مفتی عبدالمنعم فاروقی قاسمی
شب قدر ا للہ تعالی کی طرف سے اس امت کو عطا کردہ ایک قیمتی تحفہ ہے۔یہ بڑی برکتوں ،عظمتوں اوررحمتوں والی رات ہے۔قدر کے معنیٰ عظمت وشرافت کے ہیں چونکہ اس رات میں بندے کثرتِ عبادت ،توبہ واستغفار ،دعا والتجا اور تعلق مع اللہ کے ذریعہ اپنے مولیٰ کے نزدیک عظمت وشرافت اور قدر ومنزلت کا مقام حاصل کر لیتے ہیں اس لئے اس رات کو قدر کہا جاتا ہے۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایاکہ’’اللہ تعالیٰ نے شب قدر میری امت ہی کو عطا فرمائی پچھلی کسی امت کو نہیں دی گئی‘‘(کنز العمال :8؍536)۔آپ ؐنے شب قدر کی قدر کرنے والوں کو خوشخبری سنائی ہے کہ’’ جو شخص شب قدر میں ایمان اور ثواب کی امید کے ساتھ عبادت کیلئے کھڑا ہو گا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئے جائیں گے‘‘(بخاری 2؍ 672) ۔اس حدیث میں ہم جیسے گنہگاروں کیلئے عظیم الشان خوشخبری ہے۔ گرچہ اس میں گناہ سے صغیرہ گناہ مراد ہیں لیکن اگر ہم اس را ت با رگاہِ رب العالمین میں سچی توبہ کر یں تو کیا بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے صغیرہ اور کبیرہ سب گناہ معاف فرمادیںکیونکہ قرآن کریم میں کبیرہ گناہ کیلئے ’’توبہ‘‘کی شرط لگائی گئی ہے یعنی گناہ کبیرہ کا مرتکب اگر سچی تو بہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے کبیرہ گناہ بھی معاف فرما دیتے ہیں ۔
ہم میں سے بہت سے لوگ نیکیوں کی قدر وقیمت جان کر بھی شب قدر کو کھیل کود ،کھانے پینے ،لایعنی گفتگو کرنے اور بازاروں میں گھومتے ہوئے لاپرواہی کے ساتھ گزار کر لا قیمت سکۂ آخرت (نیکیوں ) سے محروم ہو جاتے ہیں۔یہ وہ سکے ہیں جن کی قدر وقیمت کا اندازہ آنکھوں کے بند ہونے کے بعد ہوگا۔قیامت میں یہی سکے کار آمد ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے شب قدر کو مخفی رکھا ہے ،اگر چہ اس رات کے مخفی رکھے جانے میں بھی امت ہی کا فائدہ مقصود ہے کہ اسے تلاش کرنے کے بہانے وہ زیادہ سے زیادہ عبادت کر کے اپنے لئے نیکیوں کا ذخیرہ کر سکتے ہیں ،مگر اس رات کو اس قدر مخفی بھی نہیںرکھا کہ تلاش بے حد مشکل ہوجائے بلکہ اسے رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں رکھا کہ اگر کوئی اسے پانا چاہے تو بآسانی حاصل کر سکے۔رسول اللہ ؐ نے عشرۂ اخیرہ کی طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرنے کا حکم دیا ہے اورخود رسول اللہ ؐ آخری عشرہ میں تلاش شب قدر کا اہتمام فرمایا کرتے تھے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ’’ جب رمضان کا اخیر عشرہ شروع ہوتا تو رسول اللہ ؐ ( شب قدر کی تلاش اور عبادتوں میں مزید زیادتی کیلئے پوری طرح ) کمر کس لیتے تھے اور اپنے افراد خانہ (ازواج مطہرات ودیگر متعلقین ) کو بھی اس جانب توجہ دلاتے تھے( تاکہ انہیں بھی شب قدر اور اس کی برکتیں حاصل ہوجائے )‘‘( بخاری)۔ ایک روایت میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے آپؐ کے عشرۂ اخیرہ کے معمولات کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے ’’آپ ؐ رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت وغیرہ میں وہ مشقت فرماتے جو دوسرے دنوں میں نہیں فرماتے تھے ‘‘( مسلم 1175)۔
قرآن مجید نے لڑائی جھگڑا کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا ہے۔ایک حدیث میں شب قدر کی تعین اُٹھا لئے جانے کا سبب مسلمانوں کا آپسی جھگڑ ا بتایا گیا ہے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کا آپسی جھگڑا و اختلاف کس قدر نقصان دہ ہے کہ بسااوقات یہ جھگڑے بڑی بڑی نعمتوں سے محرومی کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ ایک روایت میں جھگڑا فساد برپاکرنے کو سحر (جادو ) کا حصہ اور آپس میں صلح صفائی کو نبوت کا حصہ قرار دیا ہے اور حضرت ابوذر غفاری ؓ کی روایت میں دومسلمانوں کے درمیان صلح کر ادینے کو صدقہ کہا گیا ہے ۔ایک دوسری روایت میں اسے روزہ اور صدقہ سے بھی افضل بتایا گیا ہے۔ مذکورہ ا حادیث سامنے رکھ کر ہم مسلمانوں کو آپسی اختلافات جو بڑی بڑی نعمتوں اور خدا کی نظر عنایت سے محرومی کا سبب ہیں سے بچنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور معمولی اختلافات کو ہوا دے کر شعلہ بنانے اور دلوں میں نفرتوں کے بینج بونے کے بجائے اسے دور کرنے کی فکر کرنی چاہیے اور آپس میں شیر وشکر بن کر جسد واحد کی طرح رہنا چاہیے بلاشبہ اللہ کی رحمت وبرکت اور مدد ونصرت متحد افراد اور منظم جماعت پر ہوا کرتی ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ پورے انہماک ، توجہ اور بشاشت کے ساتھ جو بقیہ طاق راتیں رہ گئیں ہیں ان میں تن من سے خوب عبادت کریں اور اس کے ذریعہ شب قدر پانے کی کوشش کریں ۔ کیا بعید کہ اللہ ان میں سے کسی ایک رات کو شب قدر بنادے یا جذبہ ٔ صادق کی بدولت اس میں کی جانے والی عبادت کو شب قدر کی عبادت میں تبدیل کردے۔بڑا خوش نصیب ہے وہ شخص جسے شب قدر نصیب ہوجائے ۔یقینااگر کسی کوزندگی میں شب قدر کی دس راتیں مل جائیں تو گویا اسے آٹھ سو تیس سال عبادت کا ثواب مل جائے گا اور جو پندرہ سال کی عمر سے لے کرساٹھ سال کی عمر تک برابر ہر رمضان اس رات کے حصول کے لئے عبادت کا اہتمام کرتا ہے تو یقینا اسے تین ہزار سات سو پینتیس سال سے زائد عبادت کا ثواب حاصل ہوجائے گا۔ یہ وعدہ اُس شہنشاہ کا ہے جس کی حکومت زمین وآسمان ،چاند وسورج ،خشکی وتری اور شجر وحجر سب پر ہے’’اوراللہ ہی کے لئے ہے جوکچھ آسمانوں میں ہے اورجوکچھ زمین میں ہے۔اور بالآخرسارے معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹادیے جائیں گے‘‘(ال عمران109)۔لوگ دنیا کے فانی خزانوں کے مالک اور کمزور قوتوں کے حامل بادشاہوں کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں لیکن خداوند عالم تو ساری کا ئنات کا بادشاہ اور اس کے لا محدود خزانوں کا مالک ہے، وہ ہر گز وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ ہمیںاس کے وعدوں پر ایمان وایقان رکھتے ہوئے ثواب کی امید کے ساتھ تلاش شب قدر کیلئے کمر بستہ ہوجانا چاہیے۔ کیا بعیدہے کہ رب رحمن ورحیم ہماری معمولی عبادتوں کو غیر معمولی بنادے اور اپنے لا محدود خزانوں سے ہمیں بے حساب نیکیاں عطا فرمادے۔یقینا جس نے شب قدر کی قدر کی اسے خیر کثیر حاصل ہوا اور جس نے اس نعمت عظمی کی ناقدری کی وہ بڑی نعمت سے محروم رہ گیا ۔
شب قدر میں نوافل ،تلاوت قرآن ،ذکر واذکار ،تسبیح کے علاوہ دعائیں مانگنے کا خاص اہتمام کرنا چا ہیے۔ کیا بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ٹوٹی پھوٹی عبادتوں کو اپنے فضل سے قبول فرماکر ایک ہزار سے زائد مہینوں کا ثواب عنایت فرمادیں اور عاجزانہ دعاؤں کو شرف قبولیت عطا کردے۔دنیا میں لوگ معمولی چیز وں کو حاصل کرنے کیلئے غیر معمولی کو ششیں ، محنت اور لگن کا مظاہرہ کرتے ہیں ، آدمی چند رو پیوں کی خاطر موسمِ گرما کی سختیوں کا مقابلہ کرتا ہے ، سردی کی مشقتوں کو جھیلتا ہے ،رات بھر جاگ کر میٹھی نیند کی قربانی دیتا ہے مگر افسوس کہ ہم میں سے بہت سے لوگ نیکیوں کی قدر وقیمت جان کر بھی شب قدر کو کھیل کود ،کھانے پینے ،لایعنی گفتگو کرنے اور بازاروں میں گھومتے ہوئے لاپرواہی کے ساتھ گزار کر لا قیمت سکۂ آخرت (نیکیوں ) سے محروم ہو جاتے ہیں۔یہ وہ سکے ہیں جن کی قدر وقیمت کا اندازہ آنکھوں کے بند ہونے کے بعد ہوگا۔قیامت میں یہی سکے کار آمد ہوں گے وہاں نہ تو دنیا کا م آئے گی اور نہ ہی دنیا کے سکے کام آئیں گے بلکہ وہاں صرف نیکیاں ہی کام آئیں گی۔اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو شب قدر اور اس کی برکتوں اور رحمتوں سے مالا مال فرمائے ۔nnn