اُپیندررائے
کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں ایسا کہرام مچا رکھا ہے کہ کوئی بھی اس کے اثر سے بچ نہیں پارہا ہے۔ یہاں تک کہ کل تک جو کورونا گھر خاندانوں تک محدود تھا،اس نے اب کورٹ کچہری میں بھی گھس پیٹھ کرلی ہے۔ عام طور پر جب ہمارے ملک میں کسی تنازع کا حل نہیں نکلتا تو ’کورٹ‘ میں دیکھ لینے والی بات‘ بڑی عام ہے۔ لیکن کورونا کا زور ایسا ہے کہ بڑے بڑے مسائل سلجھانے والی ہماری عدالتیں سخت تبصروں کے باوجود بے بس نظر آرہی ہیں۔
کورونا کے معاملات میں اضافے اور آکسیجن سے لے کر، اسپتالوں میں بیڈ اور دوا کی قلت سے متعلق ملک کی عدالتیں گزشتہ کئی دنوں سے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کو زبردست پھٹکار لگارہی ہیں۔ اس میں سے کچھ معاملے مفادعامہ کی درخواستوں سے نکل کر آئے ہیں تو کئی معاملات میں عدالتوں نے خود ہی حالات کا نوٹس لے کر حکومتوں سے جواب طلب کیا ہے۔ عدالتیں وجہ بتاؤ نوٹس جاری کررہی ہیں، افسران کو جیل بھیجنے کا انتباہ دے رہی ہیں، حکم کی تعمیل نہ ہونے پر حکومتوں سے جواب طلب کررہی ہیں کہ کیوں نہ ان کے خلاف توہین کا کیس درج کیا جائے۔ دہلی، گجرات، پٹنہ، کرناٹک سبھی جگہ ہائی کورٹ کی ناراضگی کا عالم ایک جیسا نظر آرہا ہے۔
چین نے اپنے وسائل کا تیزی سے استعمال کیا، نئے اسپتال بنائے، ضرورت مندوں کو فوراً اسپتال پہنچایا، بیڈ بڑھائے، آکسیجن کے بفر اسٹاک تیار کیے۔ ہمارے یہاں ابھی بھی اس طرح کا کام نہیں ہورہا ہے۔ ہورہا ہوتا تو عدالتیں کیوں دخل دیتیں؟اس لیے کچھ کام ایسے ہیں جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارا صحت عملہ مارچ 2020سے مسلسل جنگی پیمانہ پر کام کررہا ہے۔ گزشتہ ایک برس سے دن رات اپنی خدمات دیتے دیتے اب وہ پوری طرح تھک چکا ہے۔
ان سب سے اوپر سپریم کورٹ تو مرکزی حکومت کو اس کے طریق کار اور صلاح کے باوجود کوئی ٹھوس نتیجہ نہ نکلنے پر تقریباً روز ہی پھٹکار لگارہا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ جن عدالتوں میں ملک کے عوام اپنے تمام سوالات کے جواب ڈھونڈتے ہیں، ان کے اتنے سخت تبصروں کے باوجود زمین پر حالات میں کوئی خاص تبدیلی آتی نظر نہیں آرہی ہے۔
اور یہ حال تب ہے جب کہ ملک میں ابھی دوسری لہر کا پیک بھی نہیں آیا ہے اور تیسری لہر کے آنے کا خدشہ ظاہر ہونے لگا ہے۔ پوری دنیا کا تجربہ ہے کہ دوسری لہر کے مقابلہ میں تیسری لہر کا اثر زیادہ مہلک ہوگا۔ سپریم کورٹ نے اس پر بھی حکومت سے اس کا ایکشن پلان طلب کرلیا ہے۔ عدالت نے خاص طور پر بچوں کے تئیں تشویش کا اظہار کیا ہے اور پوچھا ہے کہ جب بچے بیمار ہوکر اسپتال جائیں گے تو ان کے سرپرستوں کو بھی ساتھ جانا ہوگا، اس کے لیے حکومت کیا تیاری کررہی ہے؟ حالاں کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ سپریم کورٹ حکومت کو صرف لتاڑ ہی لگارہی ہے۔ تیسری لہر سے متعلق اس نے حکومت کو کچھ مشورے بھی دیے ہیں، جس میں سب سے اہم ہے ٹیکہ کاری پروگرام کو تیزی سے پورا کرنے کی ضرورت۔
اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ موجودہ حالات سے نکلنے میں ٹیکہ کاری ہی سب سے بڑا ہتھیار ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکہ اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ تین ماہ پہلے تک وہاں بھی قیامت جیسے حالات بنے ہوئے تھے۔ جو بائیڈن کی کمان میں جب نئی انتظامیہ نے کام کاج سنبھالا تو اس نے ٹیکہ کاری کو سنجیونی کی طرح لیا۔ ویکسین بنانے والی کمپنیوں کو 100دن میں 100ملین خوراک بنانے کا ہدف دیا اور پھر اسے بڑھا کر 200ملین کردیا۔ ویکسین پروڈکشن کی رفتار کم نہ ہو، اس کے لیے کچے مال کی برآمدبند کردی۔ آج حالت یہ ہے کہ ایک بڑی آبادی کو ٹیکہ لگاکر امریکہ نے کورونا کو اتنے قابو میں کرلیا ہے کہ ویکسین کی دونوں ڈوز لگوا چکے لوگوں کے لیے اب ماسک پہننے کی ضرورت ختم ہوگئی ہے۔ 4جولائی کو امریکہ کی آزادی کا دن ہے اور ملک نے اس دن کو کووڈ سے نجات کا دن منانے کا ہدف رکھا ہے۔
امریکہ کی اس کامیابی میں ایک بات ایسی ہے جو شاید اس کے لحاظ سے عام ہو، لیکن ہندوستان کے تناظر میں اس کی خاص اہمیت ہے۔ دراصل امریکہ نے ٹیکہ کاری پروگرام کو لال فیتہ شاہی سے پوری طرح آزاد رکھا ہے۔ شہریت کے دستاویز سے زیادہ ضروری لوگوں کی جان بچانا ہے اور اس کے لیے ہر شخص کو ٹیکہ لگایا جارہا ہے، بھلے ہی وہ غیرقانونی طریقہ سے امریکہ میں رہ رہا ہو۔ اور یہ کہانی صرف امریکہ کی نہیں ہے۔ برطانیہ، اسرائیل جیسے تمام ترقی یافتہ ممالک نے کورونا کی تانڈو-لیلا کے درمیان بھی اپنے اپنے ٹیکہ کاری پروگرام میں ذرا بھی ڈھیل نہ آنے دے کر کورونا پر قابو پایا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ حکومت ہند ٹیکہ کاری کی اہمیت سے واقف نہیں ہے۔ ورنہ نہ تو وہ ویکسین پروڈکشن کو بڑھاوا دینے کے اتنے جتن کرتی، نہ دنیا بھر کی ویکسین کے لیے ملک کے دروازے کھولتی۔ لیکن پھر بھی اگر ٹیکہ کاری پروگرام ہچکولے کھاتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سسٹم میں کوئی خامی تو ہے۔ یہ مسئلہ دوسرے کئی انتظامات سے متعلق بھی ہے۔ یاد کیجیے جب ایسے حالات چین کے سامنے تھے تو اس نے کیا کیا تھا؟ چین نے اپنے وسائل کا تیزی سے استعمال کیا، نئے اسپتال بنائے، ضرورت مندوں کو فوراً اسپتال پہنچایا، بیڈ بڑھائے، آکسیجن کے بفر اسٹاک تیار کیے۔ ہمارے یہاں ابھی بھی اس طرح کا کام نہیں ہورہا ہے۔ ہورہا ہوتا تو عدالتیں کیوں دخل دیتیں؟
اس لیے کچھ کام ایسے ہیں جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارا صحت عملہ مارچ 2020سے مسلسل جنگی پیمانہ پر کام کررہا ہے۔ گزشتہ ایک برس سے دن رات اپنی خدمات دیتے دیتے اب وہ پوری طرح تھک چکا ہے، اس لیے موجودہ حالات میں اسی رفتار میں ان سے صحت سہولتوں کے بہتر عمل درآمد کی امید کرنا زیادتی ہوگی۔ تازہ حالات اور مستقبل کے خدشات کو دیکھتے ہوئے اس کی جگہ لینے کے لیے ایک متوازی سسٹم کھڑا کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ ملک میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ ایسے ڈاکٹرس ہیں جو ایگزام کی تیاری میں ہیں۔ تقریباً ڈھائی لاکھ نرسیں گھروں میں بیٹھی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوسکتے ہیں جو تیسری لہر کے وقت اپنی خدمات دے کر ہیلتھ انفرااسٹرکچر کو مضبوط کرسکتے ہیں۔ اسی طرح افراتفری سے بچنے کے لیے ہمیں ابھی سے تیسری لہر کے مقابلہ کے لیے میڈیکل آکسیجن کا بفراسٹاک بنانا شروع کردینا چاہیے۔
بچے ابھی تک کورونا کی پہنچ سے باہر تھے، لیکن تیسری لہر کی بات شروع ہونے سے اچانک وہ مرکز میں آگئے ہیں۔ اس لیے اب انہیں بھی ویکسین کا سیفٹی کوچ پہنانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ نے اس کے لیے اکتوبر تک کی ڈیڈلائن رکھی ہے، لیکن بھارت بایوٹیک کی بچوں کی ویکسین ابھی ٹرائل اسٹیج پر ہی ہے۔ ایسے میں اس سمت میں مزید تیزی لائے جانے کی ضرورت ہے۔
اگر بروقت ہم ان تمام طریقوں کے آس پاس کوئی ایمرجنسی پلان تیار کرپاتے ہیں تو ممکن ہے کہ تیسری لہر ہمیں اس طرح پریشان نہ کرپائے، جیسا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ حکومت بھی یہی یقین دہانی کرارہی ہے کہ اگر ٹیسٹنگ، ٹریٹنگ اور کنٹیننگ کی اس کی گائیڈلائن پر ملک چلے گا تو تیسری لہر کے وسیع پیمانہ پر اثر کو بلاشبہ روکا جاسکتا ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)