محمد فاروق اعظمی
تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہے ہندوستان میں کورونا وائرس کی دوسری لہر نے زوال پذیر معاشی سرگر میوں کو ایک بار پھر اپنا شکار بنانا شروع کردیا ہے۔مختلف شکلوں میں اس کا راست اثر عام لوگوں کی زندگی اور روزگار پر پڑرہا ہے۔ 2020کی طرح ہی اس سال بھی ہندوستان کی بھاری اکثریت کے سامنے روزی روٹی کا بحران پیدا ہونے لگا ہے۔ ہر چند کہ مرکزی حکومت نے اس دوسری لہر سے نمٹنے کیلئے ملک میں مکمل لاک ڈائون کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن ملک کی مختلف ریاستوں میں لاک ڈائون اور کورونا پابندیوں کی سختی کی وجہ سے زندگی میں ٹھہرائو سا آگیا ہے۔اس صورتحال کا اثر روزگار، ملازمت اور نوکریوں پر بھی پڑنے لگا۔ اپریل 2021میں ملک میں بے روزگاری کی شرح چار مہینوں کی بلند سطح پر پہنچ گئی ہے، وہیں نئے روزگار ملنے کی شرح میں بھی 15فیصد کی گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔ ’نوکری جاب انڈیکس ‘ کے مطابق اس جزوی لاک ڈائون اور کاروبار کا وقت محدود و کم کیے جانے کی وجہ سے اپریل2021میں خوردہ اور پارچون کے شعبہ میں 33فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ ہاسپیٹیلٹی کے شعبہ میں یہ گراوٹ36ہے تو بینکنگ اور مالیات کے شعبہ میں 26فیصد اور درس و تدریس یعنی ٹیچنگ انڈسٹری میں 24فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔فارماسیوٹیکل، بایو ٹیک اور میڈیکل و صحت کے شعبہ میں روزگار میں10فیصد کمی آئی ہے۔ اسی طرح ٹیلی مواصلات اور صارفین کے استعمال کی عمومی اشیا یعنی فاسٹ موونگ کنزیومرگڈس( ایف ایم سی جی) کے شعبہ میں بھی 15فیصد گراوٹ آئی ہے۔تاہم صورتحال ابھی گزشتہ سال کی طرح خراب نہیں ہوئی ہے۔سال اپریل2020میں پورے ملک میں مکمل لاک ڈائون تھا لیکن اس سال 2021میں ابھی منتخب ریاستوں میں لاک ڈائون اور جزوی لاک ڈائون ہے جس کی وجہ سے بے روزگاری کا عفریت پھر اپنا منہ کھولنے لگا ہے۔ پورا ملک اوپین اکنامی یعنی کھلے بازار کی طرح ہے اور ہر ریاست اور ہرشہرایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن اس لاک ڈائون کی وجہ سے یہ جڑائوتھم گیا ہے، ایک مقام کی دوسرے مقام سے کنیکٹیویٹی تھم گئی ہے اسی وجہ سے حالات ابھی گزشتہ سال کی طرح بہت زیادہ بگڑے نہیں ہیں۔ لیکن ملک میں جس طرح روزانہ 4لاکھ نئے معاملات آرہے ہیں اور یومیہ4ہزار افراد کی ہلاکت ہو رہی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ حکومت صحت کے نظام کو بہتر بنانے کے بجائے اپنی بے عملی اور نااہلی چھپانے کیلئے پورے ملک میں مکمل لاک ڈائون کی تجویز جلد یا بدیر سامنے لائے گی۔ چند حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا جانے لگا ہے کہ انفیکشن کو قابو میں کرنے کا اب ایک ہی راستہ یعنی لاک ڈائون بچا ہے۔حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے بھی کچھ اسی طر ح کی بات کہی ہے اور حکومت کو پورے ملک میں لاک ڈائون پر غور کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔ اگر حالات ایسے ہی رہے اور انفیکشن قابو میں نہیں آیاتو عین ممکن ہے کہ ایک بار پھر سے مکمل لاک ڈائون لگادیاجائے۔
بہتر تو یہ ہے کہ حکومت اپنی کارکردگی بہتر کرے اور صحت کا نظام درست کرے۔کورونا اور بے روزگاری سے نمٹنے کیلئے ایسی پالیسی بنائے جس میں متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی مشاورت شامل ہو۔ تمام ریاستوں، صحت و علاج کے ماہرین، کاروبار اور تجارت کے ماہرین، معیشت کے ماہرین، سماج و معاشرہ کے ماہرین کو ساتھ لے کر ان حالات سے نمٹنے میں مدد لی جاسکتی ہے اور یہی وقت کا بھی تقاضا ہے۔ لاک ڈاؤن کے پردہ میں حکومت اب اپنی نااہلی نہیں چھپا سکتی ہے۔
فی الحال تمل ناڈو، کرناٹک، کیرالہ، راجستھان، بہار، دہلی، مہاراشٹر، پنجاب، اترپردیش مدھیہ پردیش، ہریانہ، اڈیشہ، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، گجرات، گوا، تلنگانہ، آندھرا پردیش، مغربی بنگال، آسام، پدوچیری، ناگالینڈ، میزورم، جموں و کشمیر، اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں مکمل لاک ڈائون، جزوی لاک ڈائون اور سخت پابندیوں کے درمیان معاشی سرگرمیوں پر منفی اثر پڑا ہے۔ کہیں یہ معاشی سرگرمیاں پوری طرح سے ٹھپ پڑچکی ہیں تو کہیں ان کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔پابندی اور معاشی سستی کی وجہ سے ہر کاروبار بدتر ین دور سے گزررہاہے۔معاشی سرگرمیاں بند ہونے کی وجہ سے ایک بار پھر اہم صنعتی اور بڑے شہروں سے مزدوروں کی نقل مکانی ہورہی ہے اور اس کا اثر ملک کے دیہی علاقوں پر بھی پڑنے لگاہے۔ایسی دگرگوں صورتحال میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ بحران مزدوروں اور محنت کش طبقہ پر کتنے تباہ کن اثرات مرتب کررہا ہے۔ غیرمنظم زمرہ میں کام کرنے والے مزدوروں کیلئے یہ بحران کہیں زیادہ سنگین ہے۔چھوٹے موٹے کام کرکے روزکمانے کھانے والے یومیہ مزدور، ٹھیلہ والے، چائے ناشتہ کی گمٹی چلانے والے اور چھوٹے چھوٹے ریستواں اور ہوٹلوں میں کام کرنے والے اورا یسے ہی دوسرے کاموں میں لگے ہوئے کروڑوں افراد اس بندی کی وجہ سے یک دم بے روزگار ہوگئے ہیں۔ملک کی 30لاکھ درمیانی اور چھوٹی صنعتوں میںکم و بیش15کروڑ افراد کام کرتے ہیں۔کروڑوں افراد سامان ڈھوکرا ور بوجھ اٹھاکر اپنی زندگی کی گاڑی گھسیٹتے ہیں۔ اس بندی اور جزوی لاک ڈائون نے ان سب کا روزگار چھین لیا ہے۔
گزشتہ سال ان ہی وقتوں میںصنعتوں کو ان کے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے مرکزی حکومت نے تاریخ کے سب سے بڑے معاشی پیکیج کا اعلان کیاتھا۔20لاکھ کروڑ روپے کے اس پیکیج کا کیا ہوا،اس کی کوئی تفصیل اب تک معلوم نہیں ہوسکی ہے لیکن صنعتوں کی حالت زار سب کے سامنے ہے۔خاص کر درمیانی اورچھوٹی صنعتوں کی حالت انتہائی بدتر اور افسوس ناک ہے۔ یہ صنعتیں قرض میں گلے تک ڈوبی ہوئی ہیں۔ خام مال کی قیمتیں آسمان چھونے لگی ہیں۔ طلب و رسد کا توازن بگڑ گیا ہے۔ طلب کم ہوجانے کی وجہ سے پیداوار متاثر ہورہی ہے۔ اب دوبارہ پابندی اور لاک ڈائون ان صنعتوں کو ختم کرنے کا سامان بن جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ صنعت وکاروبار سے وابستہ افراد، مزدورا ور درمیانہ طبقہ ملک گیر سطح پر مکمل لاک ڈائون لگانے کے حق میں نہیں ہے۔اس طبقہ کے سامنے گزشتہ سال لگائے گئے مکمل لاک ڈائون کا بھیانک تجربہ ہے جس کے یادآتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔2020 میں لاک ڈائون لگاتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے صنعت کاروں سے اپیل کی تھی کہ وہ مزدوروں کی اجرت نہ کاٹیں لیکن وزیراعظم کی اپیل بے معنی سی تھی۔ہوا اس کے برعکس لاک ڈائون لگنے کے ساتھ ہی آجروں نے نہ صرف مزدوروں کی اجر ت کاٹنی شروع کردی بلکہ ایک بھاری تعداد کو نوکری سے نکال باہر کردیا۔اس وقت نہ وزیراعظم سامنے آئے تھے اور نہ ان کی حکومت کا کوئی نمائندہ ہی ان مزدوروں کو بچانے اور ان کی مدد کیلئے سامنے آیاتھا۔اب اگرایک بار پھر مکمل لاک ڈائون لگادیاگیا تو اس کے بھیانک اثرات سے یہ طبقہ پوری طرح ٹوٹ جائے گا اور ایک بار پھر بھوکوں مرنے کی نوبت آجائے گی۔بہتر تویہ ہے کہ حکومت اپنی کارکردگی بہتر کرے اور صحت کا نظام درست کرے۔کورونا اور بے روزگاری سے نمٹنے کیلئے ایسی پالیسی بنائے جس میں متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی مشاورت شامل ہو۔ تمام ریاستوں، صحت و علاج کے ماہرین، کاروبار اور تجارت کے ماہرین، معیشت کے ماہرین، سماج و معاشرہ کے ماہرین کو ساتھ لے کر ان حالات سے نمٹنے میں مدد لی جاسکتی ہے اور یہی وقت کا بھی تقاضا ہے۔ لاک ڈائون کے پردہ میں حکومت اب اپنی نااہلی نہیں چھپاسکتی ہے۔
[email protected]