محمد فاروق اعظمی
اقبالکی نظم ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ میں ’جمہوری نظام ‘ سے پریشان دوسرے مشیر کی تشویش رفع کرنے کیلئے ابلیس کے پہلے مشیر کا جواب آج ہندوستان کے تناظر میں بالکل حسب حال ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت، آمریت اور بادشاہت ہی کا ایک رنگ ہوکررہ گئی ہے۔ ملک میں جمہوریت کی اصل تعبیرات کو کچھ اس طرح مسخ کیا جارہا ہے کہ وہ اپنا حقیقی رنگ کھوچکی ہے اور اس کے پردے میں بادشاہت اور ’آمریت‘ کی ہی حکمرانی قائم ہے۔ گزشتہ 8-9برسوں کی ملکی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہندوستان میں اصل حکمرانی جمہور کی نہیں رہ گئی ہے بلکہ چند مخصوص افراد ہندوستان پر حکمرانی کررہے ہیں اور ان کی نظر دوسروں کی ’کھیتی ‘ہے۔ متنازع شہری قانون اوراس کے بعد زراعت سے متعلق بنائے گئے تینوں قوانین بھی جمہوریت کے خلاف ملک میں فرد اور سرمایہ دارانہ آمریت کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ یہ حکمراں اپنی ذات کو ہی ریاست، ملک اور قوم سمجھ بیٹھے ہیں۔ اس کے خلاف کوئی احتجاج، مظاہرہ، رائے زنی، ردعمل انہیں گوارانہیں ہے۔اپنے اوپر اٹھنے والی ہر انگلی کو ملک کے خلاف بغاوت اور غداری سے تعبیر کرکے وہ ہاتھ ہی کاٹ ڈالنا چاہتے ہیں جس سے اختلاف رائے میں انگلی اٹھے۔زبان کو حرف اختلاف نکالنے کی اجازت نہیں ہے۔ہر وہ گلا گھونٹ دیے جانے کی کوشش ہورہی ہے جہاں سے احتجاج کی لے نکلتی ہو۔اپنے اس رویہ میں وہ اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ عدالتوں کی تادیب بھی ان کی راہ نہیں روک پارہی ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت بھی کئی بار یہ حقیقت واشگاف لفظوں میں بیان کرچکی ہے کہ حکمراں سے سوال کرنے کا مطلب ملک سے غداری نہیں ہوتا ہے اور نہ احتجاج کیے جانے کا مطلب قانون کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن وہ ملک جہاں حکمراں اورریاست کے درمیان پایاجانے والا فطری فرق ختم کرکے حکمراں کو ریاست کا واحد وجود سمجھاجانے لگا ہو وہاں عدالتیں، انصاف اور قانون نقارخانہ میں طوطی کی آواز بن جاتی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب حکومت کو عدالت میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو، اس سے قبل بھی کئی بار عدالتیں حکومت کے جمہوریت مخالفت اقدام پر سخت تبصرہ کرچکی ہیں۔ سپریم کورٹ تک کہہ چکا ہے کہ حکومت، اس کے سربراہ یا پارلیمنٹ کے فیصلوں کے خلاف احتجاج کرنا قانونی طور پر جائز ہے اور ہر ہندوستانی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکومت کے فیصلوں پرا پنی رائے رکھے، غلط فیصلوں کے خلاف احتجاج اور مظاہرہ کیے جانے کا حق ختم نہیں کیاجاسکتا ہے۔ پرامن مظاہرہ کرنا ہر ہندوستانی شہری کا آئینی حق ہے۔
متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شاملجے این یو طلبا دیوانگنا کلیتا، نتاشا نروال اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم آصف اقبال تنہا کو ایک برس سے زائد جیل کاٹنے کے بعددہلی کی عدالت سے ضمانت ملنے کے بعد بھی ان کی رہائی میں حکومت کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ان طلبا کی رہائی روکنے کیلئے حکومت اور دہلی پولیس نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تاہم دہلی پولیس کو راحت نہیں ملی، جس کے بعد ان کی رہائی پر عملدرآمد کرنا پڑا۔ ناروال اور کالیتا جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں ا ور خواتین کے حقوق کیلئے سرگرم گروپ ’پنجرہ توڑ‘ کی رکن ہیںجب کہ آصف اقبال تنہا دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بی اے (فارسی آنرز)کے طالب علم ہیں۔جامعات کے یہ طلبا نہ تو پیشہ ور مجرم ہیں نہ دہشت گرداور نہ انتخاب لڑنے والے سیاسی مخالف باوجود اس کے پولیس نے ان پر دہشت گردی کی دفعات لگائی ہیں۔ ان طلبا کا قصور بس اتنا ہے کہ وہ متنازع شہریت ترمیمی قانون(سی اے اے) کے خلاف دہلی اور ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں پیش پیش تھے۔ان کی سرگرمی حکمرانوں کو ایک آنکھ نہیں بھائی۔ پولیس نے ان کے خلاف گزشتہ برس 2020 میں دہلی میں ہونے والے فسادات کو بھڑکانے اور دیگر الزامات عائد کرتے ہوئے گرفتار کر لیا اور ان تینوں کے خلاف ہی دہشت گردی کی دفعات لگائی تھیں۔
عدالت نے ان طلبا کی رہائی کاحکم دیتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکومت نے مخالفت کو دبانے کے اپنے جوش میں آ کر آئین میں شہریوں کو احتجاج کے حق کے حوالے سے دی گئی ضمانت اور دہشت گردانہ سرگرمی کے درمیان فرق کو ملحوظ نہیں رکھا۔ اگر اس رجحان کی تائید کی گئی تو یہ جمہوریت کیلئے بہت افسوس ناک ہو گا۔عدالت نے ان طلبا کے خلاف استغاثہ یعنی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے شواہد کو بھی یکسر مسترد کرتے ہوئے اس پوری کارروائی کو بربنائے مخاصمت اور جمہوریت مخالف قرار دیا۔ عدالت نے صاف طور پر کہا کہ اشتعال انگیز تقریریں کرنے، پہیہ جام کرانے، خواتین کو احتجاج کیلئے بھڑکانے اور مختلف مواد جمع کرنے اور دیگر الزامات کو اگر ہم ان کی انتہائی صورت میں بھی دیکھیں تب بھی پولیس نے جو شواہد پیش کیے ہیں، ان کی بنیاد پر ملزمان کو تشدد بھڑکانے کا قصوروارنہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ہمیں یہ یقین ہے کہ ہمارے ملک کی بنیادیں اتنی کمزور نہیں ہیں کہ وہ کالج کے طلبا یا دیگر افراد کی طرف سے کیے جانے والے کسی مظاہرے سے، خواہ وہ کتنا زبردست ہی کیوں نہ ہو، ہل سکتی ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب حکومت کو عدالت میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑرہاہو، اس سے قبل بھی کئی بار عدالتیں حکومت کے جمہوریت مخالف اقدام پر سخت تبصرہ کرچکی ہیں۔ سپریم کورٹ تک کہہ چکا ہے کہ حکومت، اس کے سربراہ یا پارلیمنٹ کے فیصلوں کے خلاف احتجاج کرنا قانونی طور پر جائز ہے اور ہر ہندوستانی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکومت کے فیصلوں پرا پنی رائے رکھے، غلط فیصلوں کے خلاف احتجاج اور مظاہرہ کیے جانے کا حق ختم نہیں کیاجاسکتا ہے۔ پرامن مظاہرہ کرنا ہر ہندوستانی شہری کا آئینی حق ہے۔
لیکن حکومت اس جمہوری نظام اور آئین میں ہر ہندوستانی کو دیے گئے احتجاج، اختلاف اور اظہار رائے کی آزادی کو اپنی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھ رہی ہے۔متنازع اور آمرانہ فیصلوں کے خلاف اٹھنے والی آواز دبانے کیلئے طاقت کا ظالمانہ استعمال اور طلبا تک کو دہشت گرد بتانا اس کیلئے معمول کا قدم ہوچکا ہے۔ دیوانگنا کلیتا، نتاشا نروال، آصف اقبال تنہا اور ان جیسے سیکڑوں طلبا جو احتجاج کے دوران اپنے سخت ترین اقدامات کے باوجود کسی بھی لحاظ سے ملک کی خود مختاری اور سالمیت کیلئے خطرہ نہیں بنے، ان کے خلاف قومی سلامتی قانون، انسداد دہشت گردی قانون اور دیگر انتہائی سخت قوانین کے تحت مقدمات دائر کرنا اور ان کی رہائی کی راہ میں مزاحم ہونا یہ جمہوریت نہیں آمریت ہے۔اور آج کے اس جدید ہندوستان میں اس کی قطعی گنجائش باقی نہیں رہ گئی ہے۔ وقتی طور پرحکومت بھلے ہی اپنی مطلق العنانی اور ابلیسیت میں کامیاب ہوجائے لیکن وہ دن دور نہیںجب جمہوریت اپنی مکمل تعبیرات کے ساتھ عوام کے ذہن و دل میں رچ بس جائے اور ایسی آمریت کی بساط لپیٹ دی جائے۔
[email protected]