محمد فاروق اعظمی
آج کی جدید دنیا میں اظہار رائے اورا ختلا ف رائے کا حق بنیادی انسانی حق تصور کیاجاتا ہے اور ان حقوق پر کسی طرح کا قدغن انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان میں یہ حق شروع سے ہی نزاع کا سبب بنا ہوا ہے۔ بالخصوص حکمراں طبقہ سے اختلاف ا ور اظہار رائے کو ملک دشمنی سے تعبیر کیاجاتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں حکومت اور حکمراں طبقہ سے اختلاف رائے اوران کے فیصلہ پر بے لاگ تبصرہ کو ملک دشمنی سمجھے جانے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اسی تیزرفتاری کے ساتھ مخالفین پر ملک دشمنی کے مقدمات بھی قائم کیے گئے ہیں۔گزشتہ 5برسوںمیں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون(یو اے پی اے) کے 51128 معاملات اور ملک سے بغاوت کے 229معاملات درج کیے گئے ہیں۔ 2014 میں ملک دشمنی یا ملک سے بغاوت کے 47معاملات درج کیے گئے تھے جب کہ 2018میںیہ تعداد70تک پہنچ گئی اور2019میں ایسے 93مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان مقدموںمیں اصل معاملہ ملک دشمنی کا نہیں زبان بندی کا ہوتا ہے۔ حکومت اپنی طاقت کے زعم میں اپنے ناقدین کا منھ بند کرنے کیلئے ایسے مقدمے قائم کرتی ہے اور اکثر مقدمے چند ایک سماعتوں کے بعد عدالت سے خارج کردیے جاتے ہیں۔اس ہفتہ بھی ملک کی سپریم کورٹ نے ایک ایسا ہی مقدمہ خارج کرکے حکومت کے عزائم پر لگام لگائی ہے۔معروف صحافی ونود دوا کے خلاف گزشتہ برس ملک سے بغاوت کامقدمہ قائم کیاگیاتھا لیکن ونود دوا کے خلاف بغاوت کایہ مقدمہ مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس ادے امیش للت اور جسٹس ونیت سرن کی بنچ نے کہا کہ حکومت پر تنقید کرنا بغاوت نہیں ہے۔ ملک میں ہر صحافی کومختلف رائے کے اظہار کاحق حاصل ہے اور اس حق کا تحفظ بھی کیاجاناچاہیے۔ عدالت نے کہا کہ اگر اس حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اظہار رائے کی آزادی کا آئینی حق بھی بے معنی ہوجائے گا۔
برطانیہ کی طرح ہی دوسرے ممالک میں بھی ایسے قوانین جو اظہار رائے اور اختلاف رائے کے حق کے مقابل تھے، انہیں ختم کردیا گیا ہے۔ پوری دنیا میں ہندوستان ہی اب وہ واحد ملک رہ گیا ہے جہاں برطانوی دور حکومت کی یادگار 1870کا قانون آج بھی اپنی پوری روح کے ساتھ نافذ ہے اور حکمراں جب چاہیں جسے چاہیں اختلاف رائے کے جرم میں غدار وطن قرار دے سکتے ہیں۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس قانون کی ضرورت اور معنویت پر غور کیا جائے اور ملک کی علمی، فکری اور جمہوری راہ مسدود کرنے والی یہ رکاوٹ ختم کی جائے۔ ایسے ہر قانون کا جائزہ لینا ضروری ہے جو ملک میں اختلاف رائے اور اظہار رائے کو محدود اور ختم کرتا ہو۔
ملک کے جمہوریت پسند عوام سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی تائید کرتے ہوئے اس ا مید کا اظہار کررہے ہیں کہ عدالت نے ایسے مقدموں میں جو رویہ اختیار کیا ہے وہ حکمراں طبقہ کی جانب سے ایسے بے معنی مقدمات قائم کرنے کے رجحان پر بند باندھے گا۔
دانش ور اختلاف رائے کو جمہوریت کاحسن قرار دیتے ہیں اور یہ صحیح بھی ہے کہ اختلاف رائے سے ہی اصلاح احوال کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اختلاف اور اظہار رائے جمہوریت کے بنیادی ستون ہیں۔ ملک کے آئین میں ہرشہری کو اس کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ملک و معاشر ہ کی فکری، عملی، نظریاتی و مادی نشوونما اور فروغ کیلئے ضروری ہے کہ افکار و نظریات اور خیالات کا آزادنہ بہائو ہو، تحقیق و جستجو کا ماحول ہو، لوگ بے خوف اور بے لاگ ہوکر نہ صرف اپنے خیالات کا اظہار کریںبلکہ دوسروں سے اختلاف رائے کا حق بھی انہیں حاصل ہو۔جمہوریت کے استحکام کیلئے بھی لازم ہے کہ حکمرانوں کی غلط کاریوں پر گرفت کیلئے عوام میں کوئی خوف نہ ہو۔ عوام بے باک ہوکر حکومت کی کسی پالیسی کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار اور اس سے اختلاف کرسکیں۔ بالخصوص صحافیوں کو اختلاف رائے کے اظہار میں کوئی سدراہ نہ ہو۔ملک میں ایسا ماحول ہو کہ صحافی کسی بھی معاملے کے حسن و قبح پر بغیر کسی خوف کے نہ صرف اظہار رائے بلکہ اختلاف بھی کرسکیں۔اختلاف رائے ملک سے غداری یا بغاوت نہیں بلکہ عین ملک دوستی ہے۔ اسی اختلاف رائے کے بطن سے ہی دوسری آزادیاں نکلتی ہیں جنہیں جمہوریت کا ثمرہ کہاجاسکتا ہے۔ انتخابی عمل بھی اختلاف رائے اور اظہار رائے کی ہی ایک شکل ہے جس کا سہارا لے کر ایک طبقہ حکومت میں آتا ہے۔ لیکن حکومت ملنے کے بعدیہ طبقہ خود کو اختلاف سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے۔ حالانکہ اظہار رائے اور اختلاف کواگرختم کردیاگیا تو نہ جمہوریت رہ پائے گی، نہ انتخاب ہوں گے اور نہ ہی معاشرہ کی ترقی و نشوونما کا تسلسل برقرار رہ سکتا ہے۔
سپریم کورٹ بلاشبہ ان حقائق سے آشنا ہے اوراس نے ایسے مقدمات خارج کرکے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ اختلاف رائے اور اظہار رائے کی آزادی پر پہرے بٹھانے نہیں دے گا۔
جس قانون کی بنیاد پرحکومت صحافیوں یا عام آدمیوںپر ملک سے بغاوت کے مقدمات قائم کررہی ہے، وہ قانون بھی نزاع کی زد میں ہے۔ جمہوریت میں ایسے کسی قانون کی گنجائش پر ہی اب سوالات بھی اٹھنے لگے ہیں۔تعزیرات ہند1860کی دفعہ 124 الف کے تحت ملک سے بغاوت یا غداری کی آئینی حیثیت بھی شکوک کے دائرے میں ہے۔اس قا نون کے جبر کا شکار ہونے والے دو صحافیوں نے اس کی آئینی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ عرضی سماعت کیلئے منظور کرلی ہے۔عرضی گزار صحافیوں کا کہنا ہے کہ قانون کی دفعہ 124الف 150سال پرانی دور غلامی کی دین ہے۔یہ قانون انگریزوں کے زمانے میں عوام کے اختلا ف اور اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔ اب آزاد ہندوستان کے جمہوری طرزحکومت میں ایسے کسی قانون کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ آج کی آزاد جمہوری ریاستوں میں اس طرح کاہر قانون بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہی کہاجائے گا۔ اپنی نوآبادیات میں اپنے خلاف بغاوت کو کچلنے کیلئے جس برطانیہ نے یہ قانون بنایاتھا، وہاں بھی قانون میں شامل لفظ بغاوت کی تعریف و تشریح بدل دی گئی ہے اب اختلاف رائے اور اظہار رائے ملک سے بغاوت کے زمرے میں نہیں آتے ہیں۔برطانیہ کی طرح ہی دوسرے ممالک میں بھی ایسے قوانین جوا ظہار رائے اورا ختلاف رائے کے حق کے مقابل تھے، انہیں ختم کردیاگیا ہے۔ پوری دنیامیں ہندوستان ہی اب وہ واحد ملک رہ گیا ہے جہاں برطانوی دور حکومت کی یادگار 1870کا یہ قانون آج بھی اپنی پوری روح کے ساتھ نافذ ہے اور حکمراں جب چاہیں جسے چاہیں اختلاف رائے کے جرم میں غدار وطن قرار دے سکتے ہیں۔لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس قانون کی ضرورت اور معنویت پر غور کیاجائے اور ملک کی علمی، فکری اور جمہوری راہ مسدود کرنے والی یہ رکاوٹ ختم کی جائے۔ ایسے ہرقانون کا جائزہ لینا ضروری ہے جو ملک میں اختلاف رائے اور اظہار رائے کو محدود اور ختم کرتا ہو۔
[email protected]