ڈاکٹروں کی سیکورٹی پر اہم سوال

0

راجیو داس گپتا

کورونا کے خلاف ہماری جنگ ڈاکٹروں اور دیگر پیشہ ورانہ صحت کارکنان پر کچھ زیادہ بھاری پڑنے لگی ہے۔ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (آئی ایم اے) کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ کووڈ19-کی دوسری لہر میں ملک بھر میں تقریباً 730 ڈاکٹروں کو اپنی جان گنوانی پڑی ہے۔ سب سے زیادہ اموات بہار (115) میں ہوئی ہے، جس کے بعد قومی راجدھانی دہلی (109)، اترپردیش (79)، مغربی بنگال (62)، جھارکھنڈ (39) اور آندھرا پردیش (38) کا نمبر ہے۔ وبا کی پہلی لہر میں 748ڈاکٹروں کے مرنے کا دعویٰ ایسوسی ایشن نے کیا ہے۔
یہ صورت حال ہندوستان جیسے ملک کے لئے کہیں زیادہ قابل افسوس ہے، جہاں ہر 10,000 کی آبادی پر 10ڈاکٹر بھی تعینات نہیں ہیں۔ ہندوستان کی بڑی آبادی کو دیکھتے ہوئے یہاں ڈاکٹروں کی زیادہ کمی ہے اور اگر ہم عالمی اوسط کے ہدف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں 6لاکھ سے زیادہ ڈاکٹروں کی فوج تیار کرنی ہوگی۔ یہ کام راتوں رات تو نہیں ہوسکتا۔ اس کے لئے ہمیں ہر ایک سال تقریباً ایک لاکھ نئے ڈاکٹر تیار کرنے ہوں گے جبکہ ابھی ہماری آبادی کو سالانہ بمشکل 70ہزار نئے ڈاکٹر مل پاتے ہیں۔ ان میں سے بھی تقریباً10فیصدی بیرون ممالک چلے جاتے ہیں۔
ہندوستانی ڈاکٹروں کی ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ ان پر علاج کے بوجھ کے ساتھ ساتھ مریض کے تیمارداروں کا بھی اضافی دبائو ہوتا ہے۔ وقتاً فوقتاً ان کے ساتھ مارپیٹ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ کورونا جیسے بحران میں بھی لوگوں میں یہ رجحان دیکھا گیا ہے۔ اسی سبب، آئی ایم اے نے احتجاج کرنے کااعلان کیا ہے، تاکہ حکومت کی توجہ اس معاملے کی جانب دلائی جاسکے۔ مارپیٹ یا بدتمیزی سے کسی مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا، مگر تیمارداروں کی ناراضگی عموماً تب دکھتی ہے، جب مہنگے علاج کے بعد بھی مریضوں کے ساتھ کچھ برا ہوجاتا ہے، یا صحت کی خدمات میں لاپروائی کی بات سامنے آتی ہے۔ سیکورٹی اہلکاروں کی مستعدی کی وجہ سے بے شک بڑے اسپتالوں میں اس طرح کے واقعات سامنے نہیں آتے، لیکن نرسنگ ہوم یا پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر یہ دبائو برداشت کرتے رہتے ہیں۔

ظاہر ہے ، وبا کے اس دور میں ڈاکٹروں پر مسلسل بڑھتے دباؤ کو دیکھتے ہوئے وزارت داخلہ کو اپنے موقف پر دوبارہ غور کرنا چاہئیے۔ اس کے ساتھ ہی مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں اور آئی ایم اے جیسی پیشہ ور تنظیموں کو بھی اس بات کی کوشش کرنی چاہئیے کہ اس وبا سے نمٹنے میں تمام برادریوں کی ہر ممکن شرکت کو یقینی بنایا جاسکے۔

لہٰذا خاص طور سے کارپوریٹ اسپتالوں کا مہنگا علاج ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس پر ڈاکٹروں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔ ڈاکٹروں کا ایک بڑا طبقہ تو یہ نہیں مانتا ہے کہ وہ محض ایک ملازم ہوتے ہیں، جنہیں ملازمت دینے والے مالکان کی پالیسی پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے وہ علاج کو سستا کرانے کی ذمہ داری انسٹی ٹیوٹ پر ڈال دیتے ہیں۔ دیکھا جائے، تو ایسے معاملوں میں تین جماعتیں ہیں۔ ڈاکٹر، مریض اور کنبہ اور اسپتال انتظامیہ۔ اگر اسپتال انتظامیہ مناسب قیمت پر علاج مہیا کرانے کا عہد لے، تو مریضوں کو کافی راحت ملے گی۔ اس سے ڈاکٹروں پر دبائو بھی کم ہوگا، سرکار نے کووڈکے دوران پرائیویٹ اسپتالوں کے لئے کچھ رہنما اصول جاری کئے ہیں۔ مگر ضرورت ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے اور اس پر لمبے وقت تک عمل کرنے کی ہے۔
ان دنوں ہیلتھ انشورنس بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کئی ہیلتھ انشورنس کمپنیاں پیسوں کو ’ری ایمبرس‘ یعنی ادائیگی کرنے سے بچ رہی ہیں، جبکہ کووڈ کے نام پر پریمیئم کی رقم بھی بڑھا دی گئی ہے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ کورونا وبا میں انشورنس کمپنیوں کے پاس جتنے دعوے آئے ہیں، ان میں سے آدھے اب بھی کمپنیوں کی رضامندی کے انتظار میں ہیں، چونکہ پرائیویٹ اسپتالوں میں کورونا کا علاج کافی مہنگا ہے، اس لئے جنہوں نے انشورنس کروا رکھا ہے، وہ بھی راحت نہیں محسوس کررہے ہیں۔ متوسط طبقہ کو کہیں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جن کے لئے کئی لوگوں کو اپنی جائیداد تک بیچنی پڑ رہی ہے۔
سرکار وں کی بدانتظامی کا خمیازہ مریض اور ان کے اہل خانہ بھگتنے پر مجبور ہیں۔ اب تک نہ تو مرکزی سرکار او رنہ ہی کسی ریاستی سرکار نے یہ اعلان کیا ہے کہ کون کون سی صحت خدمات کی ضمانت وہ دے رہی ہیں۔ کورونا کے پیچیدہ مریضوں کو کئی بار سٹی اسکین کرانا پڑتا ہے، تو کئی بار خون کے نمونے دینے پڑتے ہیں۔ خط افلاس سے نیچے رہنے والے لوگوں کے لئے کوئی واضح اعلان سرکاریں اب تک نہیں کرسکی ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ ایمس جیسے عالمی معیار کے ادارے میں بھی، جس کو سب سے زیادہ فنڈ ملتا ہے، ہر ضرورت مند کو مفت دوا نہیں مل پاتی۔ ہاں، ’دیر آید درست آید‘ کی طرز پر اب کچھ دوائوں پر جی ایس ٹی کم ضرور کیا گیا ہے، جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔
میڈیکل، نرسنگ اور معاون صحت کارکنان کے خلاف یہ تشدد اس وقت دیکھنے کو مل رہا ہے، جب کم سے کم 19ریاستوںمیں کسی نہ کسی شکل میں میڈی کیئر پروڈکشن ایکٹ (ایم پی اے) نافذ ہے۔ یہ مغربی بنگال میڈی کیئر سروس پرسنس اینڈ میڈی کیئر سروس انسٹی ٹیوشنز (پرونشن آف وائلنس اینڈ ڈیمیج ٹو پراپرٹی) ایکٹ کی طرح کا ہی ایک قانون ہے۔ افسوس ہے کہ اس معاملے پر نہ تو کافی حد تدابیری ہے اور نہ ہی کوئی بندش۔ ہیلتھ سروسزپرسنل اینڈ کلینکل اسٹیبلشمینٹ (پروبیشن آف وائلنس اینڈ ڈیمیج ٹو پراپرٹی) بل، 2019 میں تو یہ التزام کیا گیا ہے کہ اگر خدمت میں لگے ڈاکٹر یا صحت کارکن پر کوئی حملہ کرتا ہے، تو قصوروار کو 10سال تک کی سزا ہوسکتی ہے۔ یہ بل پارلیمنٹ میں 2019 کے سرمائی اجلاس میں پیش کیا گیا تھا ، لیکن پھر وزارت داخلہ نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اس سلسلے میں پہلے سے ہی کافی قانونی دفعات موجود ہیں۔
ظاہر ہے ، وبا کے اس دور میں ڈاکٹروں پر مسلسل بڑھتے دبائو کو دیکھتے ہوئے وزارت داخلہ کو اپنے موقف پر دوبارہ غور کرنا چاہئیے۔ اس کے ساتھ ہی مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں اور آئی ایم اے جیسی پیشہ ور تنظیموں کو بھی اس بات کی کوشش کرنی چاہئیے کہ اس وبا سے نمٹنے میں تمام برادریوں کی ہر ممکن شرکت کو یقینی بنایا جاسکے۔
یہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے
(بشکریہ : ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS