محمد قمرالزماں ندوی
دعوت و تبلیغ یعنی دین و شریعت کی بات دوسروں تک پہچانا یہ ایمان والوں کی ذمہ داری اور فرض منصبی ہے۔ ہر فرد مومن پر اس کی وسعت کے مطابق یہ لازم ہے۔امت محمدیہ علی صاحبھا التسلیم پر اللہ تعالی نے دیگر امتوں کے مقابلے میں خاص طور پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ عائد کیا اور دوسری امتوں پر اس کی فضیلت کا سبب ہی اس خاص مقام کو بتایا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وہی معتبر ہوگا جو ایمان باللہ کے ساتھ ہو۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ تم میں سے کوئی شخص کوئی گناہ ہوتے ہوئے دیکھے تو اس کو چاہیے کہ اپنے ہاتھ اور قوت بازو سے اس کو روک دے ،اور اگر یہ نہ کرسکے تو زبان سے روکے ،اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو کم از کم دل میں اس فعل کو برا سمجھے اور یہ ادنی درجہ کا ایمان ہے‘‘۔ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ’’یقینا اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے عمل یعنی گناہوں کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا یہاں تک کہ عام لوگوں کا حال یہ ہوجائے کہ وہ برائی اپنے درمیان ہوتے دیکھیں اور وہ اس پر نکیر کرنے پر بھی قادر نہ ہوں لیکن وہ اسے نشانۂ تنقید نہ بنائیں ،یعنی برائی پر نکیر نہ کریں ،جب ایسا ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ کا عذاب عام و خاص سب لوگوں کو اپنی لپٹ میں لے لیتا ہے‘‘ (مجمع الزوائد)۔
ایک دوسری روایت میں اس فریضے کے ترک پر یہ وعید سنائی گئی ہے کہ’’ تم عذاب الہٰی کے مستحق بن جاؤ گے پھر تم اللہ سے دعائیں بھی مانگو گے تو قبول نہیں ہوں گی‘‘( سنن ترمذی)۔دعوت و تبلیغ شعائر انبیاء ہے ، یہ نبیوں کا شعار اور مشن ہے سب سے آخر میں خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اس کے اصول و ضوابط اور آداب اس طرح مرتب فرما دئے گئے کہ داعی و مبلغ ان حدود میں رہتے ہوئے اپنی دعوت لوگوں تک آسانی سے منتقل کر سکتا ہے۔ لیکن حالات و کوائف اور کیفیات و مسائل کے سمجھنے کی ذمہ داری خود داعی پر رکھی ہے۔ دعوت کا ایک ہی مخصوص اسلوب،نہج ، اور طریقہ نہیں ہوسکتا جس کو چند جملوں اور دفعات میں نمبر وار مرتب کر دیا جائے۔ بلکہ دعوت و تبلیغ کے اس فریضہ کی ادائیگی کے وقت اللہ تعالی خود رہنمائی فرماتا ہے۔ اس کے سوا اس کے کچھ مکانی و زمانی حدود ضرور ہیں لیکن یہ بھی انتہائی وسیع اور کشادہ ہے۔ اس لئے داعی کو کبھی طرز براہیمی اپنانا پڑتا ہے تو کبھی اسلوب یوسفی تو کبھی انداز موسوی و عیسوی جس کا سیرت محمدی خلاصہ اور نچوڑ ہے۔
’ ان تمام دعوتی جماعتوں اور تنظیموں کو اپنا اپنا جائزہ لینا چاہیے جن کو اصرار بلکہ ضد ہے کہ ان کی جماعت کے جو اصول و ضوابط ہیں اور جو طریقۂ کار ہے دعوت و تبلیغ کا کام صرف اسی نہج اور اسلوب کے مطابق ہونا چاہیے وہی طریقہ اور اسلوب درست اور صحیح ہے اور باقی سب بے سود اور لغو۔ انہیں چاہیے کہ وہ اسلام کے وسیع دعوتی نظام اور تبلیغی کاز کا مفہوم قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھیں‘
حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ فرمایا کرتے تھے:
’’قرآن میں اللہ تعالی نے دعوت کے اصولوں کو قانون و ضابطہ کی زبان میں بیان نہیں کیا اور نہ ایسا کرنا قرین مصلحت اور مقتضائے حکمت تھا۔
دعوت و تبلیغ کا انداز ماحول اور گرد و پیش کے حالات، مخاطبین کے طبائع اور دین کے مصالح کے مطابق متعین ہوتا ہے چونکہ دعوت کو مختلف صورت حال کا سامنا کرنا ہوتا ہے اور صورت حال ہمیشہ بدلتی رہتی ہے اس لئے دعوت کے کام میں حاضر کلامی اور حاضر دماغی دونوں کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ دعوت پیش کرنے والوں کو انسانی نفسیات سے گہری واقفیت اور اس کی دکھتی رگوں اور سوسائٹی کے کمزور پہلوؤں پر انگلی رکھ کر بتانا ہوتا ہے۔ اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مبلغ کو یہ بات کرنی چاہئے یہ نہیں کرنی چاہئے اور یہ کام کرنا چاہیے اور یہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس کو ایسا اسلوب اختیار کرنا چاہیے اور لوگوں کے سامنے دعوت کو اس طرح پیش کرنا چاہیے۔ اور اس کے صرف یہی حدود و ضوابط ہیں…… کیوں کہ ہر بدلتے ہوئے معاشرے اور تبدیل شدہ صورت حال سے اس کو نمٹنا ہوتا ہے۔ اگر اس کو قوانین اور ضوابط میں جکڑ دیا جائے تو وہی حال ہوگا جو ایک صاحب کو اپنے ملازم کے ساتھ پیش آیا تھا۔ ایک لطیفہ میں ہے کہ کسی صاحب نے ایک ملازم رکھا ،ملازم ضرورت سے زیادہ قانونی واقع ہوا تھا اس نے مطالبہ کیا کہ مجھے میرے فرائض نوٹ کرا دیجئے۔ چنانچہ ایک فہرست تیار ہوئی کہ فلاں وقت بازار سے سودا لانا ہے ،فلاں وقت گھر صاف کرنا ہے ،فلاں وقت یہ کام کرنا ہے فلاں وقت وہ کام کرنا ہے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک بار وہ صاحب جنہوں نے ملازم رکھا تھا گھوڑے پر سوار تھے وہ اس پر سے اترنا چا رہے تھے کہ پاؤں رکاب میں پھنس گیا اور ان کی جان پر آگئی اب گھوڑا بھاگ رہا ہے اور یہ گھسٹے ہوئے جارہے ہیں، اسی حال میں ملازم پر نظر پڑی چیخ کر آواز دی کہ جلدی آو اور میری جان بچاو ملازم نے کہا ذرا ٹھہرئیے میں اپنی فہرست میں دیکھ لوں کہ آیا یہ خدمت بھی میرے فرائض میں ہے یا نہیں، اس وقت جب کہ آقا کی جان جارہی ہے اور موت و حیات کی کشمکش میں ہے ملازم نے اپنے اصول و ضوابط پر عمل کیا اور آقا اسی ضابطہ کی نذر ہوگئے اور ملازم ان کے کچھ کام نہیں آیا‘‘ ( غیر مسلموں میں طریقۂ دعوت ص:35-36)۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مدعو کو بھی متعین نہیں کیا ہے کہ فلاں اور فلاں قسم اور لوگوں کو ہی دعوت دی جائے بلکہ ہر جگہ مدعو کو مطلق رکھا گیا ہے ۔معلوم یہ ہوا کے جو بے ایمان ہیں اور غیر اللہ کی پرستش کرتے ہیں انہیں توحید و ایمان کی دعوت دی جائے گی پھر ان کو عمل صالح اور احکام شریعت پر گامزن ہونے کی دعوت دی جائے گی۔ جو ایمان لا چکے ہیں لیکن عمل صالح نماز روزہ اور دیگر عبادات سے دور ہیں ان کو عمل صالح کی دعوت دی جائے گی۔ جو یہ سب کچھ کرتے ہیں لیکن وہ اخلاق و کردار کے اعتبار سے کمزور ہیں تو انہیں تکمیل اخلاق کی دعوت دی جائے گی جو علم سے دور ہیں انہیں تعلیم کی طرف راغب ہونے کی دعوت دی جائے گی۔ اس کے لیے زمان و مکان اور موقع و محل کے اعتبار سے راستہ اور طریقۂ حکمت اور اسلوب اپنایا جائے گا۔ان تفصیلات کی روشنی میں ان تمام دعوتی جماعتوں اور تنظیموں کو اپنا اپنا جائزہ لینا چاہیے جن کو اصرار بلکہ ضد ہے کہ ان کی جماعت کے جو اصول و ضوابط ہیں اور جو طریقۂ کار ہے دعوت و تبلیغ کا کام صرف اسی نہج اور اسلوب کے مطابق ہونا چاہیے وہی طریقہ اور اسلوب درست اور صحیح ہے اور باقی سب بے سود اور لغو۔ انہیں چاہیے کہ وہ اسلام کے وسیع دعوتی نظام اور تبلیغی کاز کا مفہوم قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھیں اور صرف لکیر کے فقیر بن کر دعوت و تبلیغ جیسے انبیائی مشن کو کسی ایک شکل میں محدود نہ کریں۔
q qq