مغربی بنگال اسمبلی انتخاب اور الیکشن کمیشن کا رویہ

0

محمد فاروق اعظمی

یوں تو سیاسی پارٹیاں الیکشن کمیشن کی کارکردگی پراکثر و بیشتر سوالات اٹھاتی رہی ہیں، بسا اوقات ایسا بھی ہو ا ہے کہ الیکشن کمیشن کو حکمراں پارٹی کادلال تک کہا گیا ہے۔لیکن ایسا کم ہی ہوا ہے کہ کسی عدالت نے الیکشن کمیشن کواس کی کارکردگی پر سرزنش کی ہو۔مغربی بنگال میں ایک مہینہ سے جاری اسمبلی انتخاب کے دوران کورونا کے بڑھتے معاملات سے صرف نظر کرنے کے معاملہ میں کلکتہ ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حالیہ دنوں کافی سخت و سست کہا ہے اوراس کی کارکردگی کو راست طور پر عوام کی دشمنی سے تعبیر کیا ہے۔
کلکتہ ہائی کورٹ نے دو دنوں قبل ایک عرضی کی سماعت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے تعلق سے جو تبصرہ کیا ہے وہ انتہائی اہم ہے اور اس سے کمیشن کی کارکردگی پر شبہات کے بادل چھاگئے ہیں۔ عدالت نے اپنے تبصرہ میں ملک کے سابق چیف الیکشن کمشنرٹی این سیشن کی کارکردگی کی مثا ل پیش کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو کئی ایک مشورے بھی دیے۔ عدالت نے کورونا کی غضب ناک لہروں کے درمیان انتخابی جلسے جلوس کی اجازت دیے جانے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اب بہت ہوچکا ہے۔ اب عوام کو سوچنے کا موقع دیں کہ وہ اپنا ووٹ کس کو دیں گے۔کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ٹی بی این رادھا کرشنن اور جسٹس ارجیت بنرجی کی بنچ نے انتخابی جلسے جلوس پر پابندی لگانے سے متعلق ایک عرضی کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ کورونا پروٹوکول کے تحت انتخابات کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے۔کورٹ نے کہاکہ الیکشن کے دوران کورونا پروٹوکول پریقینی طورپر عمل درآمد کیاجائے۔کلکتہ ہائی کورٹ کے ان ریمارکس نے ملک میں آزادانہ، منصفانہ اور صاف ستھرے انتخابات کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن پر اعتماد کو ہی متزلزل کردیا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ کلکتہ ہائی کورٹ نے پہلی بار الیکشن کمیشن کے کردار پر سوال اٹھائے ہوں، اس سے قبل پنچایت انتخاب 2018 میں بھی کلکتہ ہائی کورٹ ریاستی الیکشن کمیشن کے کام کاج پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کرچکا ہے۔

کلکتہ ہائی کورٹ کا خیال ہے کہ ٹی این سیشن نے جو کیا اس کا دسواں حصہ بھی الیکشن کمیشن نہیں کررہا ہے۔اگر وہ ٹی این سیشن کی طرح اپنی طاقت کا 10 فیصد بھی استعمال کرلیتا تو بنگال میںکورونا کی صورتحال اتنی سنگین نہیںہوتی۔الیکشن کمیشن کو اپنی طاقت کا استعمال کرنا چاہیے اور انتخابی جلسوں پر کارروائی کرنی چاہیے۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ مغربی بنگال اسمبلی انتخاب کے اعلان کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن چاروں طرف سے تنقید کی زد میں ہے۔ کورونا کی قہر سامانی کے درمیان بنگال کی 294سیٹوں پر 8مرحلوں کی پولنگ بھی عوامی سطح پر تنقید کا ہدف بن چکی ہے۔ وزیراعلیٰ اور ترنمول سپریمو ممتابنرجی نے تو کھل کر یہ الزام لگایا ہے کہ طویل ترین پولنگ کا مقصد کسی بھی طرح سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچانا ہے۔کلکتہ ہائی کورٹ نے وزیراعلیٰ کے اس الزام کا بھی اپنے ریمارکس میں ذکر کیا ہے اورکمیشن کی سخت سرزنش کی ہے۔عدالت نے محسوس کیا کہ انتخابی جلسے جلوس کووڈ-19کیلئے ایک سپر اسپریڈر بن سکتے ہیں۔ کورونا سے بچائو کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کی کوششوں کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کلکتہ ہائی کورٹ نے کمیشن سے کووڈ 19-پروٹوکول پر عمل درآمد سے متعلق حلف نامے پر کی جانے والی کارروائی پر بھی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ہائی کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیارات ہیں، لیکن کووڈ19- کے وقت ہونے والے مغربی بنگال کے انتخابات کے بارے میں وہ کچھ نہیں کررہا ہے۔ عدالت یہ محسوس کررہی ہے کہ الیکشن کمیشن محض سرکلر جاری کر رہا ہے اور لوگوں کو چھوڑ رہا ہے، جبکہ الیکشن کمیشن کو ایسی چیزوں کو نافذ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔سابق الیکشن کمشنر آنجہانی ٹی این سیشن کے نام پر عدالت نے الیکشن کمیشن کو جو نصیحت کی ہے وہ عدالتی ریمارکس کو زیادہ اہم بنادیتی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ٹی این سیشن نے الگ سے کچھ نہیں کیا تھا بلکہ آئین میں کمیشن کو دیے گئے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کیاتھا اورتمام سیاسی جماعتوں پر الیکشن کمیشن کی اہمیت واضح کرتے ہوئے پورے ملک میں الیکشن کمیشن کی ساکھ بنائی تھی۔
کلکتہ ہائی کورٹ کا خیال ہے کہ ٹی این سیشن نے جو کیا اس کا دسواں حصہ بھی الیکشن کمیشن نہیں کررہا ہے۔اگر وہ ٹی این سیشن کی طرح اپنی طاقت کا10فیصدبھی استعمال کرلیتا تو بنگال میںکورونا کی صورتحال اتنی سنگین نہیںہوتی۔الیکشن کمیشن کو اپنی طاقت کا استعمال کرنا چاہیے اور انتخابی جلسوں پر کارروائی کرنی چاہیے۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی واضح کردیا کہ اگر الیکشن کمیشن کارروائی نہیں کرتا ہے تو عدالت اپنا کام کرے گی۔
کورونا وائرس کی بڑھتی لہروں کے درمیان سیاسی جماعتوں بالخصوص بھارتیہ جنتاپارٹی کے جلسے جلوس کی کھلی اجازت دیے جانے سے بھی عوام میں کمیشن کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔اس کے ساتھ ترنمول کانگریس، کانگریس اور دوسری سیاسی جماعتوں کی جانب سے باقی ماندہ انتخابی مرحلوں کو ایک ساتھ منعقد کرانے کے مطالبہ کو کمیشن کی جانب سے مسترد کیاجانا بھی کمیشن پر عوام کے اعتماد کو متزلزل کررہاہے۔
کمیشن کی غیرسنجیدگی اور امتیاز و تعصب کی اس سے بڑی مثال اور کوئی نہیں ہوسکتی ہے کہ مرشدآباد جیسی کثیر مسلم آبادی والے ضلع کے دو حلقوں شمشیر گنج اور جنگی پور اسمبلی حلقوں کیلئے ملتوی ہوجانے والے انتخاب کا اعلان عین عید کے دن13مئی کو کیا ہے۔ ان دونوں حلقوں کے انتخاب کو اس لیے ملتوی کیا گیاتھا کہ ان کے امیدوار کورونا وائرس کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے تھے لیکن الیکشن کمیشن نے دوبارہ انتخاب کی تاریخ جب طے کی تو وہ کلینڈر دیکھنا ہی بھول گیا اور عین عید کے دن13مئی کو ان دونوں حلقوں کیلئے پولنگ کی تاریخ طے کردی۔اس سلسلے میں مختلف سیاسی جماعتوں اور رضاکار تنظیموں نے کمیشن سے رجوع کیا ہے اور درخواست کی ہے کہ عید کے تین دنوں کے بعد کی کوئی تاریخ طے کرے۔
کلکتہ ہائی کورٹ کی سرزنش کے بعد الیکشن کمیشن کچھ فعال ہوا ہے اوراس نے باقی کے مرحلوں میں انتخابی تشہیرکیلئے بائک، سائیکل اور دیگر گاڑیوں کے ساتھ جلسوں اور روڈ شوز کیلئے دی گئی اجازت واپس لے لی ا ور کہا ہے کہ کسی بھی جلسہ میں ایک ساتھ 500سے زیادہ افراد جمع نہیں ہوسکتے ہیں، اس کے ساتھ ہی کمیشن نے 13 امیدواروں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرادی ہے جو کورونا ضابطوں کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے ہیں۔لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ کمیشن کو جب تک عدالت کا چابک نہ پڑے وہ اپنے کام سے کوتاہی برتتا رہے۔
مغربی بنگال کے معاملے میں کمیشن کا کردار بہرحال شکوک و شبہات کی زد میں ہے۔اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ کئی ایسے مواقع آئے جب کمیشن کو پورے اختیار کے ساتھ اپنا حکم نافذ کرنا چاہیے تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اور سیاسی جماعتوں کو بھیڑ بھاڑ اکٹھا کرنے کی پوری چھوٹ ملی رہی جس کانتیجہ ہے کہ آج مغربی بنگال میں یومیہ16ہزار کورونا کے سرگرم کیسز سامنے آرہے ہیں اور مرنے والوں کی یومیہ تعداد بھی 50 سے 60 کے درمیان رہ رہی ہے۔سیاسی جماعتوں کی اس عوام دشمنی میں الیکشن کمیشن دانستہ یا نادانستہ طور پر ان کا معاون بنا ہے اوراس کا خمیازہ بنگال ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے عوام کو بھگتنا پڑرہاہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS