محمد صابر حسین ندوی
رمضان ا لمبارک کا قرآن مجید سے گہرا ربط ہے، قرآن مجید کی تلاوت رمضان میں افضل ترین عمل ہے، اسی لئے اس کی تلاوت کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ بات مشاہدہ میں ہے کہ عموماً رمضان میں گھر گھر سے قرآن مجید کی تلاوت اور بقدر استطاعت خوش الحانی کے ساتھ پڑھنے کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں۔ فجر کی نماز کے بعد سے لیکر تراویح تک گویا ماحول قرآنی ہی رہتا ہے۔ مسجدوں میں عمدہ قاری، نوسکھیا، آزمودہ اور نوخیز ہر طرح کے تلاوت خواں موجود رہتے ہیں۔ جنہیں قرآن مجید پڑھنا نہیں آتا وہ کسی قاری کے پاس بیٹھ کر سننا پسند کرتے ہیں۔ بالخصوص تراویح کی نماز میں قرآن سننے کا بندوبست خوب تر کیا جاتا ہے کیونکہ ماہ رمضان قرآن کا مہینہ ہے۔ اسی ماہ مقدس میں یہ مقدس ترین کلام اتارا گیا تھا جس سے پوری انسانیت کی ہدایت، روشنی اور سیدھی راہ کا کام لیا جانا ہے۔ جو ابد تک ابن آدم کیلئے دستور حیات، مالک حقیقی کی جستجو اور انسانیت کیلئے در رحمت کا دروازہ ہے۔ جب تک دنیا اس سے قربت حاصل نہ کرلے اسے اپنا آئین اور قانون نہ مان لے تب تک کوئی حقیقی انقلاب رونما نہیں ہوسکتا۔ اس انقلابی کتاب کے نزول کا یہ مہینہ شاہد ہے۔ اس بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے ’’ماہِ رمضان وہی مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو کہ لوگوں کے لیے رہنمائی، ہدایت اور حق و باطل میں تفریق کی نشانیوں(پر مشتمل) ہے(بقرہ:185) ۔ دراصل ’ فرقان ‘ وہ چیز ہے جو حق و باطل کے درمیان اچھی طرح فرق کردے۔ دنیا میں جتنی مذہبی کتابیں ہیں، خواہ قرآن مجید نے ان کی تصدیق کی ہو یا نہ کی ہو، وہ انسانی آمیزشوں اور ملاوٹوں کی وجہ سے حق وباطل میں امتیاز کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکی ہیں۔ یہ صرف قرآن ہے کہ خود اللہ تعالیٰ اس کے محافظ ہیں اور وہ قیامت تک کھرے کھوٹے اور حق و باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت کا حامل رہے گا۔
ماہ رمضان قرآن کا مہینہ ہے۔ اسی ماہ مقدس میں یہ مقدس ترین کلام اتارا گیا تھا جس سے پوری انسانیت کی ہدایت، روشنی اور سیدھی راہ کا کام لیا جانا ہے۔ جو ابد تک ابن آدم کیلئے دستور حیات، مالک حقیقی کی جستجو اور انسانیت کیلئے در رحمت کا دروازہ ہے۔ جب تک دنیا اس سے قربت حاصل نہ کرلے اسے اپنا آئین اور قانون نہ مان لے تب تک کوئی حقیقی انقلاب رونما نہیں ہوسکتا۔
سیرت طیبہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں قرآن مجید کی تلاوت کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ ویسے قرآن کریم کی تلاوت، اسے یاد کرنے، سننے اور سنانے کا جو لگاؤ تھا وہ عشق کی حد تک بڑھا ہوا تھا، اسی لئے وحی کے اترتے ہی آپ فوراً اسے دہرانے لگتے۔ قرآن مجید کا بیان ہے’’( اے پیغمبر !) آپ جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان نہ ہلایا کریں، قرآن کا جمع کرنا اوراس کا پڑھانا ہمارے ذمہ ہے، تو جب ہم قرآن پڑھا کریں توآپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں۔پھر اس کی تشریح کرنا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے‘‘ (القیامہ: 17-16) ۔ اس ماہ میں روایات سے ثابت ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہر رات کو آ کر قرآن مجید کا دور کرتے تھے۔ اس حدیث کو بخاری: (5) اور مسلم: (4268) نے روایت کیا ہے۔ اسی طرح بخاری: (4614) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ’’جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر سال ایک بار قرآن مجید سناتے، لیکن جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس سال جبریل نے دو بار قرآن مجید سنایا‘‘۔نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کا معمول ہر روز ایک قرآن ختم کرنے کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابی موصوف کو بلایا اور حسب دستور اس مہینے میں ایک قرآن ختم کرنے کی ہدایت فرمائی۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور اکرمؐ مجھے اس سے زیادہ کی استطاعت ہے اور مجھے حافظ قرآن ہونے کے پیش نظر زیادہ کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے زیادہ اصرار پر پہلے بیس دن‘ پھر دس دن اور آخر میں ہر سات دن کے بعد ایک قرآن ختم کرنے کی اجازت ان الفاظ میں عطا فرما دی ’سات دن میں ایک قرآن پڑھ لیا کرو‘(مسند احمد بن حنبل-2:162) ۔ان روایات سے اس ماہ مقدس میں قرآن مجید کا سننے اور سنانے کی افضلیت ثابت ہوتی ہے، بلاشبہ قرآن سمجھ کر پڑھنا افضل ترین بات ہے لیکن صرف پڑھنا، سننا بھی عبادت اور ثواب سے خالی نہیں ہے۔ جو لوگ قرآن سمجھ کر پڑھتے ہیں وہ دوہرا اجر پائیں گے مگر نرے حفاظ اور پڑھنے والے بھی ثواب کے مستحق ہیں بلکہ وہ “انا لہ لحافظون” کے زمرے میں شامل ہیں۔ بہر حال ان احادیث سے یہ بات کشید کی جا سکتی ہے کہ رمضان میں کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ کثرت سے اسے سنا اور سنایا جائے۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مکمل قرآن مجید سنانا مستحب ہے کیونکہ جبریل علیہ السلام مکمل قرآن مجید آپ کو سناتے تھے۔(فتاویٰ شیخ ابن باز11/331)۔qlu