برہم دیپ الونے
کنٹرول اور توازن عالمی سسٹم کی لازمی شرط رہی ہے۔ بین الاقوامی سیاست میں تسلط قائم رکھنے کے لیے امریکہ سمیت یوروپ کے طاقتور ممالک مسلسل کوشاں اور الرٹ رہے ہیں۔ 1949میں امریکہ اور یوروپ کی سکیورٹی کو نظر میں رکھتے ہوئے قائم کی گئی فوجی تنظیم ناٹو کا اولین ہدف شمالی اٹلانٹک علاقہ میں اشتراکیت کو روکنا اور امن و نظم و ضبط بنائے رکھنا رہا تھا۔ لیکن تیزی سے بدلتے بین الاقوامی سسٹم میں یوروپ اور امریکہ کی مناسبت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ فوجی تنظیم سیاسی اور معاشی اہداف کی جانب بھی مائل ہوتی گئی۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ناٹو کے لیے روس سب سے بڑا چیلنج سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ صورت حال تبدیل ہوگئی ہے۔ اجتماعی سکیورٹی کی سب سے بڑی اور طاقتور علاقائی تنظیم ناٹو کے حالیہ سمٹ میں چین کو سب سے بڑا خطرہ مانتے ہوئے ناٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹین برگ نے ممبرممالک سے چین کو قابو کرنے کی پالیسی پر کام کرنے کے لیے کہا۔
اس کے پہلے ناٹو کے کئی یوروپی شراکت دار اور ممبرممالک چین کو ایک معاشی حریف کی طرح تو دیکھتے تھے مگر چین کے معاشی رشتوں سے متعلق پرجوش بھی رہتے تھے۔ چین اور یوروپی یونین ایک دوسرے کے بڑے بزنس پارٹنر بھی ہیں۔ اس وقت چین امریکہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے یوروپی یونین کا سب سے بڑا بزنس پارٹنر بن گیا ہے۔ کورونا وبا کے سبب یوروپ کے اہم پارٹنر ممالک کے درمیان بزنس کم ہوا، لیکن چین کا بزنس زیادہ متاثر نہیں ہوا۔ گزشتہ سال اہم عالمی معیشتوں میں چین ہی واحد ملک تھا جہاں معاشی ترقی دیکھی گئی۔ یہی نہیں یوروپی یونین اور چین اپنے معاشی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی مسلسل کوشش کرتے نظر آئے۔
چین روس کے مقابلہ کہیں بہتر حریف بن کر امریکہ کے سامنے آیا ہے اور بائیڈن اس سے نمٹنے کے لیے یوروپ کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ دنیا میں ایسے بھی کئی ممالک ہیں جو ناٹو کے ممبر نہیں ہیں، لیکن وہ ناٹو کے ممبرممالک سے فوجی گٹھ بندھن کرتے رہے ہیں۔ بہرحال بائیڈن نے چین پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی کو مضبوطی سے بڑھایا ہے۔ وہ ناٹو اور گروپ-7کے ممالک کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں کہ چین کی جانب سے جارحانہ، غیرمتوازن اور عدم استحکام والی سرگرمیاں یوروپ کو بحران میں ڈال سکتی ہیں۔ اس لیے چین کو روکنا بے حد ضروری ہے۔
اب ناٹو اور گروپ-7(جی-7) کا چین سے متعلق جو انتہائی غیرمتوقع رُخ سامنے آیا ہے، اس سے لگتا ہے کہ امریکی صدر بائیڈن اپنے ملک کے اثر کا استعمال کرکے یوروپ کے ممالک کو صف آرا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ یہ چین پر امریکہ کی بڑی سفارتی جیت ہے۔ ناٹو نے چین کو اجتماعی سکیورٹی کے لیے چیلنج بتاکر پہلی مرتبہ امریکہ کی چین کے تئیں جارحانہ اور کنٹرول کرنے کی پالیسی کو اپنی مکمل حمایت دینے کی جانب قدم بڑھایا ہے۔ گروپ-7کے ممالک نے بھی چین کے شن جیانگ میں اویغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی پامالی اور ہانگ کانگ میں جمہوریت کو کچلنے کی کوششوں کی بڑی تنقید کی۔ اس کے پہلے ٹرمپ کی مدت کار میں امریکہ یوروپ کے ساتھ شراکت میں اضافہ اور اپنے بین الاقوامی مفادات کے فروغ میں ناکام رہا تھا۔ صورت حالت اتنی خراب ہوگئی تھی کہ ٹرمپ نے ناٹو کے ساتھ شراکت کو آگے بڑھانے سے متعلق شکوک و شبہات میں اضافہ کردیا تھا۔ لیکن اب بائیڈن انتظامیہ کا اثر جی-7سے لے کر ناٹو تک پر نظر آرہا ہے۔ اس سے نمٹنا چین کے لیے آسان نہیں ہوگا۔
گزشتہ کچھ برسوں میں چین نے یوروپ کے کئی ممالک کو تجارتی اور امداد کی سفارت کاری کے ذریعہ سیاسی اور معاشی طور پر متاثر کیا ہے۔ امریکہ کو لگتا ہے کہ آنے والے وقت میں چین کا یوروپ پر اثر اسٹرٹیجک بحران میں اضافہ کرسکتا ہے۔ امریکہ کے خدشہ کو تقویت چین کی سامراجی پالیسیوں سے ہی ملی ہے۔ اس وقت جنوب مشرقی یوروپ میں چین نے اپنا معاشی اثر تیزی سے قائم کیا ہے۔ یہ علاقہ امریکہ اور یوروپ کے لیے سکیورٹی کے نقطہ نظر سے بھی بے حد حساس ہے۔ جزیرہ نما بلقان(balkan peninsula) یہیں واقع ہے جو مغرب میں ایڈریاٹک بحیرئہ، بحیرئہ روم اور جنوب میں بحیرئہ مرمرا اور بحیرئہ اسود سے گھرا ہے۔ چین نئے سلک روڈ کے ذریعہ اس علاقہ کے ممالک میں نہ صرف اپنا رتبہ بڑھا رہا ہے، بلکہ قرض ڈپلومیسی سے اس نے کئی ممالک پر اپنا تسلط بھی قائم کرلیا ہے۔ کئی ممالک کی بندرگاہوں کی تعمیر میں چینی کمپنیوں کا بڑا کردار ہے۔ قرض کے نام پر چین ان ممالک میں اپنے فوجی اڈے بناسکتا ہے اور یوروپ کی سکیورٹی کے لیے بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں لیتھوانیہ نے چین کی معاشی پالیسیوں کی تنقید کرتے ہوئے چین کی قیادت والے سی ای ای سی(چین اور مشرق وسطیٰ کے یوروپی ممالک کے مابین اتحادی) سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا اور یوروپ کے اتحاد وسکیورٹی کے لیے باقی ممالک سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ چین کی معاشی پالیسیوں کے جال سے فوراً باہر نکلیں۔ چین نے آپسی تعاون کے نام پر 2012میں اسے بنایا تھا۔ غور طلب ہے کہ 2019 میں لیتھوانیہ کے اسٹیٹ سکیورٹی ڈپارٹمنٹ اور سیکنڈ انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ نے نیشنل تھریٹ اسسمنٹ-2019 رپورٹ میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ چین کی معاشی اور سیاسی خواہشات لیتھوانیہ کے علاوہ دیگر ناٹو اور یوروپی یونین کے ممالک میں بڑھ رہی ہے۔ ساتھ ہی چینی خفیہ اور سکیورٹی خدمات کی سرگرمیاں بھی تیز ہورہی ہیں۔
چین یونان کی سب سے اہم بندرگاہ پیرے یس کو کنٹرول کرتا ہے۔ ترکی کی تیسری بڑی بندرگاہ کُم پورٹ پر بھی چین کا کنٹرول ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنوبی یوروپ کی کئی بندرگاہوں میں چین کا تعاون ہے۔ اس طرح چین کی سرمایہ کاری اور مداخلت اس کی طویل مدتی حکمت عملی کا حصہ نظر آتا ہے۔ اب ناٹو نے بھی اسے محسوس کرلیا ہے۔ اس وقت یوروپ میں چین جس سی ای ای سی منصوبہ کو لے کر تیزی سے بڑھ رہا ہے، اس میں جزیرہ نما بلقان کے سربیا، سلووینیا، البانیا، بوسنیا و ہزیگونیا، بلغاریا، کرویشیا، چیک جمہوریہ، ایسٹونیا، یونان، ہنگری، لاتویا، نارتھ میسیڈونیا، مانٹے نیگرو، پولینڈ، رومانیا اور سلوواکیہ شامل ہیں۔ یہ ملک اوسط آمدنی کی رینج والے ملک ہیں اور زیادہ تر ممالک میں پارلیمانی نظام ہے جو کھلی بازار معیشت کو اپنائے ہوئے ہیں۔ چین سیاسی اور معاشی فائدہ کے لیے اس کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ان ممالک میں چین وسیع پیمانہ پر سرمایہ کاری کررہا ہے اور کھلے ہاتھ سے قرض بھی دے رہا ہے۔ اس سے کئی چھوٹے ممالک کے سامنے ان کی خودمختاری کے لیے بڑا بحران کھڑا ہورہا ہے۔ چین کے قرض جال میں مانٹے نیگرو بری طرح گھر گیا ہے۔ قرض کی ادائیگی کے لیے وہ اب یوروپی یونین سے مدد طلب کررہا ہے۔
چین نے ماسک اور ٹیکہ ڈپلومیسی کے ذریعہ سے اس علاقہ کے کئی ممالک میں پکڑ بنانے کی کوشش کی ہے۔ چین کو ٹکر دینے کی چاہت رکھنے والے گروپ-7کے لیڈروں نے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کی حمایت کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، تاکہ یوروپ کے ممالک میں آپسی تعاون کو بڑھاوا مل سکے اور اس سے چین کی تعمیر اور تجارتی منصوبوں کو روکنے میں مدد مل سکے۔ ممکنہ طور پر اسی لیے گروپ-7ممالک کے لیڈروں نے اگلے سال تک غریب ممالک کو کورونا ٹیکہ کی ایک ارب ڈوز عطیہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس میں دس کروڑ ڈوز برطانیہ دے گا۔ اسے چین کی ویکسین سپورٹ پالیسی کا جواب سمجھا جارہا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ یہ قبول کرچکا ہے کہ چین ہی معاشی، سفارتی، فوجی اور تکنیکی نقطہ نظر سے اس کا ممکنہ حریف ہے جو مستحکم اور کھلے بین الاقوامی سسٹم کے مسلسل مل رہے چیلنج کو پورا کرنے کا اہل ہے۔ چین روس کے مقابلہ کہیں بہتر حریف بن کر امریکہ کے سامنے آیا ہے اور بائیڈن اس سے نمٹنے کے لیے یوروپ کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ دنیا میں ایسے بھی کئی ممالک ہیں جو ناٹو کے ممبر نہیں ہیں، لیکن وہ ناٹو کے ممبرممالک سے فوجی گٹھ بندھن کرتے رہے ہیں۔ بہرحال بائیڈن نے چین پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی کو مضبوطی سے بڑھایا ہے۔ وہ ناٹو اور گروپ-7کے ممالک کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں کہ چین کی جانب سے جارحانہ، غیرمتوازن اور عدم استحکام والی سرگرمیاں یوروپ کو بحران میں ڈال سکتی ہیں۔ اس لیے چین کو روکنا بے حد ضروری ہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)