عباس دھالیوال
شاعر مظفر رزمی نے اپنے ایک تاریخی اور سِگنیچر شعر میں کیا خوب کہا تھا:
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
اگر ہم اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل ڈھائے جا رہے مظالم کی روشنی میں مذکورہ شعر کو دیکھیں تو یہ شعر فلسطینی اور اسرائیل تنازع کی پوری ترجمانی کر تا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان اکثر اوقات بیت المقدس کی وجہ سے جھگڑا ہوتا ہے جسے مسلمان اپنا پہلا قبلہ تسلیم کرتے ہیں جبکہ اسرائیلی اسے یروشلم کہتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ عیسائی بھی اس کے ساتھ کسی نہ کسی طرح خود کو وابستہ مانتے چلے آرہے ہیں۔ یہ تنازع مسلمانوں کے لیے سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ اسرائیلی 1948 سے مسلسل فلسطینیوں پر مظالم ڈھاتے چلے آ رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج تک بدستور جاری ہے۔ اس سال بھی جب سے رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوا ہے،بیت المقدس کی وجہ سے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے بیچ تنازع چھڑا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں اسرائیلی فوج کی جارحانہ کارروائیوں میں اب تک سیکڑوں فلسطینیوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اس تشدد میں لوگوں کے جاں بحق ہونے سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم فلسطینی علاقوں پر یہودیوں کے غاصبانہ قبضے کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ سلسلہ گزشتہ صدی کے اوائل سے ہی شروع ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس ضمن میں قابل ذکر ہے کہ انیسویں صدی تک فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی تقریباً 5 فیصد ہی تھی۔اس وقت فلسطین کا دارالحکومت بیت المقدس تھا۔
سرائیل اور فلسطین دونوں ہی بیت المقدس کے دعوے دار ہیں۔ منصوبے کے تحت کسی بھی اسرائیلی یا فلسطینی کو اس کے گھر سے بے دخل نہیں کیا جائے گا، لہٰذا 1967 کے بعد فلسطینی علاقوں میں قائم کی گئی یہودی بستیوں کو اقوام متحدہ غیر قانونی قرار دیتا ہے لیکن دوسری طرف امریکہ نے ان بستیوں کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے جبکہ فلسطینی حکام کا یہ شروع سے ہی مؤقف رہا ہے اور اس میں وہ حق بجانب بھی نظر آتے ہیں کہ اس منصوبے کے ذریعے اسرائیل کو خطے میں حاکمیت قائم کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔
یہ امر یہاں قابل ذکر ہے کہ بیت المقدس مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں تینوں کے لیے مقدس شہر مانا جاتا ہے۔ اس ضمن میں یہودیوں کا مؤقف ہے کہ فلسطین اور اس سے ملحقہ علاقے مذہبی حوالوں سے ان کے لیے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کی نشانیاں ان کے نزدیک مقدس کتاب میں بھی ملتی ہیں۔ مطالعے میں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اس علاقے میں عربوں اور یہاں آباد یہودیوں کے درمیان چپقلش کا آغاز دراصل 1917 میں ہوا تھا جبکہ اس وقت فلسطین خلافت عثمانیہ کا حصہ تھا جبکہ دوسری طرف اس دوران برطانوی حکام نے یہ اعلان کیا تھا کہ فلسطین یہودیوں کا مستقل ٹھکانہ ہو گا۔ اس کے بعد پہلی جنگ عظیم اور خلافت عثمانیہ کے اختتام کے بعد ’لیگ آف نیشنس‘ نے فلسطین کا کنٹرول برطانیہ کے حوالے کر دیا تھا۔ اگر بات مذکورہ ’لیگ آف نیشنس‘ کے قیام کی کریں تو یہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جنوری 1920 میں وجود میں آئی یعنی اقوامِ متحدہ کے قیام سے پہلے دنیا کے مختلف ممالک کی اس تنظیم کا مقصد عالمی امن کو برقرار رکھنا تھا، چنانچہ ’لیگ آف نیشن‘ کی جانب سے دیے گئے مینڈیٹ کے تحت 1945 میں برطانیہ نے فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی۔ اسے بعد ازاں اسرائیل کا نام دیا گیا۔ اسی بیچ اسرائیل کی فورسز اور فلسطینی ملیشیا کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہونا شروع ہوا، چنانچہ 1948 میں باضابطہ طور پر اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا لیکن دنیا کے بیشتر ملکوں خصوصاً مسلم ممالک نے اس کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اس طرح 1948 سے ہی اسرائیل کا فلسطینیوں اور پڑوسی ملکوں سے جھڑپوں کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ اب تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اس کے بعد برطانیہ نے ایک بار پھر یکطرفہ فیصلہ سناتے ہوئے فلسطین سے متعلق شہریوں کے خلاف کارروائی، غیر معینہ مدت تک انہیں قید میں رکھنے، آبادیوں کو گرانے، فوجی عدالتوں کے قیام اور فوجی چھاؤنیوں کے قیام کی منظوری دیتے ہوئے اسرائیل کو ایک طرح سے فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ مبصرین کی مانیں تو انہیں قوانین کا سہارا لے کر 1967 کی عرب-اسرائیل جنگ کے بعد سے فلسطینیوں کے خلاف کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسرائیل اور فلسطین دونوں ہی بیت المقدس کے دعوے دار ہیں۔ منصوبے کے تحت کسی بھی اسرائیلی یا فلسطینی کو اس کے گھر سے بے دخل نہیں کیا جائے گا، لہٰذا 1967 کے بعد فلسطینی علاقوں میں قائم کی گئی یہودی بستیوں کو اقوام متحدہ غیر قانونی قرار دیتا ہے، لیکن دوسری طرف امریکہ نے ان بستیوں کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے جبکہ فلسطینی حکام کا یہ شروع سے ہی مؤقف رہا ہے اور اس میں وہ حق بجانب بھی نظر آتے ہیں کہ اس منصوبے کے ذریعے اسرائیل کو خطے میں حاکمیت قائم کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، 1949 میں اسرائیلی فوج نے فلسطینی ملیشیا کو شکست دی تو تقریباً سات لاکھ فلسطینی شہری بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے اور یہاں تک کہ بیشتر دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ یہاں تک کہ اسرائیلی فوج نے واپس آنے کی کوشش کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے جبکہ اس کے الٹ دنیا کے کسی بھی ملک میں پیدا ہونے والے یہودی کو اسرائیل میں آنے کی اجازت دے دی اور انہیں یہودی ریاست کا شہری بننے کی پیش کش کی گئی۔ پھر رفتہ رفتہ جیسے جیسے برطانیہ کی حکومت اور طاقت کا دائرہ سمٹتا گیا، امریکہ کی قوت میں اضافہ ہوتا گیا، اسرائیل بھی امریکہ کی پشت پناہی حاصل کرنے کے لیے سرگرداں رہا۔ آخر کار گزشتہ برس امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ نے فلسطین اور اسرائیل کے مذکورہ تنازع کے حل کا منصوبہ پیش کیا جس کا اسرائیل کی طرف سے تو خیر مقدم کیا گیا لیکن ناانصافی سے بھرپور اس منصوبے کو فلسطینی اتھارٹی نے یکسر مسترد کر دیا۔ دراصل ٹرمپ کے اس منصوبے کے مطابق دو ریاستی حل کے مجوزہ امن معاہدے کے تحت غیر منقسم یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہونا تھا اور ابو دیس کو فلسطین کا دارالخلافہ بنانے کو ہری جھنڈی دی گئی تھی۔ اس امن منصوبے کے تحت اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو سرحد کا درجہ دیا جانے کا پلان تھا لیکن ٹرمپ کے اقتدار کے جاتے ہی ان کا مذکورہ منصوبہ بھی کھٹائی میں جا پڑا۔
دریں اثنا تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیں تو مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں اور اسرائیل کی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے چلتے یہ ایشو ایک مرتبہ پھر سے بین الاقوامی میڈیا کی سرخیاں بننے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ دراصل اس وقت خطے میں کشیدہ صورتحال کی بڑی وجہ فلسطینی خاندانوں کی ان علاقوں سے بے دخلی ہے جس کے دعویدار خود کو یہودی آباد کار کہلوا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق تازہ جھڑپوں میں زخمی ہونے والے فلسطینی افراد کی تعداد 205 ہے جبکہ دوسری طرف تقریباً 17 اسرائیلی پولیس کے اہلکاروں کے زخمی ہونے کی خبریں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، مسجد اقصیٰ کے احاطے میں جمعہ کی شام کو ہونے والی جھڑپوں میں اسرائیلی فورسز نے فلسطینیوں پر ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کے گولے فائر کیے جبکہ اس کے جواب میں بچاؤ کرتے ہوئے فلسطینیوں نے اسرائیلی پولیس پر پتھراؤ کیا۔ اسرائیل کے سپریم کورٹ شیخ جراح سے بے دخل کیے جانے والے فلسطینیوں سے متعلق کیس کی سماعت کل یعنی پیر کو ہونے کی امید ہے۔ اس دن اسرائیلی 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ کے بعد مشرقی یروشلم حاصل کرنے کی یاد میں ‘یروشلم ڈے‘ مناتے ہیں۔ اس موقع پر امریکہ اور اقوامِ متحدہ کی طرف سے کشیدگی میں کمی لانے کی مانگ کی گئی ہے جبکہ یورپی یونین اور اردن کی جانب سے فلسطینی خاندانوں کی ان علاقوں سے ممکنہ بے دخلی سے متعلق خبر دار کیا گیا ہے۔فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے ان جھڑپوں کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیا گیا ہے اور ساتھ ہی اقوامِ متحدہ سے فوری طور پر اس واقعے سے متعلق اجلاس بلانے کی مانگ کی گئی ہے۔
[email protected]