ریتیکا کھیڑا
ہندوستان میں جمہوریت بحث کا پرانا ایشو ہے۔ عام طور پر جب اس پر بحث ہوتی ہے تو اظہاررائے کی آزادی پر بحث سمٹ جاتی ہے۔ لیکن وبا نے ہمارے سسٹم کی ایسی کمزوریاں اجاگر کی ہیں جنہیں سدھارنے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ سال جب کورونا سے ملک میں دہشت تھی، تب حکومت نے بغیر سوچے سمجھے ملک گیر سخت لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔ نتیجتاً ہیومنٹیرین ڈیزاسٹر، ہیلتھ ڈیزاسٹر سے سنگین ہوگیا۔ لاکھوں مزدور لاچار ہوگئے۔ کام نہیں تو روز کماکر کھانے والے لوگ خرچ، کرایہ وغیرہ کہاں سے لاتے۔ لیکن میڈیا نے لاکھوں مزدوروں کی حالت اجاگر کی، جس سے ڈیمانڈ پیدا ہوئی کہ مرکزی حکومت راحتی قدم اٹھائے۔
گزشتہ سال حکومت نے ملک میں مزدور طبقہ کے لیے دو طرح کے قدم اٹھائے۔ ایک پبلک ڈسٹریبیوشن سسٹم سے ملک کی 80 کروڑ آبادی، جو راشن کارڈ ہولڈر ہیں، انہیں 6ماہ تک دوگنا راشن دینے کا اعلان کیا۔ نقد کی ضرورت کے لیے نریگا کے بجٹ میں اضافہ کیا۔ کچھ لوگوں کو( ان خواتین کو جن کے جن دھن یوجنا کے اکاؤنٹ ہیں) 1500روپے نقد دیے۔ باوجود اس کے کہ 80کروڑ(66%) آبادی کے پاس راشن کارڈ ہے، پھر بھی پورے ملک سے بھوک اور لاچاری کی رپورٹیں آرہی تھیں۔ جب فوڈ سکیورٹی قانون پر بحث ہورہی تھی، تب ایک طبقہ تھا جس کا ماننا تھا کہ پبلک ڈسٹریبیوشن سسٹم کو یونیورسل ہونا چاہیے، لیکن تب یوپی اے-2کی حکومت نہیں مانی۔ صرف دوتہائی کو راشن کارڈ کا حق حاصل ہوا۔ اگر حقیقت میں ملک میں مضبوط جمہوریت ہوتی تو گزشتہ سال لوگوں کی خراب حالت دیکھ کر پرانی غلطی کی اصلاح کی جاتی۔ کم سے کم ملک کے دیہی علاقوں میں اور شہر کی جھگیوں میں پبلک ڈسٹریبیوشن پالیسی یونیورسل ہو۔
گزشتہ سال کے معاشی دھکے سے ابھی تک لوگ ابھرے نہیں تھے کہ ایک اور لاک ڈاؤن جھیلنا پڑرہا ہے۔ بیشک اس سال مرکزی حکومت کو ہیلتھ ایمرجنسی سنبھالنے میں زیادہ طاقت لگانی پڑرہی ہے، لیکن الگ الگ وزارتیں بنی ہی اس لیے ہیں کہ جہاں وزارت صحت وبا پر دھیان دے، وہیں دیہی ترقی اور فوڈ منسٹری لوگوں کی بنیادی ضرورتوں پر کام کرسکے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سب کچھ کچھ ہی ہاتھوں میں مرکوز ہونے سے حکومت کے کام کرنے کے انداز پر فرق پڑرہا ہے۔
گزشتہ سال کئی ریاستوں میں شہری مزدوروں کے لیے ریاستی حکومت کی طرف سے کینٹین چلائی گئیں۔ ان میں پکے ہوئے کھانے کے پیکٹ لوگ لے سکتے تھے۔ یا تو یہ مفت تھے یا پھر سستی قیمت پر دستیاب تھے۔ یہ بھی ضروری سبق تھا کہ شہری غریبوں کو یا تو خشک راشن کی کٹ دیں یا کھانے کے پیکٹ۔ اس سال کچھ ہی ریاستوں میں یہ سہولت پھر سے چل رہی ہے۔ اس سال لوگوں کی روزی روٹی کے نظریہ سے حالت بہت مختلف نہیں ہے کیوں کہ زیادہ تر ریاستوں میں مکمل لاک ڈاؤن ہے۔ مرکزی حکومت کا ابھی تک رُخ یہ رہا ہے کہ اگر ریاستی حکومتیں کورونا سے لڑنے کے لیے لاک ڈاؤن کرتی ہیں تو اس میں مرکزی حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں۔
حالاں کہ مرکز کے فوڈ کارپوریشن کے پاس آج اتنا ہی اناج ہے جتنا گزشتہ سال تھا۔ حکومت کے حساب سے یہ تقریباً تین گنا۔ پھر بھی اب تک حکومت نے صرف دو ماہ کے لیے اور وہ بھی صرف راشن کارڈ ہولڈروں کے لیے دوگنا اناج دینے کا اعلان کیا ہے۔ بغیر راشن کارڈ والے شہری مزدوروں کے لیے کوئی بھی راحت کا اعلان نہیں کیا گیا۔ بات صرف حال میں چل رہے لاک ڈاؤن کی نہیں۔ گزشتہ 12ماہ میں ملک میں کئی سروے ہوئے ہیں جن میں ایک بات بار بار آرہی ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ نوکری والوں کی آمدنی کم ہوئی ہے۔ یعنی گزشتہ سال کے معاشی دھکے سے ابھی تک لوگ ابھرے نہیں تھے کہ ایک اور لاک ڈاؤن جھیلنا پڑرہا ہے۔ بیشک اس سال مرکزی حکومت کو ہیلتھ ایمرجنسی سنبھالنے میں زیادہ طاقت لگانی پڑرہی ہے، لیکن الگ الگ وزارتیں بنی ہی اس لیے ہیں کہ جہاں وزارت صحت وبا پر دھیان دے، وہیں دیہی ترقی اور فوڈمنسٹری لوگوں کی بنیادی ضرورتوں پر کام کرسکے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سب کچھ کچھ ہی ہاتھوں میں مرکوز ہونے سے حکومت کے کام کرنے کے انداز پر فرق پڑرہا ہے۔
کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ لیکن جب تک ’سینٹرل وسٹا‘ کا تعمیراتی کام چلتا رہے گا، تب تک لوگوں کے لیے یہ ماننا مشکل ہوگا کہ حکومت کے پاس ان بنیادی ضرورتوں کے لیے پیسوں کی کمی ہے۔
(مضمون نگار ماہرمعاشیات ہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)