محمد حنیف خان
خوراک جس طرح کسی بھی زندہ شخص کا بنیادی حق ہے بالکل اسی طرح تعلیم بچوں کا بنیادی حق ہے جس سے بچوں کو محروم نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ہر شعبے کی طرح اب تعلیم کے شعبے پر پڑا تالا بھی کھلنا چاہیے۔دوسرے شعبوں کی بہ نسبت تعلیمی ادارے زیادہ باشعور،بیدار اور محتاط ہیں،اس لیے کورونا سے بچاؤ کی جو بھی تدابیر ہیں ان پر وہ بہتر عمل کرسکیں گے۔اگر مقفل تعلیمی ادارے اب بھی نہیں کھلتے ہیں تو یہ تصور کیا جائے گا کہ بچوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔تعلیم سے صرف بچوں کا مستقبل ہی نہیں بلکہ ملکوں اور قوموں کا عروج و زوال وابستہ ہے۔اس میدان میں کامیابی ہر شعبے میں کامیابی کے دروازے کھول دیتی ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ دنیا کی سر فہرست 200یونیورسٹیوں میں ہندوستان کی بھی 3یونیورسٹیاں شامل ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اکیسویں صدی میں ہندستان تعلیم کی راہ پر گامزن ہے۔ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کے بچے پڑھیں لکھیں اور آگے بڑھیں مگر صرف خواہش اور 3یونیورسٹیوں کی دنیا کی 200 یونیورسٹیوںمیں شمولیت سے ہی ملک تعلیم کے میدان میں آگے نہیں بڑھ جائے گا۔اس کے لیے ابھی اور بھی بہت کچھ سرکاری اور عوامی سطح پر کرنا ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ہندوستان میں تعلیم اگرچہ ہر بچے کا بنیادی حق ہے، اس کے باوجود بنیادی ڈھانچے کی قلت، اساتذہ کی کمی اور تعلیم کی مہنگائی نے ہر بچے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہو نے دیا ہے۔سرکاری اسکولوں میں نظامی خامیوں کی بنا پر معاشی اعتبار سے کمزور بچے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں، وہیں پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے معاشی اعتبار سے مضبوط لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔اس پر مستزاد کووڈ 19نے تعلیم پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا۔
تعلیمی اداروں کے علاوہ کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں لاک ڈاؤن کے خاتمے کے اثرات نہ دکھائی دے رہے ہوں مگر تعلیمی ادارے مقفل ہیں،کہیں سے کچھ نظر بھی نہیں آرہا ہے کہ کب اور کتنے دنوں بعد یہ ادارے اپنی پٹری پر واپس آجائیں گے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی اداروں کو پٹری پر لایا جائے اور آن لائن موڈ کے بجائے کلاس روم میں تعلیم کا آغاز کیا جائے۔اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو یہ نہ صرف تعلیم سے اغماض،اس سے بے توجہی اور اس کو بے مصرف تصور کیے جانے کے مترادف ہوگا بلکہ پوری ایک نسل کے مستقبل سے صرف نظر ہوگا۔
کورونا وائرس کے دور میں تعلیم کا بنیادی ڈھانچہ نہ صرف بدل گیا بلکہ اس نے اس پورے نظام کو تہہ و بالا کرد یا ہے۔ اس دور میں آن لائن تعلیم کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ہر سطح پر اس کو پرموٹ بھی کیا گیا اور وقت کی ضرورت بھی تصور کیا گیا مگر یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک بلین بچوں کے سر پر امتحان میں ناکامی کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔مگر حکومت نے بچوں کو پرموٹ کرکے اس خطرے کو ٹال دیا ہے۔اس سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ آن لائن نظام تعلیم کی سب سے بڑی خامی کیا ہے۔آن لائن تعلیم اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ بچے گھر پر رہ کرتعلیم سے جڑے رہیں مگر یہ اس کا متبادل بالکل نہیں، اگر چہ یہ طریقہ تعلیم سے بالکل دور رہنے سے تو بہتر ہی تھا۔اچھی بات یہ رہی کہ کمیوں اور خامیوں کے باوجود آن لائن تعلیم کی مخالفت نہیں ہوئی، حالانکہ پرائیویٹ اداروں نے اس کو بھی ’موقع‘ میں بدل دیا مگر مجبوری میں عوام نے تعلیم سے اپنا رشتہ نہیں توڑا۔البتہ ایک سوال یہ ضرور اپنی جگہ اب قائم ہے کہ اس نظام تعلیم سے کتنے فیصد بچوں نے استفادہ کیا۔شہری علاقوں میں تو بچے آن لائن تعلیم سے جڑے رہے اگرچہ ان کی شکایات بھی یہی رہیں کہ اساتذہ نے خانہ پری کے سوا کچھ نہیں کیا،وہ آن لائن آکر صرف کام دیتے رہے اور وقت گزارتے رہے۔ایسا نہیں ہے کہ صرف چھوٹے بچوں کے ساتھ ہوا ہے۔اس سے کہیں زیادہ خراب صورت حال اعلیٰ تعلیمی اداروں کی رہی ہے۔مگر اس کی سب سے بھیانک صورت دیہی علاقوں میں دکھائی دی ہے۔جب سے تعلیمی ادارے بند ہوئے ہیں دیہی بچے تعلیم سے بالکل دور ہوگئے جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔جہاں ہر ماہ پانچ کلو اناج کا شدت سے انتظار ہوتا ہو، ان سے اینڈرائڈ موبائل کی امید بے معنی ہے۔اس لیے دیہی علاقوں میں معاشی مسئلے کے ساتھ ہی نیٹ ورکنگ دشواریاں بھی اہم رہی ہیں۔ان بچوں کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہونے کی وجہ سے وہ بجھتی ہوئی نظر آئی جسے منموہن سرکار نے ان کا حق قرار دے کر ان کے لیے مفت کیا تھا۔لاک ڈاؤن میں حکومت آن لائن نظام تعلیم کی بات کہہ کر خود کو نہیں بچا سکتی ہے کیونکہ ان بچوں کے لیے یہ نظام نہ ہونے کی طرح ہے۔گزشتہ ڈیڑھ برس سے یہ بچے اسکول کے بجائے دھول مٹی میں رچے بسے دکھائی دیتے ہیں جس سے ان کا مستقبل بھی مٹی میں ملتا جا رہا ہے۔حکومت کو صرف شہری اور معاشی اعتبار سے مضبوط افراد کے بچوں پر ہی نظر نہیں رکھنی چاہیے، اس کے مرکز میں سب سے پہلے ان بچوں کو ہونا چاہیے۔
کورونا نے تعلیم کی کسی سطح کو نہیں چھوڑا ہے۔ یونیورسٹیاں اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں،کورونا کے قہر نے بچوں سے ہاسٹل تک خالی کرا لیا، ایسے میں یونیورسٹیوں کے طلبا کے پاس بھی آن لائن تعلیم کے سوا کچھ نہیں بچا تھا۔چھوٹے بچوں کے مقابلے یہ طلبا جہاں باشعور ہوتے ہیں، وہیں ان کے اساتذہ کا شمار بھی دانشوروں میں ہوتا ہے،جن سے امید ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں بخوبی ادا کریں گے مگر یہاںبھی اساتذہ نے خانہ پری سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔آن لائن لیکچر سے بچوں کو مستفید کرسکتے تھے مگر اس کی جگہ اسائنمنٹ اور پی ڈی ایف کو ترجیح دی گئی۔اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم اور امتحان دونوں خانہ پری سے آگے نہیں بڑھ سکے۔اس طرح دونوں سطحوں پر اساتذہ یا اداروں کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔اعلیٰ تعلیمی اداروں میں حکومت کی طرف سے معاشی انتظامات ہوتے رہے اور پرائیویٹ اداروں میں سرپرستوں سے وصولی کی جاتی رہی،اگر کسی کا نقصان ہوا تو بچوں اور تعلیم کا ہوا ہے۔چونکہ نئے نظام کی وجہ سے کلاس کی طرح تعلیم ممکن نہیںتھی، اس لیے ان بچوں کو امتحان میں ناکام کرنے کے بجائے سب کو کامیاب ہی قرار دیا گیا،اس سے ان کا ایک سال تو بچ گیا مگرا ن کی علمی استعداد کسی طور پر نہیں بڑھ سکی،جس کا خمیازہ ان کو آنے والی زندگی میں بھگتنا پڑسکتا ہے۔اس معاملے میں اساتذہ، حکومت، نظام اور سر پرست کوئی بھی ان کی مدد نہیں کرسکے گا کیونکہ اس کورونا دور کے خاتمے کے بعد جب نظام تعلیم پٹری پر واپس آئے گا تو ملازمتیں مقابلہ جاتی امتحانات کی بنیاد پر ہی ملیں گی مگر ہائی اسکول،انٹر اور اعلیٰ درجات کے طلبا اس معاملے میں کمزور ہوں گے جس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوگی کہ ان کی وہ بنیاد کمزور ہوگی جس پر امتحانات کا دارو مدار ہوتا ہے۔ایسے میں سرپرستوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے ان سے اضافی محنت کرائیں تاکہ مستقبل میں ان کو ناکامی کا منھ نہ دیکھنا پڑے۔
اس دور میں ریسرچ کا خصوصاً آرٹ کے شعبے میں بہت نقصان ہوا۔لائبریریاں بند رہیں اور ہر کتاب آن لائن دستیاب نہیں ہوئی، اس کے باوجود مقررہ میعاد میں اس کو تکمیل تک پہنچانے کا دباؤ رہا۔جس سے دستاویزی سطح پر تو ریسرچ مکمل ہو گئی لیکن اس کے معیار میں کمی آگئی۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جزوی لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد جب نظام تعلیم پٹری پر آئے گا تو اس میں بھی ریسرچ پر اس کے اثرات دکھائی دیں گے۔چونکہ اس دور میں جو بھی لکھا گیا ہوگا وہ بھی اسی تھیسس میں شامل ہوگا۔اس طرح پرائمری سے لے کر پی ایچ ڈی تک کورونا/لاک ڈاؤن کے منفی اثرات موجودہ دور کے ساتھ ہی مستقبل پر پڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
کووڈ کی دوسری لہر کے بعد اب تیسری کا خوف ضرور مسلط ہے جس کے بارے میں یہ بات پھیلی ہوئی ہے کہ اس میں بچوں،بزرگوں اور وہ لوگ جو اب تک بچ گئے ہیں زد میں آجائیں گے مگر یونیسیف نے اس کو بے بنیاد بتایا ہے اگرچہ ایمس،وزارت صحت، انڈین اکیڈمی آف پیڈیا ٹرکس اور نیشنل نیونیٹولوجی وغیرہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔اس کے باوجودجزوی لاک ڈاؤن اب اپنے آخری مرحلے میں ہے۔کاروبار دنیا پٹری پر لوٹ رہی ہے مگر تعلیمی اداروں پر اب بھی مکمل لاک ڈاؤن ہے۔تعلیمی اداروں کے علاوہ کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں لاک ڈاؤن کے خاتمے کے اثرات نہ دکھائی دے رہے ہوں مگر تعلیمی ادارے مقفل ہیں،کہیں سے کچھ نظر بھی نہیں آرہا ہے کہ کب اور کتنے دنوں بعد یہ ادارے اپنی پٹری پر واپس آجائیں گے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی اداروں کو پٹری پر لایا جائے اور آن لائن موڈ کے بجائے کلاس روم میں تعلیم کا آغاز کیا جائے۔اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو یہ نہ صرف تعلیم سے اغماض،اس سے بے توجہی اور اس کو بے مصرف تصور کیے جانے کے مترادف ہوگا بلکہ پوری ایک نسل کے مستقبل سے صرف نظر ہوگا۔اس کی اولاً ذمہ داری حکومت پر ہے کہ وہ تعلیمی اداروں کو کھولے اور تعلیم و تعلّم کے سلسلے کو یقینی بنائے تاکہ عوام کے ساتھ ہی پوری دنیا میں یہ پیغام جائے کہ ہم کسی بھی حالت میں تعلیم سے دور نہیں ہوسکتے ہیں،کیونکہ یہ وہ روشنی ہے جو ملک کے مستقبل کو روشن کرے گی۔
[email protected]