محمدجاوید اقبال،دہلی
حضرت عمرؓ دوسرے خلیفہ راشد، عظیم حکمراں اور ایک غیرمعمولی مدبر اور زبردست قوت فیصلہ کے حامل انسان تھے۔ ذہانت، خطابت، جرأت، عزم و حوصلہ اور حق گوئی ان کی شخصیت کے نمایاں اوصاف تھے۔ قبائل کے جھگڑے چکاتے، پیچیدہ مسائل کو حل کرنے میں انھیں حَکم بنایا جاتا تھا۔ غور و فکر کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ، جوش و جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ان کی تقریر میں ادب، روانی، ستھرائی اور دوسروں پر اثر انداز ہونے کی غیرمعمولی صلاحیت تھی۔ انھوں نے عراق شام یمن اور دوسرے ممالک کے تجارتی سفر بھی کیے تھے۔ وہاں کے حالات کا تفصیلی جائزہ لیتے، وہاں کے نظام حکمرانی کا مطالعہ کرتے ، اس لیے ان کی معاملہ فہمی اور قوت فیصلہ ضربُ المثل تھی۔ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے زمانے میں مدینے کے قاضی بنائے گئے۔جب حضرت ابوبکرؓ کا انتقال ہونے لگا تو انھوں نے حضرت عثمانؓ کو بلاکر وصیت لکھوائی،وصیت اس طرح تھی:’’یہ ابوبکر بن ابی قحافہ کی وصیت ہے جو اس نے دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اور آخرت میں جاتے ہوئے کی ہے، اس وقت جب کہ کافر بھی ایمان لے آتا ہے اور فاجر ملحد کو بھی یقین آجاتا ہے۔میں نے تم پر اپنے بعد عمرؓ بن خطاب کو خلیفہ بنایا ہے۔ اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ میں نے اس میں اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین اپنی ذات اور تم سب کی بھلائی کو پیش نظر رکھا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ عدل و انصاف کریں گے۔ لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تو ہر شخص کو اس کا کمایا ہوا گناہ بھگتنا ہوگا میں نے تو آپ سب کی بھلائی کی ہے لیکن مجھے غیب کا علم نہیں ہے۔ ظالموں کو جلد معلوم ہوجائے گا کہ انھیں واپس کہاں جانا ہے‘‘۔
حضرت عمرؓ نہایت اعلیٰ معیار کے منتظم تھے۔ ایک Administrator کی سب سے اولین خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ اس کی تحویل میں ہے اُس سے پوری طرح باخبرہو۔ حضرت عمرؓ کو ایک مملکت کی سربراہی عطا کی گئی تھی۔ اس لیے ان کو اپنی پوری مملکت کی تفصیلی معلومات تھی یعنی کون سا علاقہ کہاں ہے ؟وہاں کے لوگ کیسے ہیں؟ وہاں کے موسم، آب و ہوا ،وہاں کے لوگوں کا مزاج کیسا ہے؟ جو گورنر مقرر کیے گئے ہیں، ان کی تفصیلی معلومات ان کو ہوتی تھی۔ وہ وہاں کے حالات اور جزئیات سے پوری طرح واقف تھے۔ جن لوگوں کو عامل مقرر کیا جاتا تھا ان کی صلاحیتوں کا ان کو پوری طرح علم تھا۔ایک دفعہ انھوں نے ایک گورنر کو لکھا کہ آپ لوگوں کی صلاحیتوں کے بارے میں مجھے آگاہ کریں کہ کس شخص میں کیا صلاحیتیں ہیں۔ مجھے ان سے کچھ کام لینا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت حذیفہؓ جو صاحب السِّر کہلاتے تھے، سے کہا کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے بعض عمال منافق ہیں یعنی کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں حضرت حذیفہؓ نے جواب دیا ہاں ایسا ہے۔ پھر ان سے پوچھا کہ کیا آپ مجھے ان کے نام بتاسکتے ہیں حضرت حذیفہ خاموش رہے انھوں نے نام ظاہر نہیں کیے۔حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ کچھ دنوں بعد ایسے لوگوں کو حضرت عمرؓ نے ان کے عہدوں سے سبکدوش کردیا۔ حضرت عمرؓ نے خفیہ طور پر ایسے لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کرلیں۔ ظاہر ہے انھیں اصلاح کا موقع دیا ہوگا۔ ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ ہر معاملے میں کتنے باخبر رہتے تھے۔
بیت المال کی خود نگرانی کرتے ایک دفعہ دارالصدقہ میں گئے وہاں جو اونٹ تھے ان کے حلیے اور ان کے دانت بھی گن کر قلم بند کیے۔ اتفاق سے ایک اونٹ بھاگ گیا اس کو پکڑنے کے لیے دوڑے اوراس کو قابو میں کرکے لائے۔بیت المال کے اونٹوں کی تفصیل لکھتے تھے توسوچئے کہ وہ انسانوں کی کتنی فکر کرتے رہے ہوں گے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔مجاہدین کے خطوط کبھی کبھی خود ان کے اہل خانہ کو پہنچادیتے ،ان کی خواتین سے دریافت کرتے کہ انہیں کسی سامان کی ضرورت تونہیں ہے ،ہوتی تو خرید کر پہنچاجاتے۔ خواتین سے کہتے کہ وفد فلاں تاریخ کو واپس جانے والا ہے اگر کوئی پیغام بھیجنا ہو تو لکھ کر دیدیں۔ اگر گھر میں کوئی حرف شناس نہ ہوتا تو خود ان خواتین کے خطوط لکھ دیتے۔حضرت عمرؓ کی بڑی توجہ اس بات پر رہتی تھی کہ ملک کا کوئی واقعہ ان سے مخفی نہ رہے اس لیے انھوں نے واقعہ نگار مقرر کررکھے تھے جو خبریں آپ تک پہنچاتے رہتے تھے۔ایک مرتبہ حضرت عمرؓ جمعہ کا خطبہ دینے کے لیے منبر پر جانے والے تھے۔ قریب میں ایک تاجر بیٹھا ہوا تھا ۔ اس سے اناج کے نرخ کی تفصیل پوچھی، اس نے بتادی۔ اس شخص نے سوچاشاید حضرت عمرؓ خطبہ میں اناج کے نرخ کے بارے میں ذکر کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس شخص نے کچھ عرصے کے بعد معلوم کیا۔ اے امیرالمومنین جمعہ کے دن خطبے کے وقت آپ نے مجھ سے غلہ کا نرخ پوچھا تھا لیکن خطبہ میں اُس کا کوئی ذکر نہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ اگر کوئی شخص دوران خطبہ مجھ سے معلوم کرلیتا کہ فلاں شخص غلہ کی قیمت بڑھا چڑھا کر وصول کرتا ہے تو اس کا میں کیا جواب دیتا۔اس طرح حضرت عمرؓ کا طریقہ یہ تھا کہ جو ملک فتح ہوتا تو وہاں کے قدیم انتظامات کے طریقوں سے واقفیت حاصل کرتے اور اکثر حالات میں مناسب ترمیمات کرکے وہی طریقے بحال رکھتے۔
حضرت عمرؓ سلطنت کے کاموں کو مشورے سے انجام دیتے۔ کبھی وہ عام لوگوں کو مسجد میں جمع کرکے مشورہ کرتے اور کبھی خصوصی مجلس شوریٰ میں متعلقہ مسئلہ رکھتے اور فیصلہ کرلیتے۔آپ جب کبھی کسی کو گورنر بناکر بھیجتے تو اس کو نصیحت کرتے کہ فیصلہ باہمی مشورے سے کرنا۔ اس شخص کے گھر کا سامان چیک کیا جاتا اس کی تفصیل حضرت عمرؓ خود اپنے پاس رکھتے۔عدل فاروقی بہت مشہور ہے۔ حضرت عمرؓ عدل و انصاف کے دل دادہ تھے۔ جب وہ کوئی حکم عوام و خواص کے لیے صادر کرتے تو اپنے گھر میں آکر اُس کی تفصیل بتاتے اور کہتے کہ تم سب کو اس کی پابندی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی تمھیں دیکھتا ہے اور عوام و خواص کی نظر بھی تم پر اس طرح رہتی ہے جس طرح چیل کی نگاہ گوشت پر رہتی ہے۔ اگر تم اس حکم کی سرتابی کروگے تو تمھیں دُگنی سزا دی جائے گی۔اگر کبھی کوئی جرم ان کے قریب ترین لوگوں سے سرزد ہوجاتا تو فوراً اس پر عام آدمیوں کی طرح کارروائی کرتے ۔حضرت عمرؓ ایک بار خطبہ دے رہے تھے ایک شخص نے پوچھا یہ کرتہ جو آپ نے پہن رکھا ہے یہ کہاں سے آیا۔ مال غنیمت میں ہر ایک شخص کو ایک چادر ملی تھی۔ اس میں یہ کرتہ تیار نہیں ہوسکتا۔ حضرت عمرؓ نے بُرا نہیں مانا بلکہ اپنے بیٹے عبداللہ کو اشارہ کیا کہ جواب دے۔ عبداللہؓ نے کہا مجھے بھی ایک چادر ملی تھی وہ میں نے اپنے باپ کو دے دی جس سے یہ کرتہ تیار ہوگیا۔ کیا آج کے زمانے میں کسی حاکم سے ایسے سوال کیے جاسکتے ہیں؟۔حضرت عمرؓ میں غیرمعمولی قوت فیصلہ کی صفت تھی جو ایک لیڈر میں لازماً ہونی چاہیے ۔ان کا قول تھا کہ جب کوئی فیصلہ کیا جائے تو اس پر فوری طور پر عمل کیا جانا چاہیے ورنہ اس فیصلہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔حضرت عمرؓ اپنی اصلاح کرنے کے لیے ہر دم تیار رہتے تھے۔ ان کا مشہور قول ہے:اللہ اس شخص پر رحمت کرے جو میرے عیب مجھ کو بتائے۔qq