وراگ گپتا
چین اور امریکہ کی ای-کامرس کمپنیوں کے لیے اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ سے لیس 135کروڑ کی آبادی والا ہندوستان سب سے مفید بازار ہے۔ 2010میں ای-کامرس کا کاروبار تقریباً ایک ارب ڈالر کا تھا جو 2019 میں 30ارب ڈالر ہوگیا اور 2024میں اس کے 100ارب ڈالر ہونے کی امید ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ای-کامرس کمپنیاں سرکاری ضوابط کو چار طریقہ سے ٹھینگا دکھا رہی ہیں۔ پہلا مارکیٹ پلیس کے نام پر غیرملکی ایف ڈی آئی حاصل کرنے کے بعد یہ کمپنیاں مقامی شراکت داری کی آڑ میں تاجر بن کر خود کا مال فروخت کرنے لگیں۔ دوسرا کروڑوں یوزرس کے ڈاٹا کے غیرقانونی استعمال اور غیرقانونی غیرملکی سرمایہ کے دم پر، دھماکہ سیل جیسی آفرس سے ہندوستان کے بازار پر اجارہ داری قائم کرلی۔ تیسرا اشتہارات میں قانونی کمپنی و سیلر کی پوری تفصیل نہیں دے کر، قانون کے شکنجے سے بچنے کی ترکیب بنائی۔چوتھا کمپنیوں کے گروپ کے ذریعہ غیرقانونی کاروبار کی آمدنی پر ٹی ڈی ایس اور ٹیکس کی چوری۔
ای-کامرس کا غیرقانونی کاروباری ماڈل: ای-کامرس کی گروپ کمپنیوں کے کاروباری کھیل میں بندوق کی نلی، ہتھا اور کارتوس سب الگ الگ ہونے کے باوجود منافع کے نشانہ پر گولی لگ جاتی ہے اور کوئی قانونی جواب دہی نہیں بنتی۔ ای-کامرس کمپنیوں کی لابی نے مجوزہ قوانین کی منظم مخالفت شروع کردی ہے۔ غیرقانونی طریقہ سے تجارتی اجارہ داری حاصل کرنے والی یہ کمپنیاں مضحکہ خیز طریقہ سے انصاف و کھیلوں میں برابری کی بات کررہی ہیں۔ عام عوام، صنعتیں اور تجارت پر ہندوستان میں ہزاروں سخت قوانین نافذ ہوتے ہیں تو پھر ای-کامرس کمپنیوں کو کھلے کھیل کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں؟ ای-کامرس کی طرح غیرقانونی مائننگ میں بھی بڑے پیمانہ پر لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ لیکن غیرقانونی مائننگ سے ماحولیات، ندیوں اور معیشت کو زبردست نقصان ہوتا ہے۔ اسی طرح سے ای-کامرس کے غیرقانونی کاروباری ماڈل کی وجہ سے ملک کے کروڑوں خردہ دکان دار اور اسمال انٹرپرائزز کے اوپر کورونا سے بھی بڑے بحران کا سایہ منڈلا رہا ہے۔ روایتی دکان داروں اور صنعت کاروں کو بلدیہ، جی ایس ٹی، انکم ٹیکس، پولیس اور لیبر انسپکٹر کے سیکڑوں قوانین پر عمل درآمد کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ ای-کامرس کمپنیاں انٹرمیڈیری کے نام پر بچ نکلتی ہیں۔
ای-کامرس کے معاملات میں جی ایس ڈی، انکم ٹیکس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، فیما، کمپنی، آربی آئی، پیمینٹ اور سیٹلمنٹ سسٹمز جیسے متعدد قوانین کے التزامات بناکر نافذ کرنے کی ذمہ داری حکومت کے الگ الگ شعبوں کی ہے۔ ۔۔۔غیرملکی تجارت، امپورٹ، ایکسپورٹ وغیرہ موضوعات پر ملک میں تفصیلی قانون بنے ہیں۔ اسی طریقہ سے ای-کامرس سیکٹر کے سبھی پہلوؤں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے مکمل قانونی ڈائجسٹ بنانا ہوگا۔ کورے بیانات کی بجائے ڈاٹا چوری و قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانہ اور سخت سزا دینے کے لیے غیرممالک کی طرز پر مؤثر ریگولیٹر بنے، تبھی ہندوستان میں ای-کامرس کا مؤثر ریگولیشن ہوسکے گا۔
شکایتوں کے باوجود کارروائی نہیں: کئی برسوں سے ان کمپنیوں کے خلاف ثبوتوں کے ساتھ متعدد شکایتیں ہوئی ہیں۔ مرکزی وزیر پیوش گوئل نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ فیما و ایف ڈی آئی معاملات کی خلاف ورزی کی جانچ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کو سونپی گئی ہے۔ قابل اعتراض ٹوئٹ کے شیئر کرنے کے معاملہ پر ٹوئیٹر کے ایم ڈی کو پولیس تھانہ میں بلانے کے لیے پورا سسٹم بے تاب ہے۔ لیکن ملک کی معیشت چوپٹ کررہی ای-کامرس کمپنیوں کے غیرقانونی کاروبار پر لگام لگانے کے لیے جرمانہ بھی نہیں لگنا، قابل غور ہے۔ حکومت کی کچھوا چال سے لگ رہا ہے کہ کارواں گزر گیا، غبار دیکھتے رہے۔ ان کمپنیوں کے سامنے اگر سرکاری سسٹم لاچار ہے تو نئے قوانین کے تحت مقرر ہونے والے شکایت افسر کے سامنے عام عوام کی پریشانیوں کا حل کیسے ہوگا؟ ای-کامرس میں ایف ڈی آئی کس کی ہے، ہندوستان میں مال کون فروخت کررہا ہے، اشتہار کون دے رہا ہے، قانونی جواب دہی کس کمپنی کی ہے، ان باتوں کی توضیحات کا قانونی سسٹم بنے، تبھی ان کمپنیوں پر سخت کارروائی کا اگلا قدم بڑھے گا۔
ای-کامرس پر مکمل قانونی ڈائجسٹ بنے: ای-کامرس کے منافع کی جڑ میں ڈاٹا کا کھیل ہے۔ سپریم کورٹ کے 4سال پرانے فیصلے کے باوجود ڈاٹا سکیورٹی قانون پر حکومت کمبھ کرنی نیند سورہی ہے۔ ای-کامرس میں عوام کے حساس اور بینکوں کے مالی ڈاٹا کو ہندوستان میں رکھنے کا قانون بنے تو معیشت محفوظ ہونے کے ساتھ ملک میں روزگار بھی بڑھیں گے۔ ای-کامرس کے معاملات میں جی ایس ڈی، انکم ٹیکس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، فیما، کمپنی، آربی آئی، پیمینٹ اور سیٹلمنٹ سسٹمز جیسے متعدد قوانین کے التزامات بناکر نافذ کرنے کی ذمہ داری حکومت کے الگ الگ شعبوں کی ہے۔ وزارت مالیات کو ان کمپنیوں پر ٹیکس، کمپنی وزارت کو غیرملکی کمپنیوں کا رجسٹریشن، صارفین کی وزارت صارفین کی سکیورٹی، منسٹری آف آئی ٹی کو ایپس پر سزا کی کارروائی، وزارت قانون کو سخت قانون، وزارت داخلہ کو چین و ٹیکس ہیون سے آرہے ملک مخالف سرمایہ کی جانچ کے ساتھ ٹرائی اور ریزرو بینک کے کندھوں پر ان کمپنیوں کے کارناموں پر سخت نگاہ رکھنے کی ذمہ داری ہے۔ غیرملکی تجارت، امپورٹ، ایکسپورٹ وغیرہ موضوعات پر ملک میں تفصیلی قانون بنے ہیں۔ اسی طریقہ سے ای-کامرس سیکٹر کے سبھی پہلوؤں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے مکمل قانونی ڈائجسٹ بنانا ہوگا۔ کورے بیانات کی بجائے ڈاٹا چوری و قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانہ اور سخت سزا دینے کے لیے غیرممالک کی طرز پر مؤثر ریگولیٹر بنے، تبھی ہندوستان میں ای-کامرس کا مؤثر ریگولیشن ہوسکے گا۔
(مضمون نگار سپریم کورٹ کے وکیل ہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)