اجے کھیمریا
کورونا بحران نے ہمارے ہیلتھ انفرااسٹرکچر کی خامیوں اور بے ضابطگیوں کو ظاہر کردیا ہے۔ ایسی ہی ایک بے ضابطگی ہے ملک کی میڈیکل ایجوکیشن میں بڑے پیمانہ پر عدم مساوات۔ جن ہندی بولنے والی ریاستوں کا مظاہرہ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں کمزور رہتا ہے، وہ میڈیکل ایجوکیشن کے معاملہ میں بھی جنوب کی ریاستوں سے پچھڑی ہوئی ہیں۔ شمال مشرق کی ریاستیں تو مزید بری حالت میں ہیں۔ صحت عامہ کے معاملہ میں یہ عدم توازن آج بھی سنگین مسئلہ ہی ہے۔ یہ فطری حقیقت ہے کہ جس ریاست میں شہری صحت مند ہوں گے، وہاں ترقی کے سبھی مواقع قابل رسائی ہوں گے، ساتھ ہی قومی ترقی میں ان ریاستوں کا کردار اہم ہوگا۔ صحت عامہ کے لیے سب سے اہم ہے طبی اداروں کی دستیابی۔ اس سے ڈاکٹروں کی دستیابی کے ساتھ مقامی معاشرہ کے لیے بھی صحت مندی کی سہولت برقرار رہتی ہے۔
یہ المیہ ہی ہے کہ آزادی کے بعد ہماری آبادی میں تو 7گنا سے زیادہ اضافہ ہوگیا، لیکن ملک میں اسپتال دوگنے بھی نہیں بڑھے۔ اعدادوشمار کے لحاظ سے دیکھیں تو 1950سے2014کے درمیان اوسطاً 6میڈیکل کالج ہر سال تیار ہوئے۔ اب حکومت نے 29نئے میڈیکل کالج سالانہ کھولنے کا ہدف رکھا ہے۔ اسی طرح 2014میں ملک کے سبھی میڈیکل کالجوں میں گریجویٹ(ایم بی بی ایس) کورسز میں کل 53ہزار 338سیٹیں تھیں جو آج 84ہزار 649ہوگئی ہیں۔ پوسٹ گریجویٹ کورسز میں سیٹوں کی تعداد سال 2014میں 23ہزار تھی جو اب 44ہزار تک آگئی ہے۔ 16نئے ایمس سطح کے کالج بھی اگلے چار سال یعنی 2025تک شروع کردینے کی بات ہے۔ کالجوں میں زیادہ سے زیادہ داخلوں کی تعداد 150سے بڑھا کر 250کرنے سمیت بنیادی انفرااسٹرکچر اور اساتذہ کی سطح پر تمام سہولتیں عمل میں لائی جارہی ہیں۔
لیکن اتنا سب کچھ ہونے کے بعدبھی اس عددی اضافہ کا فائدہ ملک میں متناسب طور پر نہیں مل پارہا ہے۔ جامع دستیابی کے نظریہ سے زمینی حقیقت مایوس کن ہے۔ ملک میں ایم بی بی ایس اور پوسٹ گریجویٹ سیٹوں کی تعداد میں اضافہ ایک خطرناک عدم توازن اور خرچیلے صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بھی جنم دے رہا ہے۔ سیٹوں کا یہ عددی اضافہ ملک میں کچھ ریاستوں کے اردگرد ہی سمٹا ہے اور تین چوتھائی ریاستیں اس پالیسی میں اصلاحات کے فوائد سے محروم ہیں۔ نتیجتاً ملک کا عام آدمی صحت کی معیاری سہولتوں (standard health facilities) کے لیے پرائیویٹ سیکٹر پر ہی منحصر ہیں۔ پارلیمنٹ میں پیش اس سال کے معاشی سروے کے پانچویں حصہ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ کیسے پرائیویٹ سیکٹر عام آدمی کو مہنگے علاج کے ذریعہ سے غریبی کے دلدل میں دھکیلتا جارہا ہے۔ کورونا کی دونوں لہروںمیں ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے پرائیویٹ اسپتالوں نے لاکھوں کے بل مریضوں سے وصول کیے ہیں۔
اصل میں میڈیکل ایجوکیشن کا یہ عدم توازن تبھی دور ہوسکتا ہے جب ہر ضلع میں ایک میڈیکل کالج کے ہدف پر پالیسی پر مبنی فیصلہ لیا جائے۔ ڈیڑھ لاکھ ویل نیس سینٹروں کی مستند افادیت ڈاکٹروں کی کمی کے سبب مشتبہ ہی رہے گی۔ اس لیے عملی حل ’ون ڈسٹرکٹ ون کالج‘ ہی ہوسکتا ہے۔ اس سے ریاستوں کی سطح پر ادارہ جاتی عدم توازن ختم ہوگا، کیوں کہ پرائیویٹ میڈیکل کالج آخرکار سرمایہ دار مالکوں کے لیے ہی خزانہ ثابت ہوتے ہیں۔ سرکاری ضلع اسپتالوں کو میڈیکل کالج میں تبدیل کرنے کی پالیسی جامع صحت کی خدمات کے نظریہ سے کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔
ایک سرکاری ریسرچ میں یہ سامنے آیا ہے کہ مہنگے علاج کا بوجھ نہیں برداشت کرپانے کے سبب ملک کی 7فیصد آبادی ہر سال خط افلاس کے دائرہ میں آجاتی ہے۔ ملک کے ہر چوتھے کنبہ کو صحت پر خرچ کے لیے قرض لینا پڑتا ہے یا اپنی املاک فروخت کرنی پڑتی ہے۔ توجہ سے دیکھا جائے تو ہیلتھ سیکٹر میں اس استحصال کی بنیاد عرصہ سے چلی آرہی سرکاری پالیسیوں میں ہی ہے۔ ریاست کا سبجیکٹ ہونے کے سبب ملک کی چنندہ ریاستوں نے منظم طریقہ سے ایلوپیتھک نظام کو اپنے ایک دودھارو سنڈیکیٹ کے ذریعہ چلانے میں کامیابی حاصل کررکھی ہے۔ دوسری طرف صحت کے اداروں کے معاملہ میں جنوب کی 6 ریاستوں- آندھراپردیش، تلنگانہ، کرناٹک، کیرالہ، تمل ناڈو، پدوچیری کے ساتھ مہاراشٹر نے عددی اور کوالٹی (numerical and qualitative)دونوں محاذ پر دبدبہ قائم کرلیا ہے۔ ان سات ریاستوں نے ملک کی کل منظورشدہ ایم بی بی ایس سیٹوں میں 48فیصد حصہ اپنے یہاں لے رکھا ہے۔ ملک کے کل 562میڈیکل کالجوں میں سے 276پرائیویٹ سیکٹر کے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ ان پرائیویٹ کالجوں میں سے 165تو ان 7ریاستوں میں ہی واقع ہیں۔ ایک اور دلچسپ اعدادوشمار یہ ہیں کہ ان 7ریاستوں میں صرف 105کالج ہی حکومتیں چلاتی ہیں۔ یعنی حکومت کی شراکت داری پرائیویٹ سیکٹر کے مقابلہ میں کم ہے۔ مہاراشٹر سمیت جنوب کی ریاستوں میں میڈیکل کالج ایک صنعت کی شکل لے چکے ہیں۔ اس لیے یہ سمجھا جانا چاہیے کہ ان ریاستوں کے سرمایہ دار طبقہ نے ہیلتھ سیکٹر کے کاروبار کو اپنے اثر سے ریگولیٹ کرارکھا ہے۔ حکومتوں نے بھی پرسکون طریقہ سے ہیلتھ سیکٹر پرائیویٹ ہاتھوں میں سونپ دیا ہے۔ یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ پرائیویٹ میڈیکل کالج کس طبقہ کے لیے سہولتیں دینے والے (convenient) ہوتے ہیں اور ان سے نکلنے والے ڈاکٹر معاشرتی یا عوام کی خدمت کے لیے کتنے موزوں ہوتے ہیں۔ اس سال کے معاشی سروے میںاس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک کے صرف 20فیصد ڈاکٹر ہی سرکاری خدمات میں ملوث ہیں۔ یعنی مہنگی طبی دیکھ بھال ہمارے موجودہ نظام سے ہی پھل پھول رہی ہے۔
میڈیکل ایجوکیشن کی تصویر کے دوسرے پہلو پر بھی غور کرنا ہوگا۔ جن ریاستوں کو ترقی کے پیمانہ پر فسڈی سمجھا جاتا ہے، وہاں میڈیکل ایجوکیشن کے معاملہ میں پسماندگی 7دہائی بعد بھی کم نہیں ہوپارہی ہے۔ بہار، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، دہلی، ہریانہ، جھارکھنڈ، اترپردیش، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش جیسی ہندی بولنے والی ریاستو ںکی تقریباً 65کروڑ آبادی پر ایم بی بی ایس سیٹوں کی دستیابی محض30فیصد ہے۔ یہاں ایم بی بی ایس کی کل سیٹیں 25ہزار325ہیں۔ ان ریاستوں میں کل 176میڈیکل کالج ہیں جن میں 72پرائیویٹ اور 104سرکاری سیکٹر میں ہیں۔ یعنی مہاراشٹر اور 6جنوبی ریاستوں کی جتنی تعداد پرائیویٹ کالجوں کی ہے، تقریباً اتنی ہی تعداد ان دس ریاستوں میں کل میڈیکل کالج کی ہے۔ ناگالینڈ ملک کی ایسی ریاست ہے جہاں ایک بھی میڈیکل کالج نہیں ہے۔ گزشتہ لوک سبھا سیشن میں حکومت نے اپنے ایک جواب میں یہ معلومات شیئر کی ہے۔ انڈمان، جموں و کشمیر، دادرا، آسام، اروناچل پردیش، منی پور، گوا، میزورم، سکم، تریپورہ، میگھالیہ کو ملا کر 12ریاستوں میں صرف 3ہزار257ایم بی بی ایس سیٹیں ہیں۔ مغربی بنگال، گجرات، اڈیشہ، پنجاب میں ملاکر یہ اعدادوشمار 12ہزار900کے ہیں۔ گجرات کی تقریباً 7کروڑ کی آبادی پر جہاں پانچ ہزار 700امیدواروں کو میڈیکل ایجوکیشن میں داخلہ ملتا ہے، وہیں بنگال میں 10کروڑ پر یہ اعدادوشمار محض 4ہزار 25ہیں۔ ان اعدادوشمار سے ایک بات پوری طرح واضح ہے کہ ملک میں میڈیکل کالجوں کی تقسیم عدم توازن کی شکار ہے۔
اصل میں میڈیکل ایجوکیشن کا یہ عدم توازن تبھی دور ہوسکتا ہے جب ہر ضلع میں ایک میڈیکل کالج کے ہدف پر پالیسی پر مبنی فیصلہ لیا جائے۔ ڈیڑھ لاکھ ویلنیس سینٹروں کی مستند افادیت ڈاکٹروں کی کمی کے سبب مشتبہ ہی رہے گی۔ اس لیے عملی حل ’ون ڈسٹرکٹ ون کالج‘ ہی ہوسکتا ہے۔ اس سے ریاستوں کی سطح پر ادارہ جاتی عدم توازن ختم ہوگا، کیوں کہ پرائیویٹ میڈیکل کالج آخرکار سرمایہ دار مالکوں کے لیے ہی خزانہ ثابت ہوتے ہیں۔ سرکاری ضلع اسپتالوں کو میڈیکل کالج میں تبدیل کرنے کی پالیسی جامع صحت کی خدمات کے نظریہ سے کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ کووڈ بحران کے سبق کے طور پر ہمیں ملک میں ایک یونیورسل ہیلتھ انفرااسٹرکچر کھڑا کرنا ہے تو میڈیکل ایجوکیشن کو بھی جامع بنانا پڑے گا۔ ایسا تبھی ممکن ہے جب حکومت اپنے کنٹرول والے میڈیکل کالجوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ کرے اور ہر ضلع اسپتال کو کالج میں بدلنے کے ساتھ ہی وہاں چار سالہ پوسٹ گریجویٹ کورسز کی شروعات کرے، جیسا کہ برطانیہ میں ہوتا ہے۔ اس سے دیہی اور شہری علاقوں میں ڈاکٹروں کی دستیابی آسان ہوگی۔
(بشکریہ: جن ستّا)