سری نگر: (یو این آئی) وادی کشمیر میں جاری کورونا کرفیو سے جہاں لوگ گوناگوں مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں وہیں اشیائے خوردنی بالخصوص کھانا پکانے کے لئے استعمال ہونے والے تیل کی مہنگائی نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ اشیائے خوردنی خاص کر کھانا پکانے کے لئے استعمال ہونے والے تیل کی قیمت میں ہر ماہ اضافہ ہو رہا ہے جس کا خریدنا لوگوں کے لئے مشکل ہی نہیں نا ممکن بن رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متعلقہ محکمے کی طرف سے قیمتوں کو اعتدال میں رکھنے کے لئے زمینی سطح پر کوئی کارروائی انجام نہیں دی جا رہی ہے۔کھانا پکانے کے لئے استعمال ہونے والے تیل کی مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ ایک معروف کارٹونسٹ نے اس پر ایک کارٹون بھی بنایا ہے جس میں مختلف اقسام کے تیل کے ڈبوں کو بنایا گیا ہے اور اوپر گاہک کی طرف مخاطب ہو کر لکھا گیا ہے کہ ‘دم ہے تو خرید کر دکھاؤ’۔
محمد یوسف نامی ایک شہری نے یو این آئی کو بتایا کہ اشیائے خوردنی خاص کر تیل کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں جس کی وجہ سے موجودہ حالات میں عام لوگ ان کو خریدنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے چند ماہ قبل ساڑھے چھ سو روپے میں پانچ لیٹر والی تیل کی بوتل خریدی اور آج وہی بوتل نو سو روپے میں ملتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح تیل مہنگا ہو رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی مافیا کار فرما ہے۔
محمد اشرف نامی ایک شہری نے بتایا کہ غریب لوگ اب عنقریب تیل کے بغیر ہی کھانا پکانا شروع کریں گے کیونکہ تیل خریدنا اب ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے محکمہ امور صارفین ان چیزوں کی قیمتیں طے کرتا تھا اور بازاروں میں گراں بازاری نہیں ہوتی تھی لیکن یہ محکمہ بھی نہ جانے کیوں خواب غفلت میں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے لیکن تیل کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ درج ہو رہا ہے۔
ایک اور شہری نے بتایا کہ کورونا کرفیو کے دوران اشیائے خوردنی کی قیمتیں اعتدال میں ہونی چاہئے تھیں لیکن اسی صورتحال میں ان کی قیمتیں اس قدر بڑھائی گئی ہیں کہ عام لوگوں کا جینا مزید مشکل ہوگیا ہے۔
لوگوں نے حکومت بالخصوص متعلقہ محکمہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اشیائے خوردنی کی قیمتوں کو اعتدال میں رکھنے کے لئے زبانی جمع خرچ کے بجائے زمینی سطح پر کاررائیاں انجام دیں۔
کشمیرمیں کورونا کرفیو سے اشیائے خوردنی بالخصوص تیل کی قیمتوں میں اضافے سے عوام پریشان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS