محمد حنیف خان
جائزہ، ترمیم و تنسیخ اور اصلاح کسی بھی ادارے کا حسن اور اس کے وسیع مفاد میں اہم ہوتا ہے۔اگر کسی ادارے میں یہ عمل جاری نہیں ہے تو ایک اچھا ادارہ ہونے کے باوجود وہ مرور ایام کے ساتھ از کار رفتہ ہوسکتا ہے اور اس کا فائدہ محدود ہو سکتا ہے۔ان ہی اداروں میںسے ایک اہم ادارہ ’پنچایتی راج ‘ ہے۔یہ وہ ادارہ ہے جو دیہی علاقوں میں نہ صرف سرکاری اسکیموں کو نافذ کرکے اس کا فائدہ عوام تک پہنچاتا ہے بلکہ دیہی علاقوں کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔پنچایتی راج کو 1959میں بنایا گیا۔یہ بابائے قوم مہاتماگاندھی کے ’گرام سوراج ‘کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے والا ادارہ ہے۔اس ادارے کی بنیاد پر اگر غور کیا جائے تو زمانہ قدیم سے ہی یہ سماج میں موجود رہا ہے۔ہر قبیلے کا کوئی نہ کوئی سردار ہوا کرتا تھا جو اپنے قبیلے کے مفاد میں کام کرتا تھا اور اہم فیصلے کرتا تھا۔سردار قبیلہ کی یہ ذمہ داری ہوا کرتی تھی کہ وہ ہر شخص کی ضرورتوں کو سمجھے اور ان کے مسائل کا حل نکالے۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ ہر فرد کو محسوس ہوتا تھا کہ جو فیصلے لے رہا ہے وہ کوئی غیر نہیں اسی کے قبیلے کا فرد ہے، اس طرح وہ خود کو بھی سردار ہی تصور کرتا تھا۔اس ادارے کا مقصد بھی یہی ہے کہ شہری علاقوں کی طرح دیہی علاقوں میں بھی انتظام و انصرام خود دیہی عوام کے ہاتھ میں ہو تاکہ سرکاری اسکیموں کا فائدہ پوری طرح سے عوام کو مل سکے۔آئین ہند کی دفعہ 40میں ریاستوں کو یہ ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ پنچایتوں کی تشکیل کریں۔1992میں آئین میں 73ویں ترمیم کے ذریعہ اس ادارے کو آئینی حیثیت دی گئی۔جس کا نفاذ 24اپریل 1993کو کیا گیا۔اس طرح دیہی علاقوں کے عوام کو نہ صرف خود مختاری مل گئی بلکہ وہ اس بات کے بھی مجاز ہوگئے کہ اس جمہوری نظام میں وہ خود شریک ہو سکیں اور خود ان ہی میں سے کوئی شخص ان کی بھلائی کے لیے کام کرے۔اس طرح جب اس پورے نظام کو دیکھا جاتا ہے تو یہ ادارہ بہت مفید اور حسین محسوس ہوتا ہے کیونکہ دیہی عوام جو سب سے پسماندہ ہوتے ہیں،جن کی تعلیمی لیاقت بھی کم ہوتی ہے،دنیا کی چکا چوندھ سے وہ بیگانہ ہوتے ہیں،ان کو فکر اپنے کھیت اور مویشیوں کی ہوتی ہے،جو یہ جانتے ہیں کہ ان کا پیٹ اسی وقت بھر سکتا ہے جب وہ سورج کی سخت تپش میں پسینہ بہائیں گے اور سخت محنت کریں گے۔ان افراد کے ہاتھوں میں یہ ادارہ اپنے علاقوں کا انتظام و انصرام سونپتا ہے،جس سے ایک طرح کی خوشگواری کا احساس ہوتاہے۔
حکومت واقعی دیہی علاقوں میں ترقیاتی کام کرنا چاہتی ہے تو یہ اس کا فرض ہے کہ اس پنچایتی راج ادارے میں اصلاحات کرے ورنہ عہدوں کے لیے الیکشن ہوں گے،لوگ منتخب ہوں گے اور ایک دوسرے سے ساز باز کرکے عوام کے بجائے صرف اپنی ترقی کرتے رہیں گے۔اگر بابائے قوم گاندھی کے ’گرام سوراج ‘ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا ہے تو اس میں اصلاح از بس ضروری ہے، جس کے بغیر اصل مقصد نہیں حاصل ہوسکتا ہے۔
کوئی ضروری نہیں ہے کہ جو دستاویزی سطح پر خوبصورت ہو، زمینی حقیقت بھی اسی طرح ہو۔ بسا اوقات دستاویزی صورت سے کئی گنا زیادہ زمینی حقیقتیں بدلی ہوا کرتی ہیں۔ سرکاری اداروں میں تو اکثر و بیشتر یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ اصول و ضوابط کچھ ہیں اور حقیقت میں ہوتا کچھ ہے۔اس میں اس اصلی ہیئت کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ ساری خرابی اس نظام کی ہوتی ہے جو دھیرے دھیرے اپنی شکل بدل لیتا ہے اور ایک ایسی صورت میں آکر وہ کھڑا ہوجاتا ہے جہاں اس کو پہچان پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ پنچایتی راج ادارے کا بھی یہی حال ہے۔اس کی دستاویزی اور زمینی سطح میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اندازہ لگائیں کہ اگر کسی ایک علاقے کی ترقی سہ سطحی ہو تو اس کی کیسی نکھری نکھری صورت ہوگی۔ لیکن یہاں زمینی حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔پورے ملک میں کہیں بھی دیہی علاقوں میں چلے جائیں، آج بھی نالی،کھڑنجہ اور پینے کے پانی کا فقدان نظر آئے گا۔آخر کیا وجہ ہے کہ سہ سطحی نظام ہونے کے باوجود دیہی علاقوں کے حالات آج تک درست نہیں ہوسکے؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ اس ادارے کا وقت اور ضرورت کے اعتبار سے جائزہ نہیں لیا گیا،اس میں ترمیم و تنسیخ اور اصلاح نہیں کی گئی۔آج بھی وہ اسی پرانے ڈھرے پر ہے جس پر برسوں پہلے تھا۔یہ اکیسویں صدی کا ہندوستان ہے،دیہی علاقوں میں بھی اس کی جھلک دکھائی دینی چاہیے تھی مگر وہ جھلک معدوم ہے، کیونکہ ایک تو ادارے کا ڈیزائن ایسا ہے جس میں افراد زیادہ ہیں اور کام سب کا ایک ہے، ایسے میں جہاں مالی ضیاع ہوتا ہے وہیں افرادی قوت بھی بیکار ہوتی ہے۔یہ دونوں ایسی چیزیں ہیں جو اس وقت ہندوستان کا سب سے بڑا سرمایہ ہیں، نہ تو مالی نقصان کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی افرادی قوت کو ضائع کیاجاسکتا ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر حاکم اور افسر زمینی حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود آنکھیں موندے ہوئے ہے،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کو فکر ملک اور اس کی ترقی کے بجائے صرف اپنی ہے اور اس کی نظر جلب منفعت پر ہے۔
پنچایتی راج نظام کے تحت سہ سطحی ضلع پنچایت،بی ڈی سی اور گرام پردھان کے الیکشن ہو تے ہیں مگر ایک گرام پنچایت کی تشکیل لیے کچھ ممبران کی ضرورت ہوتی ہے جنہیں پنچ کہا جاتا ہے۔ضلع،بلاک اور گاؤں پنچایت کی سطح پر وارڈ کے مطابق اس کے ممبران کا انتخاب ہوتا ہے۔اترپردیش میں ابھی کچھ دنوں قبل پنچایتی راج کے تحت یہ الیکشن ہوئے اور اس کے نتائج کا اعلان کیا گیا ہے۔اس میں بادی النظر میں سب سے اہم الیکشن ضلع پنچایت کا ہے۔اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایم ایل اے کے بعد دیہی علاقوں کا یہ سب سے بڑا الیکشن ہوتا ہے۔ ضلع پنچایت اور اس کے ممبران دیہی علاقوں کی ترقی کے لیے کیا کرتے ہیں یہ ایک بڑا سوال ہے؟جب کہ حکومت بھی اس پر خطیر رقم خرچ کرتی ہے۔دستاویزی سطح پر ان کو دیہی ترقیات کے لیے متعدد کام دیتی ہے لیکن اگر اس کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہاں تعمیراتی کام کے بجائے ٹھیکہ داری حاوی نظر آئے گی۔ضلع پنچایت صدر سے لے کر اس کے ممبر تک جلب منفعت میں شرابور نظر آئیں گے۔ان دیہی عوام سے اگر ان کے کاموں کے بارے میں معلوم کرلیا جائے اور ایک سروے ہوجائے تو ان کا کام صفر نظر آئے گا۔جو کام ہوتا بھی ہے وہ ممبر اسمبلی اور پردھان کے فنڈ کی طرح ہوتا ہے۔ ممبر اسمبلی چونکہ ریاستی مقننہ کا ایک اہم فرد ہوتا ہے جو اسمبلی میں قانون سازی کرتا ہے، وہیں متعلقہ علاقوں میں ترقیات کے لیے اس کو سر کار ایک فنڈ جاری کرتی ہے جس میں دیہی اور شہری دونوں علاقے ہوتے ہیں مگر ضلع پنچایت میں صرف دیہی علاقے ہوتے ہیں لیکن اس کی ایک اہم کڑی موضع پردھان ہے جو موضع کے افرادکو فرداً فرداً نہ صرف جانتا ہے بلکہ اپنے موضع کی ضروریات سے وہ پوری طرح سے واقف ہوتا ہے خواہ اس کاتعلق بستی سے ہو یا پھر کھیت اور کھلیان سے، جہاں چک روڈ وغیرہ بنانے میں سرکاری امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسے میں ضلع پنچایت کے ادارے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی ہے۔حکومت کو اس جانب توجہ دینا چاہیے۔بالکل یہی صورت حال بی ڈی سی (بلاک ڈیولپمنٹ کاؤنسل) کی ہے۔بی ڈی سی تو سب سے ناکارہ ادارہ ہے۔بلاک کی سطح پر ہونے والے کاموں میں اس کی نمایاں ذمہ داریاں تھیں اور ہیں مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ بی ڈی سی سے پورے پانچ برس میں صرف ایک بار جب بلاک پرمکھ کا الیکشن ہوتا ہے تب پوچھا جاتا ہے۔اس حقیقت سے ہر خاص و عام واقف ہے کہ بی ڈی سی کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کے توسط سے برائے نام ترقیاتی کام ہوتے ہیں۔حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے اور فاضل اداروں کو منسوخ کرکے ان دونوں کو موضع پردھان کی ذمہ داریوں کو ضم کردینا چاہیے۔اس سے جہاں ایک طرف معاشی سطح پرحکومت کا فائدہ ہوگا، وہیں دیہی علاقوں میں ترقیاتی کا موں میں اضافہ ہوگا۔جس کی ایک وجہ اور ہے،سرکاری رقم جو عوام کی ترقیات کے لیے آتی ہیں وہ جتنے زیادہ افراد کے توسط سے اپنے مرکز اور نکتے تک پہنچتی ہے، اس میں اتنی ہی زیادہ کتر بیونت ہوتی ہے۔ چونکہ پردھان اسی علاقے کا ہوتا اور پنچایتی راج کا ہر کام دیہی علاقے میں ہی ہوتا ہے، ایسے میں بہتر یہی ہے کہ اس رقم کو زیادہ لوگوں کے ہاتھوں تک نہ پہنچنے دیا جائے۔جہاں تک بات حکومت کی شفافیت کے دعویٰ کی ہے تو اس بارے میں حقائق سے حکومت بھی واقف ہے کہ زمینی اور دستاویزی سطح پر دونوں میں کتنا فرق ہے۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ ان دونوں اداروں کو ختم کر کے موضع پنچایت میں اس کو ضم کردینا چاہیے۔
موضع پنچایت میں بھی اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ اس کا فائدہ وسیع ہوسکے۔پنچایت کی تشکیل میں پردھان کے ساتھ ممبران یعنی پنچ بھی ہوتے ہیں جن کی تعداد 11سے 13ہوتی ہے۔ان کا کام یہ ہے کہ یہ پردھان کا تعاون کریں اور ایک کمیٹی مل کر اس موضع کی ترقیات کے لیے کام کرے مگر زمینی سطح پر اس کا بھی برا حال ہے،جس کی سب سے بڑی وجہ وہ سرکاری کارندے ہوتے ہیں جنہیں سکریٹری اور بی ڈی او کہا جاتا ہے۔ان دونوں کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ بلاک اور موضع کی سطح پر سرکاری اسکیموں کے نفاذ میں یہ پردھان کا تعاون کریں مگر تعاون کے ساتھ ساتھ ان دونوں نے پنچوں کی اہمیت بھی ختم کردی۔اب پردھان ان سے سازباز کرکے اپنے من موافق کام کرتا ہے۔اگر یہ دونوں پردھان کا ساتھ نہ دیتے تو پنچوں کی اہمیت ختم نہ ہوتی۔ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس جانب بھی توجہ دے۔اگر حکومت واقعی دیہی علاقوں میں ترقیاتی کام کرنا چاہتی ہے تو یہ اس کا فرض ہے کہ اس پنچایتی راج ادارے میں اصلاحات کرے ورنہ عہدوں کے لیے الیکشن ہوں گے،لوگ منتخب ہوں گے اور ایک دوسرے سے ساز باز کرکے عوام کے بجائے صرف اپنی ترقی کرتے رہیں گے۔اگر بابائے قوم گاندھی کے ’گرام سوراج ‘ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا ہے تو اس میں اصلاح از بس ضروری ہے، جس کے بغیر اصل مقصد نہیں حاصل ہوسکتا ہے۔
[email protected]