ہندوستان کے انفارمیشن ٹیکنالوجی قوانین کے حوالے سے ٹوئٹر کے اس رویہ کی حمایت نہیں کی جاسکتی ہے تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت نے سوشل میڈیا کیلئے جو رہنما ہدایات مقرر کی ہیں کہ اس کا غیر جانبدارانہ جائز ہ لیا جائے اور اگر یہ ناقابل قبول ہوں تو انہیں منسوخ کیا جائے۔ یہ صرف سوشل میڈیاہی نہیں بلکہ شہری کی انفردای آزادی کا بھی معاملہ ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS