ملک سے محبت کا اظہار لوگ مختلف طرح سے کرتے ہیں۔ ایک زبانی طور پر، ایک عملی طور پر یعنی بغیر کہے اور ایک زبانی طور پر بھی اور عملی طور پر بھی۔ گزشتہ برسوں میں بحث و مباحثے میں وطن عزیز سے محبت کا اظہار خوب کیا جاتا رہا ہے، کون راشٹروادی تھا اور کون نہیں تھا، اس پر باتیں ہوتی رہی ہیں اور دوسری طرف وطن عزیز کو شرمسار کرنے والی باتیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ مثلاً: میہول چوکسی، نیرو مودی اور وجے مالیا کا اپنے وطن سے کسی اور ملک چلے جانا۔ وہ ممالک جہاں ایسے لوگوں نے پناہ لے رکھی ہے، ان ملکوں کے ایسے لوگ اگر ہندوستان بھاگ کر آجاتے تو کیا وہ پناہ دیتا؟ یقینا نہیں دیتا، کیونکہ اس ملک کی تاریخ غلط لوگوں کو پناہ دینے کی نہیں رہی ہے۔ میہول چوکسی،نیرو مودی اور وجے مالیا جیسے لوگوں کو کسی اور ملک میں جائے پناہ کے لیے جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس ملک کے قانون سے خوفزدہ تھے، انہیں خوف تھا کہ مودی حکومت ان کی مدد نہیں کرے گی، کیونکہ ان کے لیے وہ خود کو بدنام کرنا نہیں چاہے گی۔ انہیں ہندوستان لانے کی کوشش ہو رہی ہے اور اس کوشش میں کامیابی کا مطلب یہ ہوگا کہ سرکار کی نیک نامی میں ایکدم سے اضافہ ہو جائے گا مگریہ بھی سچ ہے کہ حکومت کی مشکلیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ 2019 میں ہندوستانیوں کے سوئز بینکوں میں 6,625 کروڑ روپے جمع تھے، 2020 میں اس رقم میں حیرت انگیز اضافہ ہوا اور یہ رقم 20,700 کروڑ روپے ہو گئی۔ سوال یہی نہیں ہے کہ ایک ایسے وقت میں سوئز بینکوں میں جمع ہندوستانیوں کی رقم میں اضافہ کیوں ہوا جب اندرون ملک 23 کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے آگئے، سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہندوستان میں بڑے، قابل اعتماد، محفوظ اور زیادہ نفع دینے والے بینک نہیں ہیں؟ یہ کون لوگ ہیں جنہیں سوئز بینک زیادہ پسند ہیں اور اچانک ان کی اہمیت ان کی نظر میں بڑھ گئی ہے، کیونکہ 2007 کے بعد ہندوستانیوں کی طرف سے سب سے زیادہ رقم 2020میں جمع ہوئی ہے؟ سوئز بینک کے ذمہ دار کبھی یہ نہیں کہتے کہ ان ہندوستانی صارفین نے جو رقم ان کے یہاں جمع کی ہے، وہ بلیک منی ہے مگر ایک عرصے سے یہ ایک ایشو ہے۔ 2014کے لوک سبھا انتخابات کے دوران یہ ایشو سرخیوں میں رہا تھا اور آج بھی ختم نہیں ہوا ہے، ورنہ سوئز بینکوں میں ہندوستانیوں کی جمع رقم میں اضافے پر حکومت سے کانگریس یہ مطالبہ نہ کرتی کہ ’سرکار قرطاس ابیض جاری کر کے ملک کے شہریوں کو بتائے کہ یہ پیسہ کن کا ہے اور غیر ملکی بینکوں میں جمع کالے دھن کو واپس لانے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟‘ اس سلسلے میں واقعی حکومت کو لوگوں کو اطمینان دلانے کے لیے یہ تفصیل بتانا چاہیے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے سوئز بینکوں میں رقم جمع کرائی ہے اور ان کے اچانک زیادہ رقم جمع کرانے کی اصل وجہ کیا رہی ہے؟ ان سوالوں کے جواب جاننا ضروری اس لیے بھی ہے کہ ملک کی اقتصادی حالت اچھی نہیں ہے، کورونا وائرس کی وجہ سے قرضوں کا بوجھ اس پر بڑھا ہے اور یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ملک کے قرضے میں مزید اضافہ ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو ظاہر ہے کہ اس کے اثرات ملک کے لوگوں پر ہی پڑیں گے، اس لیے ملک کی اقتصادیات کے حوالے سے، دنیا کے بدلتے حالات میں روزی روزگار کے حوالے سے اور بلیک منی کے حوالے سے لوگوں کی تشویش ناقابل فہم نہیں ہے۔
ایک جواب طلب سوال جمع روپیوں میں اضافہ کیوں؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS