محمد فاروق اعظمی
ہندوستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ باجے گاجے اور دھوم دھڑکا کے ساتھ شروع کیاجانے والا ہر کام اپنے انجام اور نتیجہ کے لحاظ سے عوام پر انتہائی منفی اور خطرناک اثر مرتب کرتا ہے۔ نوٹ بندی کا معاملہ ہو یا پھر دوسرے ملکوں سے بلیک منی لانے کی بات ہو، اس کے اثرات سے اب تک ہندوستان کے عوام کو نجات نہیں مل پائی ہے یہی صورتحال جی ایس ٹی کی بابت بھی ہے۔ چھوٹے اور درمیانی درجہ کی صنعتوں بالخصوص گھریلو صنعتوں پر ایسی تباہی آئی کہ اب تک اس سے نجات کی کوئی راہ نہیں سجھائی دی ہے۔ کورونا سے بچائو کیلئے بھی گزشتہ سال تالی اور تھالی پیٹی گئی لیکن کورونا قابو میں آنے کے بجائے ایسا قہر ناک اور غضب ناک ہوا ہے کہ اب تک روزانہ ہزاروں افراد کو اپنا نوالہ بنا رہاہے۔ یومیہ4000کے قریب اموات ہورہی ہیں اور 4لاکھ افراد کے قریب اس سے متاثر ہورہے ہیں۔
کورونا کی اس غضب ناک لہر کا رخ موڑنے کیلئے حکومت نے بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ ٹیکہ اتسو کا اعلان کیا تھا اور اس کی تشہیر پر کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ حکمرانوں نے اس اتسو کو کورونا سے نمٹنے کا تیر بہدف نسخہ بتایا اور پورے ہندوستان سے اپیل کی کہ اس میں شامل ہوں اور ہرشخص کو ٹیکہ لگوا ئیں لیکن جیسا کہ روایت رہی ہے اس ٹیکہ اتسو کا بھی انجام عبرت ناک ہوا اور آج ملک کی کم و بیش مکمل آبادی ٹیکہ کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہے۔ ٹیکہ عنقا ہوگیا ہے۔
اب تک کی تحقیقات کے مطابق ٹیکہ کاری ہی کورونا انفیکشن سے بچائو کی آخری تدبیر ہے اور یہ تدبیر ہر ہندوستانی اختیار کرنا چاہتا ہے۔ لوگ اپنی جان بچانے کیلئے ٹیکہ مراکز کی طرف بھاگ رہے ہیں مگرحقیقت یہ ہے کہ ٹیکہ اتسو اور ٹیکہ کاری مہم کی بھاری قلت نے عوام کے ہوش اڑا رکھے ہیں۔ قطار میں پوری رات اور پورا دن کھڑے رہنے کے باوجود ٹیکہ نہیں مل پارہاہے۔اس بیچ مرکزی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی نئی مبہم پالیسی نے بھی ٹیکہ کو نادر بنانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑ رکھی ہے۔ قیمتوں میں کھلا تضاد، مرکز، ریاستی حکومتوں اور نجی اسپتالوں کیلئے الگ الگ قیمت بھی عوام کیلئے سوہان روح بنی ہوئی ہے۔ریاستی حکومتوں کا الزام ہے کہ مرکز ان سے امتیازی سلوک کررہاہے۔ویکسین کی قیمتوں کا معاملہ اتنا سنگین ہوگیا ہے کہ اب ملک کے سپریم کورٹ کو بھی اس میں مداخلت کرنی پڑرہی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت سے سوال کیا ہے کہ ویکسین کی قیمتوں میں یہ فرق کیوں ہے ؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ویکسین اور آکسیجن کے معاملے میں ایک قومی ٹاسک فورس بنائے اور کورونا سے لڑائی میں آڑے آنے والی پالیسی کے سقم دور کرے۔ حکومت کو یہ بنیادی بات سمجھنی ہوگی کہ جب تک بغیر کسی امتیاز کے ہر ہندوستانی کو ویکسین نہیں مل جاتی ہے تب تک کوئی بھی ہندوستانی محفو ظ نہیں رہے گا۔
ویکسین کے تعلق سے ویب پورٹل پر رجسٹریشن کرائے جانے کی پخ لگا کر ملک کی تقریباً نصف آبادی کو ویکسین سے محروم کرنے کی راہ بھی اپنالی ہے۔ عدالت نے اس معاملے میں بھی مرکز سے دریافت کیا ہے کہ ہندوستان میں ناخواندہ افراد کی بھاری تعداد جوویب پورٹل استعمال نہیں کرسکتی ہے وہ ویکسین کیلئے رجسٹریشن کیسے کراسکتی ہے؟ سپریم کورٹ کے جج جسٹس چندرچوڑ نے مرکزی حکومت سے یہ جاننا چاہا ہے کہ ان پڑھ اور ناخواند ہ لوگوں کیلئے ویکسین کے کیا انتظامات کیے گئے ہیں کیوں کہ ویکسین کیلئے ایپ پر رجسٹریشن ضروری ہے۔ عدالت نے ویکسین کی گراں قیمت کو بھی اپنی تنقید کا ہدف بناتے ہوئے کہا ہے کہ غریب لوگ ویکسین خریدنے کیلئے پیسہ کہاں سے لائیں گے؟اپنے ان سوالوں کے ساتھ ہی عدالت نے یہ صلاح بھی دی ہے کہ حکومت قومی ٹیکہ کاری ماڈل اپنائے اور ملک کے تمام شہریوں کو مفت ٹیکہ دینے پر بھی غور کرے کیوں کہ ویکسین کی جو قیمت رکھی گئی ہے وہ غریبو ں کی رسائی سے کافی دور ہے اور وہ ویکسین خرید نہیں پائیں گے۔ دیکھا جائے تو عدالت نے ویکسین کی قلت کے درمیان ویکسین کی قیمت اور اس کیلئے رجسٹریشن پر سوالات اٹھائے ہیں، وہ ملک کے ہر شہری کے دل کی آواز ہے اور ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔ مرکز کی موجودہ کورونا پالیسی میں ویکسین کیلئے ریاستوں سے زیادہ قیمت لی جانی بھی کھلا امتیاز ہے۔مرکز کی نئی ہدایت کے مطابق ریاستوں کو ٹیکہ کو خرید نے کیلئے زیادہ قیمت دینی ہوگی نیز مرکز کی جانب سے ریاستوں کو ملنے والے ٹیکہ کا 50فیصد حصہ پہلی صف کے کورونا واریئر اور45سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو دیا جائے گا۔ باقی کے 50فیصد حصہ کا استعمال ریاستی حکومتیں اپنی صوابدید کے مطابق کریں گی اور ان میں پرائیویٹ اسپتالوں کا بھی حصہ ہوگا۔سپریم کورٹ نے مرکز کی اس پالیسی کے بھی بخیہ ادھیڑ دیے ہیں اور یہ جاننا چاہا ہے کہ 45سے کم عمر کے لوگوں پر مشتمل ملک کی تقریباً50فیصد آبادی جن میں غریب اور خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی اکثریت ہے، انہیں ویکسین دیے جانے کا کیا انتظام کیا گیا ہے نیز یہ پالیسی ان کے تعلق سے خاموش کیوں ہے ؟عدالت نے پالیسی کے اس نقطہ پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ ویکسین بنانے والے نجی ادارے ریاستوں کوویکسین فراہم کریں گے۔ عدالت نے بجا طور پر یہ دریافت کیا ہے کہ نجی اداروں کو یہ اختیار کیسے دیاجاسکتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ کس ریاست کو کتنی ویکسین ملے گی ؟
ویکسین کے اس بحران اور قلت کے درمیان عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت سے جو سوالات پوچھے ہیں، ان کا جواب ہر حال میں ملنا چاہیے۔ ویکسین کی اس قلت کے درمیان بغیر کوئی منصوبہ بنائے 18سال کی عمر تک کے لوگوں کو ویکسین دیے جانے والوں کے دائرہ میں لاکربھی حکومت نے غیر ذمہ داری کا ثبوت تو دیا ہی ہے، اس کے ساتھ ہی اس مرحلہ میں ریاستی حکومتوں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ اسپتالوں کو براہ راست ویکسین کی خریداری کا اختیار دے کر ویکسین کی قیمتوں کو بڑھانے کا ذریعہ بن گئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس کی اس بھیانک اور موذی وبا سے نمٹنے کے معاملے میں مرکزی حکومت ابتدا سے ہی غیرسنجیدہ رہی ہے۔گزشتہ سال جس طرح بغیر کسی پیش بندی اور منصوبہ کے لاک ڈائون لگاکر تالی اور تھالی بجوائی گئی ٹھیک اسی طرح اس سال بھی بغیر کسی منصوبہ اور پیش بندی کے ویکسین پالیسی کا اعلان کردیا گیا ہے۔ ویکسین کی قیمت اور دنیا میں سب سے زیادہ مہنگی ویکسین ہندوستان میں بیچاجانا بھی مرکز کی اسی ناقص ویکسین پالیسی کا نتیجہ ہے۔ویکسین کی پیداوار اور دستیابی یقینی بنانے کے بعد اگر اس پالیسی کا اعلان کیاجاتا تو آج پورے ملک میں ویکسین کیلئے ہاہاکار نہیں مچتا۔ عجلت میں بغیر کسی تیاری کے بڑ بولے پن کا ہی نتیجہ ہے کہ ویکسین عنقا ہوگئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ویکسین اور آکسیجن کے معاملے میں ایک قومی ٹاسک فورس بنائے اور کورونا سے لڑائی میں آڑے آنے والی پالیسی کے سقم دور کرے۔ حکومت کو یہ بنیادی بات سمجھنی ہوگی کہ جب تک بغیر کسی امتیاز کے ہر ہندوستانی کو ویکسین نہیں مل جاتی ہے تب تک کوئی بھی ہندوستانی محفو ظ نہیں رہے گا۔
[email protected]