جاوید اختر بھارتی
رمضان المبارک کا مہینہ اپنے اندر بے پناہ رحمتیں اور برکتیں سمیٹے ہوئے ہے۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی بیشمار رحمتوں کا نزول ہوتا ہے نوافل، سنن، فرائض کے درجات بلند کردیئے جاتے ہیں۔خود اللہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزا میں ہی دونگا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو رمضان المبارک جیسا مہینہ تحفہ کے طور پر عطا فرمایا ہے تاکہ بندہ اپنے گناہوں سے توبہ کر کے اللہ کی خوشنودی حاصل کرے، متقی اور پرہیزگار بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان کا مہینہ آتے ہی مسلمانوں کے چہروں پر رونق آجاتی ہے اور ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں کے دل حسرت و شادمانی سے جھوم اٹھتے ہیں۔ ایمان میں تازگی اجاتی ہے م،مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے ،پورا پورا دن لوگ ذکر و اذکار اور قرآن مقدس کی تلاوت میں مصروف رہتے ہیں۔ تراویح کا اہتمام ہوتا ہے گویا رمضان المبارک کا مہینہ بندوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم الشان تحفہ ہے کہ نوافل کی ادائیگی کرو فرض کے برابر ثواب پاؤ، سنت کی ادائیگی کرو فرض کے برابر ثواب حاصل کرو ایک فرض ادا کرو ستر فرض کے برابر ثواب پاؤ اور یہ تحفہ اس رب ذوالجلال کی طرف سے ہے جس کے لفظ کن سے پوری دنیا کا وجود ہوا جس کی شان یہ ہے کہ اسے کچھ کرنا اور بنانا ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ’’ کن‘‘ یعنی ہوجاتو ’’فیکون‘‘ یعنی ہو جاتا ہے۔
یہ ہمیں مکمل بھروسہ ہونا چاہئے کہ بیشک اللہ ہی مددگار ہے، وہی زندگی اور موت کا مالک ہے، وہی رزاق ہے ،پورا عالم اس کا محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ باقی ایام میں بندہ نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلتے ہی لڑائی جھگڑا، گالی گلوج کرنے لگتا ہے لیکن روزہ کی حالت میں وہ کہتا ہے کہ جاؤ میں بحث و مباحثہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں روزے سے ہوں۔
اس کی شان اس کی قدرت کا کیا کہنا جس نے زمین اور آسمان بنایا زمین پر سبزہ اْگایا اس کا توازن برقرار رکھنے کے لئے پہاڑوں کو پیدا کیا آسمان کو چاند سورج ستاروں جیسے گل بوٹوں سے سجایا، جس نے جنت و جہنم بنایا۔ اپنے بندوں کو اپنے خوف سے ڈرانے کے لیے اور اپنا نظام سمجھانے کے لئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام کو بھیجا۔ اور سب سے آخر میں تاجدار انبیاء رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا جنہیں سید الانبیاء بنایا، انکو جو کتاب دی اسے ام الکتاب کہا، جس بستی میں مبعوث فرمایا اس بستی کو آم القریٰ کہا اس کی طرف سے آفر ہے کہ آؤ میری بارگاہ میں توبہ کرو، گناہوں کی معافی مانگو میں تمہیں مالا مال کروں گا۔ تمہارے گناہوں کو بخش دونگا تم میرے محبوب کی امت ہو تمہیں میں نے خیر امت کا لقب دیا ہے ۔ رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی نیکیوں کی کھیتیاں لہلہا نے لگتی ہیں۔ یعنی رمضان کا مہینہ اللہ کی طرف سے بندوں کیلئے حیات نو کا پیغام لیکر آتا ہے، بخشش و نجات کا سامان لیکر آتا ہے ۔اللہ رب العالمین کو اپنے بندوں سے کس قدر پیار ہے یہ سوچنے کی بات ہے ۔باقی ایام میں بندہ مختلف کاموں میں مصروف رہتاہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو شب عاشورہ، شب برأت، شب قدر، یوم عرفہ، شب معراج جیسا عظیم موقع عطا فرمایا ہے کہ آؤ ان راتوں میں عبادت کرکے میرا قرب حاصل کرلو جنت کے حقدار بن جاؤ اور جب بندہ اپنے پروردگار کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان مواقع پر اپنی پیشانیوں میں سجدوں کی تڑپ پیدا کرتا ہے اور دلوں میں خدا کا خوف پیدا کرتا ہے اور اپنی آنکھوں سے خوف خداوندی کی بنیاد پر آنسو بہاتا ہے تو رب کریم اتنا خوش ہوتا ہے کہ اسے شام ہوتے ہی مختلف لوازمات سے سجاکر افطار کیلئے دسترخوان عطا فرماتا ہے اور ایک دن اسے عید الفطر اور عیدالاضحیٰ جیسے عظیم الشان خوشی کا ماحول و تہوار بھی عطا فرماتا ہے۔
یہ اس کی شان کریمی ہے، یہ اس کے اعلان و آفر اور وعدے کی شان ہے،، دنیا کا بڑے سے بڑا پاور فل انسان بھی رمضان المبارک کے علاوہ کسی اور مہینے میں مسلسل تیس دنوں تک شام کے وقت ویسے ہی کھانے پینے کا انتظام کرے جیسا رمضان کے مہینے میں مسلسل تیس دنوں تک کرتا ہے تو بہت مشکل ہے ۔ماہ رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کی سب سے بڑی دلیل ہی ہے وقت افطار اور اہتمامِ افطار جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا اور جب وقت افطار ہوتا ہے تو روزہ دار دسترخوان سجانے کے بعد بھی نہیں کھاتا ہے بلکہ حکم خداوندی کا انتظار کرتا ہے توا اس وقت رب تبارک و تعالیٰ کہتا ہے کہ دیکھو میرا بندہ سب کچھ دسترخوان پر سجالینے کے بعد بھی نہیں کھا رہا ہے بلکہ میرے حکم کا انتظار کررہا ہے اسی وجہ سے اس وقت میرے اور بندے کے بیچ کوئی پردہ نہیں ہوتا، کوئی فاصلہ نہیں ہوتا میرا بندہ جو مانگتا ہے میں اسے عطا کرتا ہوں۔
یہ ہمیں مکمل بھروسہ ہونا چاہئے کہ بیشک اللہ ہی مددگار ہے، وہی زندگی اور موت کا مالک ہے، وہی رزاق ہے ،پورا عالم اس کا محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ باقی ایام میں بندہ نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلتے ہی لڑائی جھگڑا، گالی گلوج کرنے لگتا ہے لیکن روزہ کی حالت میں وہ کہتا ہے کہ جاؤ میں بحث و مباحثہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں روزے سے ہوں، روزے کی حالت میں فریج کھول کر دیکھتا ہے کہ سیب، انار، کھجور، انگور وغیرہ رکھے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی ہاتھ نہیں لگاتا کہ چاہے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے مگر میرا پروردگار دیکھ رہا ہے اور خداوند قدوس کا خوف ہی اصل تقویٰ ہے ۔
روزہ رکھنے سے یہ سبق ملتا ہے کہ تم باقی دنوں میں بھی اسی طرح اللہ سے خوف کھاؤ تو بہت سی برائیوں اور خرافات سے بچ سکتے ہو۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ روزہ انسان کو بالخصوص مسلمان کو متقی اور پرہیزگار بناتا ہے ۔ اللہ رب العالمین ہمیں رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں سے مالا مال فرمائے اور عالم انسانیت پر رحم و کرم کی بارش فرمائے ،سسکتی ہوئی انسانیت کو چین و سکون عطا فرمائے، کورونا وائرس جیسی عالمی وبا سے محفوظ فرمائے۔luq