مولانا ندیم الواجدی
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے رمضان المبارک کے روزے بہ خیر وخوبی پورے ہورہے ہیں، ایک مسلمان کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اورکیا ہوسکتی ہے کہ وہ خدا کی بخشی ہوئی طاقت اور صحت سے رمضان کے روزے پورے کرسکا، اور اس ماہ کی جو دوسری عبادتیں تھیں ان کی ادائیگی سے بھی فارغ ہوا، مسرت کے ان لمحات کا تقاضا یہ ہے کہ سب سے پہلے خدا کے حضور سجدۂ شکر ادا کیا جائے، عید الفطر کی یہ دو گانہ نماز دراصل اسی جذبۂ تشکر کا اظہار ہے، رمضان میں ہم نے جو عبادتیں کی ہیں اور ہم ان عبادتوں کی بجا آوری پر جو سجدۂ شکر ادا کررہے ہیں وہ سب بار گاہ خداوندی میں قبولیت سے سرفراز ہوں اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ کی رضا جوئی کے لیے کچھ اور نیک کام بھی کریں تاکہ وہ خوش ہوکر ہماری رمضان کی محنت بھی قبول فرمالے اور ہماری یہ دو گانہ نماز بھی جو ہم عید کے دن ادا کرنے والے ہیں۔ اللہ کی رضا کا سب سے بہترین ذریعہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ہے۔ ہم عید الفطر منانے والے ہیں، یہ خوشی کا دن ہے، لیکن ہمیں اپنی خوشی میں اس طرح مست نہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنے غریب رشتہ داروں اور غریب پڑوسیوں کو بھول جائیں، ہمیں چاہئے کہ ہم انہیں بھی اپنی خوشیوں میں شریک کریں، اور ان کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ ان کی مالی مدد کی جائے تاکہ وہ بھی اپنے لیے اور اپنے اہل وعیال کے لیے اچھے لباس اور اچھے کھانے کا نظم کرسکیں، صدقۃ الفطر صاحب حیثیت مسلمانوں پر اسی لیے واجب قرار دیا گیا ہے تاکہ غرباء بھی عید کی حقیقی خوشی سے محروم نہ رہیں۔ حدیث شریف میں صدقۃ الفطر کے مقصد ، مصلحت اور حکمت پر اس طرح روشنی ڈالی گئی ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ الفطر اس لیے واجب فرمایا ہے تاکہ اس سے روزوں میں ہونے والی لغویات اور گناہوں کا کفارہ ہوجائے اور وہ مساکین کے رزق کا ذریعہ بھی بن جائے( ابوداؤد:۱/۵۰۵، رقم الحدیث:۱۶۰۹)۔بہ ہر حال صدقۃ الفطر رمضان کی کوتاہیوں اورغلطیوں کا کفارہ بھی ہے اور غرباء ومساکین کے تعاون کا ذریعہ بھی، اس لیے جن لوگوں پر صدقۃ الفطر واجب ہو ان کو چاہئے کہ وہ احساس ذمہ داری کے ساتھ بر وقت یہ واجب ادا کریں۔
صدقۂ فطر ہر اس مسلمان مرد وعورت پر واجب ہے جو عید الفطر کے دن ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا ان کے بہ قدر زیور، نقد یا بنیادی ضروریات یعنی رہائشی مکان، استعمال کے کپڑے اور برتن وغیرہ سے زیادہ سامان کے مالک ہوں، مثلاً قیمتی کپڑے ، برتن فرنیچر وغیرہ ، جن کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی (چھ سو بارہ گرام چاندی) کے برابر ہوجاتی ہو، یا دکان میں اتنی ہی قیمت کا سامان ہو، بنیادی ضروریات سے زیادہ کی تشریح یہ کی جاتی ہے کہ جس کے پاس رہائشی مکان، سامان خورد ونوش اور استعمالی کپڑوں کے علاوہ کرائے کے مکانات، زمین غیر ضروری کپڑے سال بھر سے زائد ضرورت کی اجناس اتنی مقدار میں ہوں کہ ان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہوجائے، اس مال پر سال کا گزرنا شرط نہیں، نہ مال کا تجارتی ہونا شرط ہے(علم الفقہ،ص:۵۱۶)۔ زکوۃ اور صدقۃ الفطر کے فرق کو سمجھ لینا چاہئے، زکوۃ سونا، چاندی، روپے، مال تجارت پر واجب ہوتی ہے بہ شرط یہ کہ سال گزر جائے، جب کہ صدقۂ فطر کے وجوب کے لیے یہ ضروری نہیں ہے بلکہ اگر کسی کے پاس حوائج اصلیہ سے زائد سامان بہ قدر نصابِ زکوۃ عید کے روز موجود ہو تو اس پر صدقۂ فطر واجب ہوگا(فتاوی شامی: ۳/۲۸۲)۔
جس شخص پر صدقۂ فطر واجب ہے اس کو اپنی طرف سے ادا کرنا چاہئے، اپنی نابالغ اولاد اور خادم ونوکر کی طرف سے بھی ادا کرنا چاہئے، بالغ اولاد اگر تنگ دست اور محتاج ہوں تو ان کی طرف سے بھی ادا کرنا چاہئے، مگر یہ لازمی نہیں ہے ادا کردے تو بہتر ہے ، البتہ اگر وہ مال دار ہیں تب خود ادا کریں، نابالغ اولاد اگر مال دار ہو تو اس کے مال میں سے ادا کیا جائے گا، لیکن اگر باپ نے نابالغ مال دار اولاد کی طرف سے ادا کردیا تو ادا ہوجائے گا، بیوی اگر مال دار ہے تو وہ اپنا صدقۂ فطر خود ادا کرے تاہم اگر اس کی طرف سے شوہر نے ادا کردیا تو ہوجائے گا، اگرکسی نے کسی عذر (سفر بیماری یا بڑھاپے)کی وجہ سے یا بلا عذر روزے نہیں رکھے تب بھی صدقۂ فطر واجب ہے اولاد کے ذمے والدین کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا ضروری نہیں ہے، اگرچہ وہ اولاد کی کفالت ہی میں کیوں نہ ہوں، ہاں اگر اولاد ان کی طرف سے ادا کردے تو ادا ہوجائے گا، یتیم پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا نانا دادا پر واجب نہیں ہے، لیکن ادا کردے تو زیادہ بہتر ہے ، اگر بچے بالغ ہیں مگر کم عقل یا دیوانے ہیں تو ان کی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے( بدائع الصنائع: ۲/۲۰۲ فتاوی شامی: ۳/۲۸۲)۔ جو شخص عید الفطر کی صبح صادق کے وقت موجود ہے اس پر صدقۂ فطر واجب ہے، اب اگر کوئی بچہ صبح صادق سے پہلے پہلے پیدا ہوا تو اس کی طرف سے ادا کرنا ضروری ہے، لیکن اگر وہ فجر کے بعد ہوا تو اس کی طرف سے ادا کرنا ضروری نہیں ہے اسی طرح اگر کوئی شخص صبح صادق سے پہلے پہلے مر جائے یا فقیر ہوجائے تو اس کی طرف سے صدقۂ فطر ادا نہیں کیا جائے گا، اسی طرح اگر کوئی کافر عید کی رات میں مسلمان ہوگیا اس پر صدقۂ فطر واجب ہے، لیکن عید کی صبح میں مسلمان ہوا تو اس پر واجب نہیں ہے( فتاوی عالمگیری: ۱/۱۹۲)۔
صدقۂ فطر عید کی نماز سے پہلے دینا بہتر ہے، تاکہ جن غریب بھائیوں کو فطرے کی رقم یا سامان وغیرہ دیا جارہا ہے وہ بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہوجائیں بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ رمضان ہی میں ادا کردیا جائے تاکہ غریب بھائی اپنی ضرورتیں پوری کرسکیں، اگر رمضان المبارک میں ادا نہ کیا جاسکے تو عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے پہلے ادا کردینا چاہئے، اس لیے کہ حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا تھا کہ صدقۂ فطر نماز کے لیے جانے سے پہلے ادا کردیا جائے( بخاری : ۲/۵۴۷، رقم الحدیث: ۱۴۳۲، مسلم: ۲/۶۷۹ رقم الحدیث:۹۸۶)۔ البتہ اگر کسی نے عید سے پہلے یا عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے ادا نہیں کیا تو اس کے ذمے سے ساقط نہیں ہوگا، بلکہ عید کے بعد ادا کرے تاہم اس صورت میں اجر کم ہوگا ،رمضان سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنے میں اختلاف ہے احناف کے دونوں طرح کے قول منقول ہیں، اور راجح قول یہ ہے کہ صدقۂ فطر رمضان المبارک سے پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے اور صاحب نصاب ہونے سے پہلے بھی دے سکتا ہے( فتاوی عالمگیری: ۱/۱۹۲)۔ صدقۃ الفطر میں گیہوں، آٹا، ستو نصف صاع مقرر ہے، جو ، چھوہارے ، منقّٰی ایک صاع ہے اگر کوئی چاول ، چنا، باجرہ ، مکئی، مٹر، مسور، ارہر اور دوسرے غلے دینا چاہے تو وہ نصف صاع کے حساب سے دے سکتا ہے، غلہ نہ دینا چاہے تو نقد رقم بھی دے سکتا ہے، اس صورت میں نصف صاع گیہوں کی رقم بازار کے بھاؤ کے اعتبار سے ادا کردی جائے ، کنٹرول ریٹ کا اعتبار نہیں ہے، نصف صاع موجودہ وزن کے اعتبار سے ایک کلو پانچ سو چوہتر گرام چھ سو چالیس ملی گرام ہے (۶۴۰ئ۱۵۷۴) ( الاوزان المحمودہ، ص:۱۰۵، فتاوی رحیمیہ : ۳/۱۱۳)۔صدقۂ فطر کے مستحقین بھی وہی ہیں جو زکوۃ اورعشرکے ہیں، ان کے سوا کسی اور کو صدقۂ فطر دینا جائز نہیں ہے، البتہ زکوۃ کی وصول یابی پر متعین شخص کو صدقۂ فطر نہیں دیا جاسکتا، کئی افراد کا صدقۂ فطر ایک محتاج کو بھی دیا جاسکتا ہے، مگر کسی ایک شخص کو اتنی رقم دینا پسندیدہ نہیں ہے کہ وہ صاحب نصاب ہوجائے( علم الفقہ: ۵۱۹)۔rlm