کورونا وائرس کی دوسری لہرنے جہاں ہندوستان میں نظام صحت کی ناکامی پر مہر لگادی ہے، وہیں انسانیت، اخلاق و مروت، خوش خلقی، امداد و تعاون جیسے مسلمہ انسانی اصولوں کو بھی دار پر چڑھادیا ہے۔ بحران اورا بتلا کی اس گھڑی کو موقع پرستوں کا ایک گروہ اپنی تجارت و منافع کا آخری موقع سمجھ کر متاثرین کو لوٹنے اور اپنا گھر بھرنے کی کوشش میں ہے۔ اسپتالوں میں مریضوں کیلئے نہ تو بستر دستیاب ہیں، نہ آکسیجن اور نہ ہی ریمڈیسیور نامی وہ دوا جو اس موذی مرض کا علاج سمجھی جارہی ہے، باوجود اس کے اسپتال پہنچنے والے مریضوں سے زبردستی پہلے لاکھوں روپے جمع کرالیے جارہے ہیں اور پھر بستر اور دوا نہ ہونے کا عذر پیش کرکے انتظار کا لمبا وقت دیاجارہاہے۔ بے کاری اور بے روزگاری جھیلنے والے ایک عام سے کنبہ کیلئے اپنے مریض کی خاطر لاکھوں روپے کا بندوبست کرنا ہی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا ہے اور اس رقم کا انتظام کرنے میںپورے خاندان کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔اس کے بعد اگر مریض جانبر نہ ہوسکے تو اسپتال سے آخری آرام گاہ تک کے سفر میں ہر قدم پر ڈاکوئوں کا ایک گروہ لوٹنے کیلئے کمر بستہ کھڑا ہے۔ پہلے ہی قدم پر ایمبولینس والے لاش کو آخری آرام گاہ تک لے جانے کیلئے جتنی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں، وہ سن کر ہی ہوش اڑ جاتے ہیں۔اگلے مرحلہ میں شمشان گھاٹ اور قبرستان میں لاشو ں کی طویل قطار سے سابقہ پڑتا ہے۔آج حال یہ ہوگیا ہے کہ لاشو ں کو کاندھادینے کیلئے بھی موٹی رقم دینی پڑرہی ہے۔پھر ٹوکن دے کر رات رات بھر انتظار کرنے کے بعد لاشوں کی آخری رسوم کی ادائیگی ہوتی ہے۔اس کیلئے بھی بھاری بھرکم رقم کی ضرورت پڑرہی ہے، یہ رقم نہ ہونے کی صورت میںلاشیں یوں ہی کھلے آسمان کے نیچے پرندوں کی ضیافت کاسامان بن رہی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ملک کا نظام ان معاملات سے نمٹنے میں پوری طرح ناکام ہوچکا ہے۔کہنے کو تو مرکزی اور ریاستی حکومت نے کورونا انفیکشن کے علاج کیلئے باقاعدہ ریٹ لسٹ جاری کر رکھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر خوش قسمتی سے کسی اسپتال یا نرسنگ ہوم میں جگہ مل رہی ہے تو وہاں ایک دوسری بلا منہ کھولے نگلنے کو تیار کھڑی ہے، اس سے پہلے گھر سے اسپتال پہنچانے کیلئے ایمبولینس ڈرائیوروں کی لوٹ مار مریضوں اورا ن کے اہل خانہ کا حوصلہ آزماتی ہے۔ فقط دو چار کلومیٹر کے فاصلہ کیلئے 10-10ہزارروپے طلب کیے جارہے ہیں۔ عوام کی رسائی سے دور ہوچکے آکسیجن، ریمیڈیسیور، آکسی میٹر اور دوسری دوائوں کی بلیک مارکیٹنگ سے سابقہ پڑرہا ہے۔ ایک ایک انجکشن کی منہ مانگی قیمت دینی پڑرہی ہے۔ بعض اسپتالوں میں تو ایسے ایسے انسانیت سوز واقعات بھی سننے میں آرہے ہیں کہ انجکشن کی خالی شیشی میں پانی یا ہم رنگ دوسرامائع بھر کر انجکشن کے نام پر مریضوں کو لگادیاجارہاہے۔اس قبیح اور حیوانی حرکت کی وجہ سے بھی درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ دوائوں او ر انجکشن کی بلیک مارکیٹنگ اور ان میں ملاوٹ کے یہ واقعات بتارہے ہیں کہ کورونا کی یہ وبا انسانوں سے انسانیت کا جوہر بھی چھین رہی ہے۔اس پر ستم یہ کہ نظام کی بے حسی اور بے غیرتی نے بھی لوگوں کو خون کے آنسو رلا رکھا ہے۔کسمپرسی کا یہ عالم ہے کہ روتے بلکتے مریضوں اورا ن کے اہل خانہ کی چیخ پکار، نالہ و شیون بھی حکومت کے کانوں سے ٹکرا کر واپس آرہی ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب انسان کوپہلے سے کہیں زیادہ ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہے، یہ لوٹ مار، بلیک مارکیٹنگ اور موقع پرستی انسانیت کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے۔ اگر ہمیں اس وبا اور بحران کی زد سے نکلنا ہے تو ہمیں خودغرضی، لالچ اور ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر انسانیت کا احترام کرتے ہوئے ہر شخص کے جان و مال کے تحفظ کو اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی اور کورونا مریضوں اور ان کے لواحقین کے ساتھ صحیح انسانی رویہ اپناناہوگا۔ یہ رویہ ہی انسانوں سے جہاں کورونا کا خوف دور کرنے کا سبب بنے گا، وہیں ان کے اندرا س موذی مرض سے لڑائی کا حوصلہ بھی پیدا کرے گا۔
[email protected]
کورونا کہیں انسانیت کا جوہر بھی نہ چھین لے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS