محمد حنیف خان
ملک کی شناخت اور اس کی ریڑھ کی ہڈی دیہات اور اس میں بسنے والے کسان ہیں۔وہی اس ملک کی تہذیب و ثقافت کے پاسدار اور امین ہیں ،لیکن یہ پاسداری اور امانت اسی وقت تک ہے جب تک ان میں زندگی کی رمق باقی ہے۔ آج حالات بہت خراب ہوچکے ہیں ،ان میں زندگی کی رمق ختم ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔کسان اور دیہی باشندے اس وقت دوہری مار جھیلنے پر مجبور ہیں۔ ایک طرف قدرت ان کوکم علمی ،عدم بیداری اور غربت کی سزا دے رہی ہے ۔دوسری طرف حکومت کھاد اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کرکے ان کا گلا کاٹ رہی ہے۔ان کی دھوتی کھول کر ان کے سر پر پگڑی باندھنے کا جو تماشا ہو رہا ہے اس سے وہ خون کے آنسو رونے پر مجبور ہیں۔کووڈ 19نے اس وقت دیہی باشندوں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔سب سے زیادہ معاملات دیہی علاقوں سے ہی سامنے آ رہے ہیں۔لیکن اس کے مقابلے علاج ومعالجہ کا بندوبست آج بھی صفر سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔کہنے کو مرکزی حکومت نے گائڈ لائن جاری کر دیا اور ریاستوں کو احکامات دے دیے کہ وہ دیہی علاقوں میں اس دوسری لہر کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرے لیکن ریاستی حکومتیں زمینی سطح پر کتنا کام کر رہی ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی دیہی باشندوں کو کوئی یہ بتانے والا نہیں ہے کہ اس وبا کی زد میں آ نے کی صورت میں وہ کیا کریں؟
حکومت اور پرائیویٹ دونوں سطحوں پر علاج و معالجہ کے جتنے بھی انتظامات ہیں وہ سب شہری سطح پر ہیں،کوئی ایک اسپتال دیہات میں نہیں ہے ۔سی ایچ سی اور پی ایچ سی اس قابل نہیں ہیں کہ وہاں اس کا علاج ممکن ہو سکے۔ایسے میں دیہی باشندے جائیں تو کہاں جائیں ؟ان کو کوئی بھی بتانے والا نہیں ہے کہ اس بیماری کی علامات کیا ہیں اور ان کو کیسے معلوم ہو کہ وہ مہاماری کی زد میں آچکے ہیں۔اکثر وبیشتر یہی دیکھا گیا ہے کہ بخار اور کھانسی میں دیہات کے اس طرح کے مریض عام ڈاکٹروں سے روٹین علاج کراتے ہیں،چونکہ دیہی علاقوں میں کووڈ 19کی جانچ کی کوئی سہولت نہیں ہے، ایسے میں مریض اور ڈاکٹر دونوں اس سے ناواقف ہوتے ہیں اور پھر یہ معاملہ گہرا ہو جاتا ہے۔جب مریض کی حالت زیادہ بگڑ جاتی ہے تو اس کو اسپتال پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر اکثر و بیشتر وہ اسپتال تک بھی نہیں پہنچ پاتا ہے،جس میں ایک سب سے بڑی وجہ ٹرانسپورٹیشن کا بھی ہے۔حکومتیں بلند بانگ دعوے تو ضرور کرتی ہیں مگر ان کی کوئی زمینی حقیقت نہیں ہے۔اگر ایسا ہوتا تو ایک برس کے عرصے میں انہوں نے دیہی علاقوں کو کور کر لیا ہوتا۔مگر یہاں تو شہر میں ہی لوگ مر رہے ہیں تو دیہات کی کیا بات کی جائے۔
ملک کے کسی بھی دیہات میں چلے جایئے ہر جگہ کے حالات ایک ہی طرح دکھائی دیں گے۔کہیں بھی علاج کا مکمل بندو بست نہیں نظر آئے گا۔کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ دیہی عوام اس ملک کے باشندے ہی نہیں ہیں، کیونکہ حکومتیں جتنے بھی منصوبوں کی خاکہ سازی کرتی ہیں ان کا تعلق دیہات کے بجائے شہروں سے ہوتا ہے، خاص طور پر علاج و معالجے کا شعبہ پوری طرح سے شہروں پر ہی منحصر ہے۔
ملک کے کسی بھی دیہات میں چلے جایئے ہر جگہ کے حالات ایک ہی طرح دکھائی دیں گے۔کہیں بھی علاج کا مکمل بندو بست نہیں نظر آئے گا۔کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ دیہی عوام اس ملک کے باشندے ہی نہیں ہیں کیونکہ حکومتیں جتنے بھی منصوبوں کی خاکہ سازی کرتی ہیں ان کا تعلق دیہات کے بجائے شہروں سے ہوتا ہے، خاص طور پر علاج و معالجے کا شعبہ پوری طرح سے شہروں پر ہی منحصر ہے۔دیہاتوں میں جو سی ایچ سی اور پی ایچ سی ہیں ان کی حالت بہت خراب ہے۔جن گاوؤں میں اس طرح کے صحت مراکز قائم ہیں، ان میں بھی کووڈ 19کے تعلق سے کوئی بیداری نہیں ہے۔وہاں تعینات ڈاکٹر کبھی چل کر گاؤں میں یہ بتانے نہیں جاتے کہ ان حالات میں آپ لوگوں کو کیا کرنا ہے۔سی ایم او اور سی ایم ایس پر ضلع کی صحت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن ان دونوں ذمہ دار افسران کے پاس بتانے کے لئے کیا ہے کہ انہوں نے دیہی عوام کے لئے کچھ کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہر ذمہ دار اور عہدیدار شخص دیہی باشندوں کی جانب سے اغماص برتے ہوئے ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے بھی ہے کہ وہ لائم لائٹ میں نہیں رہتے ہیں،ان کے امراض اور علاج و معالجہ کو اخبارات اور ٹی وی میں وہ جگہ نہیں ملتی ہے جو شہروں کے مریضوں اور وہاں قائم اسپتالوں کو مل جاتی ہے۔
اتر پردیش ایک بڑی ریاست ہے ،جس کا نظام بھی بہت وسیع ہے ۔وزیر اعلیٰ کے ساتھ ہی دیگر ذمہ داران اور عہدیداران مستقل اس طرح کے بیانات دیتے ہیں کہ وہ تیسری لہر کو روکیں گے لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے دوسری لہر کو روک لیاہے ؟یوپی حکومت نے دیہی عوام کے لئے زمینی سطح پر اب تک کیا کیا ہے؟ مرکزی حکومت نے ریاستوں کو ذمہ داری دی تھی کہ آنگن باڑی کارکن اور اے این ایم کو اس مہم میں لگایا جائے اور دیہی علاقوں میں اولا وہ بیداری پیدا کریں لیکن زمینی سطح پر یہ کام بھی ابھی تک نہیں شروع ہوا ہے۔بڑے شہروں سے مستقل مزدوری پیشہ افراد کی واپسی جاری ہے مگر ان کی تلاش اور ان کو الگ رکھنے کا کوئی نظام نہیں ہے۔ ایسے میں بھلا دوسری لہر کیسے رک سکتی ہے۔ حکومتوں کو کاغذی سطح کے بجائے زمینی سطح پر کام کرنا ہوگا اگر وہ ایسا نہیں کرتی ہیں تو دیہی باشندے صرف کووڈ 19ہی نہیں دوسری بیماریوں کی زد میں آکر ہلاک ہو جائیں گے۔اولا ان میں بیداری پیدا کی جائے ۔دوم ان کیلئے دیہات میں ہی علاج کا بندو بست کیا جائے ۔سوم اگر نہایت ضروری ہو تو ان کو وقت رہتے ہوئے ضلع اسپتال پہنچایا جائے،جس کے لئے ٹرانسپورٹیشن کا نیا نظام تیار کرنا ہوگا ۔اس کام کے لئے ایم این ایم اور آنگن باڑی کارکن سے لے کر سی ایم او اور سی ایم ایس تک کو سرگرم ہونا گا ۔ان میں میں سے کسی نے بھی اگر لا پروائی کی تو اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ہائی کورٹ موجودہ نظام پر ’رام بھروسے‘ کا تبصرہ کر چکا ہے ،جس سے اس کی سنگینی اور حکومت کی لاپروائی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
کووڈ 19کے دور میں جہاں ہر شخص پریشان ہے ،دو وقت کی روٹی کا بندو بست مشکل ہو گیا ہے،اور مستقل لاک ڈاؤن بھی بڑھتا ہی جا رہا ہے ایسے میں حکومت زراعت کو مزید مہنگا کرتی جا رہی ہے،جس سے کسانوں کی کمر ٹوٹتی جا رہی ہے۔ڈیزل اور کھاد دونوں ایسی چیزیں ہیں جن پر زراعت کا انحصار ہے۔ دھان کی روپائی میں ان دونوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیونکہ دھان پانی کی کھیتی ہے اور پمپ سیٹ بغیر ڈیزل کے نہیں چل سکتے ہیں۔اس وقت ڈیزل 90روپے سے اوپر پہنچ چکا ہے۔موجودہ حکمراں پارٹی نے جس مسئلے کو 2014میں الیکشن میں ایک اہم مسئلہ بنایا تھا ،آج وہی مسئلہ اس کے سامنے کھڑا ہو گیا ہے۔آخر اس نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پرائیویٹ ہاتھوں میں کیوں دے دی ہیں؟جو ملک کے عوام بشمول کسان کا خون چوس رہے ہیں۔پٹرولیم مصنوعات میں ڈیزل ایک ایسی شے ہے جس کا تعلق براہ راست عام آدمی اور خصوصا کسانوں سے ہے ۔حکومت کو تو یہ کرنا چاہئے تھا کہ ڈیزل اور کھاد کی قیمتیں کم سے کم کرد یتی تاکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے شہری علاقوں میں کاروباری سطح پر جو نقصان ہو رہا ہے ،اس کی بھر پائی دیہی علاقوں میں پیداوار سے کر لی جائے مگر اس نے ایسا کرنے کے بجائے کھیتی باڑی کو بھی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔جو ڈی اے پی کھاد گزشتہ برس 1200روپے میں کسانوں کو مل رہا تھا وہی اب ان کو 1900روپے میں ملے گی۔کھیتی کے لئے یہ دونوں لازمی ہیں ۔حکومت خود سوچے کہ کسان 90روپے لیٹر ڈیزل اور 1900میں ڈے اے پی کی ایک بوری خرید کر کھیت میں کیسے ڈالے گا؟ اس کے پاس یہ رقم کہاں سے آئے گی؟ایم ایس پی پر کتنے کسان اپنی پیداوار فروخت کر پاتے ہیں اس کے اعداد و شمار بھی حکومت کے پاس ہیں۔حکومت کو یہ بھی معلوم ہے کہ بڑے کسان ہی ایم ایس پی کا فائدہ اٹھا پاتے ہیں ایسے میں وہ کسان جس نے 1200روپے فی کنٹل دھان فروخت کیا ہو اور اس وقت 1600 سے لے کر 1750روپے تک جو گندم فروخت کرنے پر مجبور ہو وہ بھلا ان بڑھی ہوئی قیمتوں کو کیسے برداشت کر پائے گا؟ایسے میں وہ خریف کی بوائی کیسے کرے گا؟
ایسا نہیں ہے کہ حکومت کو اس کا علم نہیں ہے ،اس کو سب کچھ معلوم ہے لیکن عملی سطح پر اس کی ترجیحات میں غریب اور کسان نہیں ہیں۔اگر غریب اور کسان اس کی ترجیحات میں ہوتے تو ڈیزل اور کھاد کی قیمتوں میں اس طرح کا اضافہ ممکن ہی نہیں تھا۔مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتوں کو دیہی علاقوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔اولا ان کو ان وبائی ایام میںبہتر علاج و معالجہ ملے جس کے لئے زمینی سطح پر کام کیا جائے۔ دوم زراعت کو تباہی سے بچاکر بڑھی ہوئی قیمتوں کو واپس لیا جائے، اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو شہری کاروبار کے ساتھ ہی دیہات میں پیداوار بھی متاثر ہو گی جس کا نقصان صرف دیہی عوام کو ہی نہیں ہوگا اس کا براہ راست اثر ملک کی جی ڈی پی پر بھی پڑے گا۔جس سے ملک کاہی خسارہ ہوگا۔
[email protected]