کورونا وبا سے جیت کی تیاری کتنی پختہ؟

0

اُپیندررائے

ہندوستان جیسی کثیرآبادی والے ملک میں کورونا وبا کی دوسری لہر گردش زمانہ کے اس دروازہ کی شکل میں بدل گئی ہے، جسے تباہی کی آمد میں منتظر مانا جارہا ہے۔خوفناک صورتحال، روزانہ کسی اپنے کو کھونے کا ڈر، فیملی کے تئیں فکر اور حالات کا دباؤ، ہر شخص اس کا تجربہ کررہا ہے۔ خوف کی حالت کے باوجود اس دور میں خیالات کی ندی الزام تراشی کا سیلاب لے کر بہہ رہی ہے۔ ایسے میں اس دور میں سوال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ مہلک وائرس کے سبب بنے حالات کے لیے قصوروار کون ہے یا کس نے اپنی ذمہ داری سے منھ پھیرا؟ بلکہ مستقبل کو سنوارنے کے لیے فکری قوت کا استعمال راحت کی سمت طے کرنے کے لیے ہونا چاہیے۔ خود سے سوال پوچھا جانا چاہیے کہ کورونا وبا سے مستقبل میں جنگ لڑنے کے لیے ہم کتنے تیار ہیں؟ افراتفری کے اس ماحول میں سوالات کی سونامی آئی ہے، مگر اونچی لہروں کے جواب تجسس کو پرسکون کرسکتے ہیں، اس لیے انہیں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کورونا کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے ہم کتنے تیار ہیں؟ اس کا جواب حال کی زمین پر رکھے گئے سسٹم کی بنیاد سے ملتا ہے۔ کورونا وبا کی جس مدت میں انسانیت کے اوپر بحران منڈلا رہا ہے، وہاں خستہ حال سسٹم کے مناظر روزانہ تباہی کی نزدیکی کا احساس کرارہے ہیں، لیکن یہ مکمل سچ نہیں ہے۔ آکسیجن کی کمی، اسپتالوں میں بستروں کی کمی، ریمڈیسیور دوا کی قلت، شمشان میں جلتی چتاؤں کا ریلا، نعشوں کی بے حرمتی دیکھ کر جس غصہ سے ذہن بھررہا ہے، وہ حقیقت ہوتے ہوئے بھی نامکمل ہے۔ مرکزی حکومت نے ہر سسٹم کا بلیوپرنٹ بنایا ہے، ریاستی حکومتوں کو مرکز کے بنائے ضوابط پر عمل کرنا ہے۔ لیکن ریاستی حکومتوں نے پالیسی پر عمل آوری کی ذمہ داری اس انتظامی عملہ کو سونپ دی، جس کے بوتے کبھی کوئی سسٹم درست نہیں ہوا، اور کچھ بہتر ہونے کی امید بھی بے معنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخرکار وزیراعظم مودی کو ہی سسٹم کی باگ دوڑ ہاتھ میں تھامنی پڑی اور آہستہ آہستہ گاڑی پٹری پر لوٹتی نظر آرہی ہے۔ رہی بات جنگ کو جیتنے کی تو وسائل کی تیزی سے ترقی، محدود پیداوار کو رفتار دینا، دنیا کو انسانیت کا سبق سکھانے اور دوستانہ تعلقات سے دل جیتنے کے بعد امید کے مطابق مدد بھی مل رہی ہے جو اس جنگ میں جیت کے مثبت اشارے ہیں۔ یعنی حکومت کی سطح پر تیاری پوری ہے، صرف تیار نہیں ہیں تو منفی توانائی سے بھرے لوگ۔ جس دن ملک کے عوام اپنی اپنی سطح پر وائرس کے خلاف کھڑے ہوں گے، اسی دن وبا پر جیت طے ہوجائے گی۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا کورونا وبا کی اس تباہ کن حالت کے لیے صرف مرکز ذمہ دار ہے؟ اس کا جواب تلاش کرنے سے پہلے اس کی تخلیق کا سبب سمجھنا ہوگا؟ سوال اس لیے پیدا ہوا، کیوں کہ کورونا وبا کی پہلی لہر میں جب مرکزی حکومت نے معیشت کو ترجیح کے دوسرے خانہ میں رکھ کر سخت فیصلے لیے، تب کورونا سے متاثرین کے اعدادوشمارنومبر2020 سے ڈھلان کی جانب گئے۔ حالات پر قابو پانے کے بعد مرکزی حکومت نے ریاستی حکومتوں کو اپنی اپنی سطح پر سسٹم بنانے کی ذمہ داری سونپی اور مرکز مستقبل کے منصوبوں پر کام کرنے لگا۔ جس میں نہ صرف ملک کے شہریوں بلکہ دنیا کے عام لوگوں کی زندگی کے مکمل تحفظ کے لیے ویکسین سے وابستہ تیاری تھی، انحطاط کی شکار معیشت کو بھی ترقی کی چوٹی تک لے جانے کا منصوبہ تھا۔ یہ سسٹم ایک حکمت عملی کے تحت بنا تھا، لیکن ریاستی حکومتوں نے اس دوران مستقبل کے بحران کو نظرانداز کیا اور جب دوسری لہر میں پانی سر سے اوپر چلا گیا تب ساری ذمہ داری مرکز پر ڈال دی۔ یہی سبب ہے کہ دہلی ہائی کورٹ نے دہلی حکومت کو پھٹکار لگاتے ہوئے یہی تبصرہ کیا کہ ’مرکز کو ذمہ دار ٹھہراکر ریاستی حکومت اپنا پلّہ نہیں جھاڑ سکتی۔‘ عدالت کا یہ تبصرہ ملک کی ہر ریاست پر نافذ ہوتا ہے پھر چاہے وہاں حکومت کسی بھی پارٹی کی کیوں نہ ہو۔

اب حالات دھماکہ خیز ہیں، لیکن بہت زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ کورونا وبا کے خلاف جنگ کے نتائج ہر حکومت اپنے حق میں کرسکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ ٹھوس حکمت عملی بناکر اسے سختی سے عمل میں لانا ہوگا۔ حالاں کہ کورونا سے کراہ رہے مہاراشٹر اور دہلی میں لاک ڈاؤن لگاکر انفیکشن کی چین کو توڑنے کی کوشش تو کی گئی ہے لیکن اس مرتبہ زیادہ ڈھیل دی گئی ہے۔ لاک ڈاؤن میں بازار بند ہیں، ماسک نہ لگانے پر جرمانہ بھی ہے، لیکن گھر سے باہر نکلنے والوں پر سختی نہیں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ان حالات کے لیے ریاستی حکومتیں بھی ذمہ دار ہیں تو وہ کیا کرسکتی تھیں؟ اس کا جواب ریاستی حکومت کے دائرہ میں آنے والے سسٹم سے ملتا ہے۔ جب پہلی لہر میں ہی سسٹم کے خستہ حال ہونے کا خدشہ تھا تو ریاستی حکومتوں کو اپنی سطح پر ریاست کی آبادی کی بنیاد پر مستقل یا متبادل سسٹم بنانا چاہیے تھا۔ جب انفیکشن کی شرح کم ہوئی، تبھی ریاستوں کو صحت کی سہولتیں بہتر بنانے میں طاقت جھونکنی چاہیے تھی۔ اسپتالوں میں بیڈ کی تعداد بڑھائی جاسکتی تھی، متبادل یا عارضی اسپتال بنائے جاسکتے تھے۔ مرکز کے میڈیکل استعمال کے لیے بنائے گئے آکسیجن کے کوٹے کو صنعت کاروں کو دینے کے بجائے اس کا ذخیرہ کیا جاسکتا تھا۔ مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کسی بھی ریاستی حکومت نے کورونا دور میں ملی راحت کا استعمال صحت خدمات کو مضبوط کرنے میں نہیں کیا۔ یہاں تک کہ کووڈ مریضوں سے بھرے جو اسپتال خالی ہوئے ان کے کووڈ سینٹر بند کردیے گئے اور یہی غلطی ریاستوں پر بھاری پڑی۔
اب حالات دھماکہ خیز ہیں، لیکن بہت زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ کورونا وبا کے خلاف جنگ کے نتائج ہر حکومت اپنے حق میں کرسکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ ٹھوس حکمت عملی بناکر اسے سختی سے عمل میں لانا ہوگا۔ اس کے لیے ریاستوں کو جنگی سطح پر متبادل نظام تیار کرنے کے ساتھ ہی لوگوں کو پہلی لہر کی طرح ایک دائرہ میں محدود کرنا پڑے گا۔ حالاں کہ کورونا سے کراہ رہے مہاراشٹر اور دہلی میں لاک ڈاؤن لگاکر انفیکشن کی چین کو توڑنے کی کوشش تو کی گئی ہے لیکن اس مرتبہ سختی سے زیادہ ڈھیل دی گئی ہے۔ لاک ڈاؤن میں بازار بند ہیں، ماسک نہ لگانے پر جرمانہ بھی ہے، لیکن گھر سے باہر نکلنے والوں پر سختی نہیں ہے۔ لوگ بہانہ بناکر گھروں سے نکل رہے ہیں اور انفیکشن کے لیے گھر کے دروازے کھول رہے ہیں۔ اب سوال ضمیر سے پوچھئے کہ بگڑے حالات کا قصوروار کون ہے مرکزی حکومت یا ریاستی حکومتیں؟
ایک سوال یہ بھی ہے کہ ملک میں آکسیجن کی سپلائی میں پریشانی کیوں ہے، جب کہ آکسیجن دستیاب کرانے کی ذمہ داری مرکزی حکومت کے پاس ہے؟ اس کا جواب کچھ ریاستی حکومتوں کی وہ غلطی ہے، جس میں دوراندیشی کی کمی تھی۔ کورونا دور سے پہلے ملک میں آکسیجن کی پیداوار کی روزانہ صلاحیت 6,500میٹرک ٹن تھی، جسے 10فیصد بڑھاکر 7,200میٹرک ٹن کردیا گیا تھا۔ اس سے ان ریاستوں کی دقت تو ختم ہوگئی جو آکسیجن کی پیداوار کرتی ہیں، لیکن ان ریاستوں کے مسائل میں اضافہ ہوگیا، جہاں آکسیجن کا کوئی پلانٹ نہیں ہے۔ مثال کے لیے دہلی کو لے لیجیے۔ دہلی حکومت کو آکسیجن کی بڑھتی کھپت سے مستقبل کی حالت کا اندازہ لگا لینا چاہیے تھا، بھلے ہی آکسیجن پلانٹ نہ لگائے، لیکن ٹینکر کا انتظام کرکے رکھنا چاہیے تھا، ان ٹینکروں کے ذریعہ سرپلس آکسیجن والی پیداواری ریاستوں سے سپلائی کی جاسکتی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اترپردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان، پنجاب اور مہاراشٹر نے بھی ایسا ہی کیا۔ یہاں تک کہ ان میں سے جن ریاستوں کے پاس آکسیجن پیداوار کی صلاحیت ہے، انہوں نے اسے بڑھانے یا اسٹور کرنے کی زحمت تک نہیں اٹھائی۔ اور جب حالات بے قابو ہوئے تو ریاستوں نے مرکزی حکومت سے اپیل کی جس کے بعد اس نے محاذ سنبھالا۔
حالات پوری طرح نارمل بنانے میں ابھی کئی اور چیلنجز ہیں۔ ان میں پہلا چیلنج ہے عام لوگوں کی لاپروائی پر قدغن۔ یہ اکلوتا ایسا چیلنج ہے، جس سے نمٹنے کا مطلب ہی ہے، ملک سے کورونا وبا کا خاتمہ۔ یعنی کووڈ پروٹوکول کی تعمیل کو لے کر لوگوں پر سختی کرنی ہوگی۔ لیکن 130کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک میں یہ اتنا آسان نہیں نظر آتا۔ اب دوسرے چیلنجوں کو سمجھئے:- بہتر علاج کے وسائل کو اکٹھا کرنا، اسپتالوں کی بڑی تعداد میں تعمیراور ترقی، زیادہ سے زیادہ ڈاکٹروں کو کورونا وبا کے علاج کے لیے تیار کرنا، صنعتی گھرانوں کو کارپوریٹ سوشل رسپانسی بلیٹی کے لیے پابند کرنا، روزگار کی تلاش میں ہجرت کرنے والوں کے لیے اپنی ہی ریاست میں روزگار کا انتظام کرانا اور ویکسین کی مہم کو رفتار دینا۔ طے ہے کہ کورونا دور کے ان چیلنجوں کا سامنا کرنا کچھ بہتر سبق بھی دے گا۔
سوال یہ بھی ہے کہ موجودہ حالت میں ملک کی ڈیمانڈ کیا ہے؟ اس کا جواب ماضی میں بنائے گئے سسٹم میں پوشیدہ ہے۔ لاپروائی کا سب سے بڑا سبب ہے کمزور تعلیمی نظام۔ آج بھی ہم پریکٹیکل نالج کو کم اہمیت دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ سکینڈری اسکولوں میں جغرافیہ اور سائنس کی ایجاد ہوتی ہے اور ہائراسکولوں میں تاریخ کی معلومات۔ اس کے بعد کہیں جاکر دلچسپی کے مطابق موضوع کے انتخاب کا حق ملتا ہے۔ حالاں کہ یہ تعلیم بھی ضروری ہے، لیکن ترجیح ماضی سے زیادہ مستقبل کو دینے کی ہے۔ ایک بہتر تعلیمی نظام اسے ہی کہا جاسکتا ہے جس میں نرسری کی ہی سطح پر پریکٹیکل نالج کو مضبوطی ملے اور اسی سطح سے بچوں کی دلچسپی کو پہچان کر اسے مستقبل کے لیے تیار کیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کورونا دور میں نرسنگ اور میڈیکل اسٹوڈنٹس بھی پوری صلاحیت سے خدمات دے سکتے تھے۔ کیوں کہ ان میں پیشہ وارانہ جذبات سے زیادہ خدمت کا جذبہ ہوتا۔ وبا کے ڈر سے زیادہ متاثرین کا ڈر دور کرنے کی صلاحیت ہوتی۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ آفت کے اس وقت میں نرسنگ اور میڈیکل اسٹوڈنٹ کی خدمت نہ لینے کا سبب صرف تجربہ کا نہ ہونا ہے۔ کاش، ہم نے شروعات میں ہی ان طلبا میں خدمت کا ایسا جذبہ بھرا ہوتا تو باصلاحیت ملک میں آج حالات اتنے پیچیدہ نہ ہوتے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS