مفتی محمدمحبوب شریف نظامی‘ حیدرآباد
ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے ۔ فرشتے اورروح الامین اس میں اپنے رب کے اذن (اجازت) سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں ۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے‘ طلوع فجر تک (یعنی وہ صبح جس کی روشنی سورج نکلنے سے پہلے مشرق کی طرف پھیلی ہوئی ہوتی ہے جس کو صبح صادق کہتے ہیں )‘‘(القدر:1-5)۔ سورہ قدر اکثر اہلِ علم کے نزدیک مکہ میں نازل ہوئی بعضوں نے اسے مدنی بھی کہا ہے ۔اس میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب سے ارشاد فرماتاہے کہ آپ کو اپنی امت کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ۔ ہم آپ کی امت کیلئے ایک ایسی رات دے رہے ہیں جس کی چار خصوصیات ہیں (۱) اس میں انسانی ہدایت نامہ قرآن نازل ہوا ۔ (۲) وہ رات عبادت ونیکیوں کی قبولیت کے اعتبار سے ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔(۳) اور اس رات میں فرشتے مقدّرات کے اہم فیصلوں کو لے کر نازل ہوتے ہیں اور حضرت جبرئیل علیہ السلام افضل الملائکہ بھی بھیجے جاتے ہیں ۔(۴) وہ رات بڑی سلامتی والی ہے اور اس کی خیروبرکت صبح صادق تک رہتی ہے ۔
ایک ایسی رات دے رہے ہیں جس کی چار خصوصیات ہیں (۱) اس میں انسانی ہدایت نامہ قرآن نازل ہوا ۔ (۲) وہ رات عبادت ونیکیوں کی قبولیت کے اعتبار سے ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔(۳) اور اس رات میں فرشتے مقدّرات کے اہم فیصلوں کو لے کر نازل ہوتے ہیں اور حضرت جبرئیل علیہ السلام افضل الملائکہ بھی بھیجے جاتے ہیں ۔(۴) وہ رات بڑی سلامتی والی ہے اور اس کی خیروبرکت صبح صادق تک رہتی ہے ۔
قرآن کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی وقت میں لوح محفوط سے آسمانی دنیا پر شبِ قدر میں نازل فرمایا اور حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم پر حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا کبھی ایک سورت اور کبھی دو چار آیتیں نازل ہوتی رہیں اس کی ابتداء بھی رمضان کے مہینہ میں شب قدر سے ہوئی اور تکمیل 23 سال میں ہوئی ۔ پہلی وحی سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیتیں ہیں جوپڑھنے لکھنے کی اہمیت بتارہی ہیں۔ آخری وحی احکام کے اعتبار سے سورہ مائدہ کی آیت نمبر 3 ہے جس میں دین کے مکمل ہوجانے کی خوشخبری ہے ۔ تمام آسمانی کتابیں رمضان ہی میں نازل ہوئی ہیں قرآن مجید کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ رمضان کی ایک ایسی رات میں نازل ہوئی جس کو کئی حیثیتوں سے دوسری راتوں پر اہمیت اور فضیلت حاصل ہے ۔
قرآن مجیدکے نزول کی ابتداء کیلئے رات کواس لئے منتخب کیا گیاکیونکہ رات میں سکون ہوتا ہے جو دن کی ہماہمی اور گھماگھمی میں نہیں ہوتا اسی وجہ سے اہل اللہ (اللہ والے) اپنے بستروں سے الگ اس کے حضور اپنی عاجزی اور درماندگی اور اللہ ذوالجلال والاکرام کی بزرگی کا اظہار کرتے ہیں انہیں قربِ خداوندی حاصل ہوتا ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے ہر رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور فرشتے کے ذریعہ صدا لگواتے ہیں ہے کہ کوئی مغفرت کا طلبگارہے کہ میں اسے معاف کروں اور ہے کوئی رحمت کا ڈھونڈنے والا کہ اس پر میں رحمتوں کی بارش برساؤں۔ رات کی بڑی خصوصیات ہیں جو محبت الٰہی میں ذکر و فکر کرتے ہیں راتوں کو جاگتے ہیں ان ہی سے ان کے راز کسی قدر معلوم ہوسکتے ہیں ۔ شب قدر کی حقیقت تو اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں اسی وجہ سے کہا جارہا ہے ۔
’’اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟‘‘اس کی فضیلت کس قدر ہے؟ وہ جشن نزول قرآن کی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ہزار مہینوں سے بڑھ کر کس قدر عظمت والی ہے ہماری سمجھ میں آنا مشکل ہے ہزار مہینہ ہی لئے جائیں تو ا سکے 83 برس چار مہینے ہوتے ہیں ۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ہزار کا عدد اس واسطے لایا گیا کہ اسلام کے پہلے مخاطب اُمی لوگ تھے جن کو زیادہ لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا ان کو ہزار سے بڑھ کر گنتی نہیں آتی تھی ۔ اس لئے ہزار کا عدد لایا گیا اور ہزار مہینوں سے بہتر بتاکر اس کی بے انتہاء بھلائی کو ظاہر کیا گیا ۔ اس رات کا نام القدر اس واسطے رکھا گیا کہ یہ رات قدر ومنزلت والی ہے۔ اس واسطے بھی کہ قدر کے معنی تقدیر کے آتے ہیں ۔ اس رات مقدّرات کے فیصلہ فرشتوں کے حوالے کئے جاتے ہیں اور ا س کو اس لئے بھی قدر کہتے ہیں کہ قدر کے معنی تنگ ہونے کے بھی آتے ہیں ۔ اس رات میں فرشتے اس قدر نازل ہوتے ہیں کہ زمین اپنی کشادگی کے باوجود تنگ ہوجاتی ہے ۔
’’ فرشتے اورروح الامین اس میں اپنے رب کے اذن (اجازت) سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں‘‘۔عام فرشتے نازل ہوتے ہیں اور خاص فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی نازل ہوتے ہیں ان کا نزول مقدّرات کے اہم اہم فیصلوں کے ساتھ ہوتا ہے کن کو دنیا میں آنا ہے اور کن کو جانا ہے کن کو عزت ملے گی اور کون ذلیل ہوں گے ۔ ایسے سارے فیصلے ان کے حوالے کئے جاتے ہیں وہ ان کو لے کر روئے زمین پر پھیل جاتے ہیں اور جن جن کو بھی اللہ رب العالمین کی عبادت اور اس کے ذکر و فکر میں دیکھتے ہیں مصافحہ کرتے ہیں۔ مصافحہ کی علامت یہ ہے کہ جسم پررونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں آنکھیں ندامت کے آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔فرشتے اس قدر نازل ہوتے ہیں کہ ان کی کثرت سے زمین بھر جاتی ہے اور اس قدر بھر جاتی ہے کہ زمین ان کیلئے تنگ محسوس ہوتی ہے ۔
فرشتے اس لئے بھی نازل ہوتے ہیں کہ جس وقت انسان کو بحیثیت خلیفہ دنیا میں آباد کرنے کے فیصلہ کا اظہار اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کیا تو اس وقت فرشتوں نے کہا تھا کہ کیا آپ ایسی مخلوق کو پیدا فرماتے ہیں جو زمین میں فساد پھیلائے گی اور خون بہائے گی ‘ حالانکہ ہم آپ کی تسبیح بیان کرہی رہے ہیں۔ کیا آپ کی تسبیح وتقدیس کیلئے ہم کافی نہیں ہیںکیا ہم سے کچھ کوتاہی ہورہی ہے ۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا تھا کہ انسان کی حقیقت کو ہم جانتے ہیں تم نہیں جانتے۔
اللہ تعالیٰ ان کو عملاً دیکھنے کیلئے بھیجتے ہیں، جس مخلوق کی پیدائش پر تم نے اعتراض کیا تھا جاؤ دیکھو وہ کس آہ وزاری میں ہے اور کس طرح مجھ سے لو لگائے میری یاد میں ہے ،تم اگر عبادت میں لگے ہوتو کوئی کمال نہیں اس واسطے کہ تمہیں بیوی ہے نہ بچے، دکان ہے نہ مکان، تمہیں نفس ہے نہ کوئی خواہش، ایسے میں تمہاری عبادت بہت زیادہ تعریف کے قابل نہیں۔ میرے حبیب کی امت کو جاکر دیکھو وہ بیوی بچے رکھتے ہوئے دکان ومکان کی ضروریات رکھتے ہوئے، نفس وخواہش کے باوجود اپنے کاروبار کو چھوڑ کر دن بھر کے تھکے ماندے رات جو اُن کے سونے کیلئے تھی رات کی نیند حرام کئے اپنی کوتاہیوں کو بخشوانے اور میری رحمت کی امیدوار ہوکر جاگ رہے ہیں ۔ ان کا آنا اپنے سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ کی اجازت سے ہوتا ہے ۔
’’وہ رات بڑی سلامتی والی ہے اور اس کی خیروبرکت صبح صادق تک رہتی ہے‘‘یہ رات سلامتی والی ہے اس کی سلامتی صبح صادق تک رہتی ہے ۔ یہ سب بھلائیاں ان امتیوں کو ملتی ہیں جو اس رات کی قدر کرتے ہیں ۔یہ رات اس قدر اہم ہے تو اس کی قدر کرنا چاہیے غفلت میں گذارنا نہیں چاہیے۔اللہ ہم سب کو شب قدر کی پوری طرح قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔
nnn