…آلوک جوشی
حکومت کے دعوؤں اور میڈیا خبروں پر یقین کریں تو کورونا کی دوسری لہر بھی اب ختم ہونے کو ہے۔ سوال پوچھے جانے لگے ہیں کہ بازار کب کھلیں گے، کتنے کھلیں گے؟ ہم کب باہر نکل کر کھلے میں گھوم پائیں گے اور زندگی کب معمول پر پہلے جیسی ہوپائے گی؟
بہت جلدبازی ہے، تاجروں کو، عام لوگوں کو اور حکومتوں کو بھی کہ کب اس آفت کے ٹلنے کے پکے اشارے آئیں اور کتنی تیزی سے لاک ڈاؤن ہٹاکر معیشت کو پٹری پر دوڑانے کا انتظام کیا جائے۔ یہ ضروری بھی ہے کیوں کہ سال بھر سے زیادہ وقت ہوچکا ہے۔ لوگوں کے پاس کام نہیں ہے، کمائی نہیں ہے۔ خرچ کم کرتے کرتے بھی اب نہ صرف غریب، بلکہ متوسط طبقہ کے کنبے بھی اس حال میں آچکے ہیں کہ اب پائی پائی کا حساب لگانا پڑرہا ہے۔ بہت سے لوگ تو کنگالی کی زدمیں ہیں۔ ملازمتیں چلی گئی ہیں یا پھر تنخواہ نہیں مل رہی ہے۔ یہی حال چھوٹے تاجروں کا بھی ہے اور چھوٹی موٹی نوکری کرنے والوں کا بھی۔
ایسے میں ان کنبوں کی سوچئے، جن کا کمانے والا ممبر کورونا کی بھینٹ چڑھ گیا اور اب باقی لوگوں کو نہ صرف اس دکھ کا سامنا کرنا ہے، بلکہ روزی روٹی کا انتظام بھی کرنا ہے۔ ایک ایک کنبہ کا حساب لگانا تو مشکل ہے، لیکن سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی(سی ایم آئی ای) کا کہنا ہے کہ جب سے کورونا بحران شروع ہوا، تب سے ملک میں ملازمت پیشہ لوگوں کی گنتی میں زبردست کمی آئی اور اس میں بہتری کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ کورونا سے عین قبل ملک میں کل 40.35کروڑ لوگوں کے پاس روزگار تھا۔ تب سے اب تک سب سے اچھی حالت دسمبر اور جنوری میں آئی، جب یہ گنتی واپس 40کروڑ پر پہنچی، لیکن اب یہ گنتی 39کروڑ پر ہے۔ ان میں سے بھی تقریباً 7.3کروڑ یا 7.4کروڑ لوگ ہی ہیں، جن کے پاس پکی یا کچی نوکریاں ہیں۔ یعنی جنہیں ہر ماہ بندھی تنخواہ ملتی ہے۔ کورونا سے پہلے ایسے لوگوں کی تعداد تقریباً 8.5کروڑ تھی۔
سی آئی آئی پریزیڈنٹ نے کہا بھی ہے کہ حکومت کو اب بڑے پیمانہ پر نوٹ چھاپ کر غریبوں کو سیدھے پیسہ تقسیم کرنا چاہیے اور ان سارے کاروباوں کو راحت دینی چاہیے جن پر اس وبا کی سنگین مار پڑی ہے اور جہاں روزگار پر برا اثر ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ وقت آگیا ہے، جب حکومت کو سہارا دے کر معیشت کو مصیبت سے باہر نکالنے کا کام کرنا ہوگا۔ اگر اب یہ نہیں کیا، تو پھر کب؟
مسئلہ کی گہرائی میں جانے کے لیے ایک اور اعدادوشمار دیکھنے سے مدد ملے گی۔ سی ایم آئی ای نے اپنے سروے میں لوگوں سے پوچھا کہ ایک سال پہلے کے مقابلہ آج ان کی کمائی کا کیا حال ہے؟ صرف تین فیصد لوگوں نے کہا کہ ان کی آمدنی پہلے سال سے بہتر ہے۔ 55فیصد لوگوں نے تو صاف صاف کہا کہ ان کی آمدنی ایک سال پہلے کے مقابلہ کم ہوگئی ہے اور باقی کا کہنا تھا کہ کمائی میں نہ اضافہ ہوا ہے نہ کمی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ مہنگائی کا صحیح سے تخمینہ لگالیں تو ملک کے 97فیصد لوگوں کی کمائی ایک سال میں بڑھنے کے بجائے کم ہوگئی ہے۔ یہ بہت خطرناک حالت ہے اور اس کے ساتھ ہی سوال اٹھتا ہے کہ اس حالت سے باہر کیسے آیا جائے گا؟
گزشتہ سال جب پہلی مرتبہ لاک ڈاؤن ہوا، تب ایک جھٹکے میں سب کچھ بند بھی ہوگیا، لیکن بعد میں سب کچھ اتنی ہی تیزی سے واپس بھی آتا ہوا نظر آیا۔ اس مرتبہ متعدد ماہرین نے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوسرے دور کا معیشت پر اثر اتنا نہیں ہوگا، جتنا پہلی مرتبہ ہوا تھا۔ مگر سچ تو کچھ اور ہے۔ بڑے انویسٹمنٹ بینک بارک لیج نے تخمینہ لگایا ہے کہ مئی کے ماہ میں لاک ڈاؤن کا ایک ایک ہفتہ ہندوستان کو آٹھ ارب ڈالر، یعنی تقریباً 58ہزار کروڑ روپے کا نقصان پہنچا رہا ہے۔ بارک لیج نے ہندوستان کی جی ڈی پی گروتھ کا تخمینہ بھی پھر سے کم کردیا ہے اوور اب اس کے مطابق 2021-22میں ملک کی جی ڈی پی میں اضافہ کی رفتار 9.2فیصد ہی رہ جائے گی۔ اس کے ماہرمعاشیات راہل باجوریا اور شرئیاسوڈھانی کا کہنا ہے کہ حالاں کہ کورونا کی دوسری لہر اب اُتار پر ہے، لیکن اس سے ہوا معاشی نقصان کافی بڑا ہے۔ بیماری کو روکنے کے لیے جو لاک ڈاؤن لگائے گئے، وہ بہت سخت تھے، اور دوسری طرف ٹیکہ کاری کی رفتار دھیمی ہے۔
ٹیکے لگنے کی رفتار کم ہونے سے درمیانی مدت میں ملک کی ترقی کے لیے بڑا خطرہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ بالخصوص اس صورت میں اگر ملک کو کورونا کی تیسری لہر کا سامنا کرنا پڑجائے۔ بارک لیج کا کہنا ہے کہ ایسی بری حالت میں ملک کی معیشت کو 42.6ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑسکتا ہے۔ ایسے میں ہندوستان کی جی ڈی پی میں اضافہ کی رفتار مزید کم ہوکر اس مالی سال میں 7.7فیصد ہی رہ سکتی ہے۔
بڑی فکر کی بات یہ ہے کہ اس وقت کسی بھی سطح پر ایسا کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے جو معاشی محاذ پر اس مصیبت سے نکلنے کا سبب بن سکے۔ کچھ کمپنیوں نے دریادلی دکھائی ہے اور کورونا کے شکار اپنے ملازمین کو ایک سال یا زیادہ کی تنخواہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ ٹاٹاگروپ نے تو ایسے لوگوں کے کنبوں کو ان کی پوری نوکری کے دور تک تنخواہ، کمپنی کے گھر اور میڈیکل سہولتیں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن زیادہ تر کمپنیوں کی حالت یہ ہے کہ وہ دوتہائی اہلیت پر کام کررہی ہیں۔ ایسے میں وہ خود مزیدپیسہ لگانے یا معیشت کو دھکا دینے کی حالت میں نہیں ہیں۔ جب تک بازار میں نئی ڈیمانڈ نہ آئے، تب تک ان کے لیے ایسا کرنے کا جواز بھی نہیں ہے۔
اب ایک ہی امید بچتی ہے، وہ ہے حکومت۔ حکومت نے گزشتہ سال بڑا بھاری راحت پیکیج دینے کا اعلان کیا تھا۔ حالاں کہ اس میں حقیقی راحت کتنی تھی، اس پر آج تک تنازع چل رہا ہے۔ لیکن اس مرتبہ حکومت کی طرف سے کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آیا ہے۔ ہاں اتنا صاف ہے کہ اگر اس وقت حکومت نے کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا تو یہ مصیبت کافی خطرناک موڑ لے سکتی ہے۔
سی آئی آئی پریزیڈنٹ نے کہا بھی ہے کہ حکومت کو اب بڑے پیمانہ پر نوٹ چھاپ کر غریبوں کو سیدھے پیسہ تقسیم کرنا چاہیے اور ان سارے کاروباوں کو راحت دینی چاہیے جن پر اس وبا کی سنگین مار پڑی ہے اور جہاں روزگار پر برا اثر ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ وقت آگیا ہے، جب حکومت کو سہارا دے کر معیشت کو مصیبت سے باہر نکالنے کا کام کرنا ہوگا۔ اگر اب یہ نہیں کیا، تو پھر کب؟
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)