ارون کمار
اب حکومت کو بھی محسوس ہوگیا ہے کہ کورونا وائرس کی جو دوسری لہر آئی ہے، وہ بہت مہلک ثابت ہورہی ہے اور اس کا معیشت پر بڑا اثر پڑرہا ہے۔ مکمل طور پر لاک ڈاؤن نہیں ہے، لیکن غیرمنظم سیکٹر کی کمپنیوں پر کچھ زیادہ ہی اثر پڑا ہے۔ آٹوموبائل و دیگر کچھ سیکٹرز میں متعدد چھوٹی کمپنیوں نے اپنے کام بند کردیے ہیں۔ اثر سبھی پر ہے، لیکن غیرمنظم سیکٹر پر زیادہ ہے اور اسی لیے نقل مکانی بھی نظر آرہی ہے۔ سب سے پہلے تو جو پیکیج بھارتیہ ریزرو بینک(آر بی آئی) نے دیا ہے، اس کو ہمیں حکومت کا پیکیج نہیں سمجھنا چاہیے۔ حکومت الگ ہے اور آر بی آئی الگ ہے۔
بھارتیہ ریزرو بینک قرض کے محاذ پر کوشش کررہا ہے کہ غیرمنظم سیکٹر کو کاروبار جاری رکھنے کے لیے پیسہ ملے، جس سے غیرمنظم سیکٹر کی یونٹوں کی حالت مزید خراب نہ ہو۔ جو چھوٹے کاروباری ہوتے ہیں، ان کے پاس سرمایہ بہت کم ہوتا ہے اور وہ جلدی ختم ہوجاتا ہے۔ جب ایسی یونٹوں میں کام بند ہوتا ہے تب ان کے لیے خرچ نکالنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسی کمپنیوں کو پھر شروع کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے چھوٹے کاروباریوں کو پیکیج دیا گیا ہے کہ وہ بینک سے قرض لے سکیں، لیکن اس سے حالت نہیں سدھرے گی۔ ابھی تو اور بھی یونٹیں بند ہورہی ہیں۔ جب تک انفیکشن کی حالت نہیں کنٹرول میں آئے گی، تب تک یہ یونٹیں کھل بھی نہیں پائیں گی۔ یہ پیکیج بند ہورہی یونٹوں کو تھامنے کی کوشش ہے، لیکن اس سے ابھی معیشت میں بہتری نہیں آئے گی۔ ہم لوگ لاک ڈاؤن کی جانب بڑھ رہے ہیں، ابھی معیشت کے دوسرے شعبوں پر اثر پڑے گا، مینوفیکچرنگ سیکٹر پر اثر پڑے گا۔ اس وقت میں سپلائی چین پھر سے ٹوٹ رہی ہے، جب کہ ہم نے ابھی تک پورا لاک ڈاؤن نہیں لگایا ہے۔ سلیکٹڈ لاک ڈاؤن ہورہا ہے، اس سے سپلائی میں بھی پریشانی آنے لگی ہے۔ جگہ جگہ پیداواروں کی سپلائی نہیں ہوپارہی ہے تو پروڈیوسرس کو پیداوار بھی بند کرنی پڑرہی ہے۔ ریزرو بینک کا کردار ابھی محدود ہے، اس کی کوشش ہے کہ کاروبار ابھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے ناکام نہ ہوں۔ یہاں راحت دو طرح سے مل سکتی ہے یا تو ابھی کام جاری رکھنے کے لیے قرض مل جائے یا بینک ابھی قرض وصول نہ کریں۔ لیکن اس سے معیشت میں ڈیمانڈ فوری طور پر نہیں پیدا ہوگی اور سپلائی میں کوئی خاص بہتری نہیں آئے گی۔
ماہرین بتارہے ہیں تقریباً 70-80لاکھ لوگوں نے روزگار گنوایا ہے، لیکن میرا ماننا ہے کہ اس سے دس گنا زیادہ لوگوں نے کام گنوایا ہے۔ گاؤوں سے جو خبریں آرہی ہیں، وہ خوفناک ہیں۔ اس کا اثر زراعت پر بھی پڑے گا۔ حکومت کو گاؤوں تک مدد پہنچانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ لوگوں کی مایوسی کو دور کرنے کے لیے حکومت کو ہی قدم اٹھانے پڑیں گے۔
تو ہماری کیا حکمت عملی ہونی چاہیے؟ ہم دیکھتے ہیں، جہاں بھی غیرملکی حکومتوں نے سختی سے لاک ڈاؤن لگایا، وہاں حالات تیزی سے ٹھیک ہونے لگے۔ جیسے چین ہے، اس نے شروع میں ہی سنبھال لیا اور برطانیہ نے ایک ہفتہ کی دیرکردی تو لینے کے دینے پڑگئے۔ لاک ڈاؤن لگانے میں جہاں بھی دیر ہوگی، وہاں دوسری لہر دیر تک چل رہی ہے اور جہاں بھی جلدی لاک ڈاؤن لگتا ہے، دوسری لہر بھی جلدی قابو میں آجاتی ہے۔ انفیکشن کو آپ نے کنٹرول کرلیا تو آپ معیشت کو جلدی اُبھارسکتے ہیں۔ اس لیے مارچ سے میں کہہ رہا ہوں، لاک ڈاؤن کردینا چاہیے۔ جس سے انفیکشن کے معاملات میں اضافہ نہ ہو۔ معاملات میں اضافہ ہی اس لیے ہے کہ لوگ آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ جب لاک ڈاؤن لگا دیا جاتا ہے تب دو ہفتہ بعد معاملے کم ہونے لگتے ہیں۔
ہمارے یہاں فروری میں دوسری لہر شروع ہوگئی تھی، تین ماہ ہونے جارہے ہیں۔ لاک ڈاؤن نہ لگانے کا خمیازہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ریکارڈ تعداد میں معاملات سامنے آرہے ہیں اور لوگوں کی جان بھی جارہی ہے۔ چوں کہ ہم نے ابھی تک لاک ڈاؤن نہیں لگایا ہے، اس لیے معاملے ابھی بھی بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ایک دقت یہ بھی ہے کہ اعدادوشمار پورے آتے نہیں ہیں یا دستیاب نہیں کرائے جاتے۔ آج میڈیکل سسٹم کو بہت تیزی سے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے بھی ریزرو بینک نے ایک پیکیج دیا ہے۔ میڈیکل ڈھانچہ ڈیولپ کرنے کے لیے خصوصی قرض کی ضرورت پڑے گی، اسے اس خصوصی پیکیج کے ذریعہ مہیا کرایا جائے گا۔ میرے مطابق ایسا میڈیکل ڈھانچہ ڈیولپ کرنے میں وقت لگتا ہے، اس لیے فوج کو بلالینا چاہیے۔ فوج کے پاس اسپتال بھی ہوتے ہیں اور نقل و حمل کے ذرائع بھی۔ فوج اگر آجائے تو راحت مل سکتی ہے۔ ہمیں فوراً مدد کی ضرورت ہے۔ ابھی غیرممالک سے کافی مدد آرہی ہے، جیسے کوئی دوا دے رہا ہے تو کوئی آکسیجن ٹینک دے رہا ہے۔ آرہی مدد کو ہمیں بڑھا دینا چاہیے۔ میڈیکل سیکٹر میں درآمدات بڑھانے کے لیے ہمیں اپنی کوششوں کو وسعت دینی چاہیے۔ ریزرو بینک نے جس پیکیج کا اعلان کیا ہے، وہ اچھا ہے، لیکن فوراً اس سے فائدہ نہیں ہوگا۔ فوج اور درآمدات، دونوں میں مدد لینی پڑے گی۔
ابھی مکمل لاک ڈاؤن نہیں ہے۔ انفیکشن گاؤں-گاؤں پہنچ گیا ہے، جہاں میڈیکل ڈھانچہ مضبوط نہیں ہے۔ جہاں جانچ بھی آسانی سے نہیں ہوپارہی ہے۔ گاؤں گاؤں تک میڈیکل ڈھانچہ کو وسعت دینا بھی ابھی کسی آفت سے کم نہیں ہے۔ ابھی انفیکشن کو فوری روکنے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں ٹیکہ کاری بھی کام نہیں آئے گی۔ ابھی تک 9فیصد لوگوں کو ہی ایک خوراک نصیب ہوئی ہے۔ ہم ویکسین بھی کم بنارہے ہیں، کیوں کہ ہمارے پاس اس کے لیے پورامٹیریل بھی نہیں ہے۔ ہم ابھی ہر ماہ 15کروڑ لوگوں کو ویکسین دینے کی حالت میں نہیں ہیں۔ یہ سال خطرے سے خالی نہیں ہے۔
اب حکومت کو آگے آکر اس میں جہاں جہاں کام رک گیا، بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے، وہاں وہاں مدد کرنی چاہیے۔ غریب لوگوں کو اس وقت مدد کی بہت ضرورت ہے۔ مفت اناج، علاج ضروری ہے۔ غریب لوگ گزشتہ سال بڑی مصیبت میں چلے گئے تھے۔ اس طرح کا بحران اگر پھر آیا تو بہت زیادہ پریشانی ہوجائے گی۔ ابھی لوگ انفیکشن سے ہی پریشان ہیں اور جب کھانے پینے کی کمی ہوگی تو لوگوں کی پریشانی بہت بڑھ سکتی ہے۔ ماہرین بتارہے ہیں تقریباً 70-80لاکھ لوگوں نے روزگار گنوایا ہے، لیکن میرا ماننا ہے کہ اس سے دس گنا زیادہ لوگوں نے کام گنوایا ہے۔ گاؤوں سے جو خبریں آرہی ہیں، وہ خوفناک ہیں۔ اس کا اثر زراعت پر بھی پڑے گا۔ حکومت کو گاؤوں تک مدد پہنچانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ لوگوں کی مایوسی کو دور کرنے کے لیے حکومت کو ہی قدم اٹھانے پڑیں گے۔ آربی آئی کے اقدام کچھ دور تک کارگر ہوں گے، لیکن باقی سب حکومت کو ہی کرنا پڑے گا۔
(مضمون نگار ماہرمعاشیات ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)