ونیت نارائن
کل ملیالم زبان کی ایک فلم ’دی گریٹ انڈین کچن‘ دیکھی۔ جس نے سوچنے پر مجبور کردیا۔ کہانی سپاٹ ہے اور گھر گھر کی ہے۔ خاتون خانہ کتنی بھی پڑھی لکھی اور سمجھدار کیوں نہ ہوں، اس کی ساری زندگی چوکا چولہا سنبھالنے اور گھر کے مردوں کے نکھرے اٹھانے میں بیت جاتی ہے۔ زیادہ تر خواتین اسے اپنی قسمت مان کر برداشت کرلیتی ہیں۔ آزادی نسواں کے جذبے سے جو اس کی مخالفت کرتی ہیں یا ان کے گھر میں تنائو پیدا ہوجاتا ہے یا تو انہیں گھر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ایسا ہی کچھ اس فلم میں دکھایا گیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ فلم بائیں بازو والوں نے بنائی ہے اور اس دور میں بنائی ہے جب کیرالہ کے سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلے پر عدالت عظمیٰ تک میں ایک بڑا تنازع چھڑا ہوا تھا۔ ظاہر ہے بائیں بازو والوں کا مقصد ہندو معاشرے کی ان غلط رسموں پر حملہ کرنا تھا جو ان کی نظر میں خواتین مخالف ہیں۔ جیسے ماہواری کے وقت خواتین کو اچھوت کی طرح رکھنا۔ یہ فلم میں دکھایا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان پانچ دنوں میں پرم پرائوں میں بندھے ہندوستانی معاشرے میں خواتین کو اذیتی کیمپ کی طرح سہنا پڑتا ہو۔ لیکن کیا اس میں شک ہے کہ کیا وہ پانچ دن ہر خاتون کی زندگی میں نہ صرف دکھ بھرے ہوتے ہیں بلکہ متعدی کے اندیشے لئے بھی ہوتے ہیں۔ اگر خواتین پر ان دنوں کی جانے والی زیادتیوں کو دور کردیا جائے اور عورتوں کو ان پانچ دن اسی طرح معزز طریقے سے رکھاجائے جیسے آج فیملی کے کسی کورونا سے متاثرہ شخص کو رکھا جاتا ہے تو کیا اس میں پوری فیملی کی بھلائی نہیں ہوگی؟
اسی طرح مرد اور عورت سے ہر صورت حال میں مساوی سلوک کی امید کرنے والے دانشور ذرا سوچیں کہ 9مہینے جب خواتین امید سے رہتی ہیں تو کیا ان کی کام کرنے کی صلاحیت وہی رہتی ہے جو عام دنوں میں رہتی ہے؟ بچے کی پیدائش کے تین سال تک اگر بچے کو اگر ماں کا دودھ اور 24گھنٹے لاڈ پیار ملے تو وہ بچہ زیادہ صحت مند اور خوش مزاج ہوتا ہے ان بچوں کے مقابلے جنہیں ان کی مائیں نوکری کے دبائو میں ’ڈے کیئر سینٹر‘ میں ڈال دیتی ہیں۔ اگر اقتصادی مجبوری نہ ہو تو کیا ماں کا نوکری کرنا ضروری ہے؟ اسی طرح سوچنے والی بات یہ ہے کہ جس طرح کا ملاوٹی آلودہ اور زہریلا کھانا فاسٹ فوڈ کے نام پر آج سبھی بچوں کو دیا جارہا ہے، اسے ان کی ذہنی اور جسمانی صحت تشویش کا موضوع بن گئی ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں ہی نہیںترقی یافتہ ملکوں میں بھی ہمارے برج میں کہاوت ہے کہ ’ایک عورت تین پیڑھی سدھار دیتی ہے‘ اپنے ماں باپ یا ساس سسر کی، اپنے شوہر اپنی اور اپنے بچوں کی۔ پڑھی لکھی خواتین بھی گھر پر رہ کر پورے خاندان کے کھانے، صحت، تعلیم ، تہذیب اور پس منظر پر دھیان دیتی ہیں تو وہ معاشرے کے لئے اتنا بڑا تعاون ہے کہ کسی بھی بڑی سے بڑی نوکری کی تنخواہ اس کی برابری نہیں کرسکتی۔
آج جدیدیت اور برابری کے نام پر جو اپنا یا جارہا ہے اس سے نہ تو خواتین سکھی ہیں اور نہ فیملی، اس لئے فلم میں جو بائیں بازو کا حل دکھایا گیا ہے وہ مناسب نہیں ہے، اس عورت کا بغاوت کرکے گھر چھوڑ جانا کوئی حل نہیں ہے لیکن ساتھ ہی اس کے شوہر اور سسر کا سلوک بھی قابل مذمت ہے جو عام طور پر ہر گھر میں دیکھا جاتا ہے۔ ہر فیملی کے ہر مرد کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اپنی فیملی کی خواتین کا احترام نہیں کریں گے تو اس کا نقصان اس فیملی کی تین پیڑھیوں کو بھگتنا پڑے گا۔
شرط یہ ہے کہ اس خاتون کو فیملی میں پورا احترام اور مساوی حقوق ملے۔ ویدک سماج میں مرد اور خواتین ایک سے زیورات اور ملبوسات پہنتے تھے۔ …ہر سیاسی فیصلہ سماجی تنازعات، مذہبی پروگراموں وغیرہ میں خواتین برابر کی حصہ دار ہوتی تھیں۔ اس نظام کی تنزلی قرون وسطیٰ کے سامراجی دور میں ہوگئی تھی۔لیکن آج جدیدیت اور برابری کے نام پر جو اپنا یا جارہا ہے اس سے نہ تو خواتین سکھی ہیں اور نہ فیملی، اس لئے فلم میں جو بائیں بازو کا حل دکھایا گیا ہے وہ مناسب نہیں ہے، اس عورت کا بغاوت کرکے گھر چھوڑ جانا کوئی حل نہیں ہے لیکن ساتھ ہی اس کے شوہر اور سسر کا سلوک بھی قابل مذمت ہے جو عام طور پر ہر گھر میں دیکھا جاتا ہے۔ ہر فیملی کے ہر مرد کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اپنی فیملی کی خواتین کا احترام نہیں کریں گے تو اس کا نقصان اس فیملی کی تین پیڑھیوں کو بھگتنا پڑے گا۔
جدید معاشرے میں بڑے شہروں میں رہنے والے بہت سارے پڑھے لکھے نوجوان خود ہی اپنی کام کرنے والی بیوی کے ساتھ برابری کا سلوک کرتے ہیں وہ نہ صرف گھر کے کام کاج میں مدد کرتے ہیں بلکہ بچوں کو پالنے میں پورا تعاون دیتے ہیں۔ 2000میں ایک ہفتہ اپنے ممیرے بھائی آنند کے گھر نیویارک میں رہا جو ان دنوں ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا عہدیدار تھا۔ اس کی بیوی پریتی اقوام متحدہ کے ایک پبلی کیشن کی نامہ نگار تھی اور ہفتے میں دو تین بار یوروپ کے کسی وزیر اعظم کا انٹرویو لینے یا بین الاقوامی اجلاس کی رپورٹنگ کرنے یوروپ جاتی تھی۔ تب ان کی نئی شادی ہوئی تھی اور میں پہلی بار ان کے گھر رہنے گیا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ آنند نہ صرف کھانا پکاتا تھا بلکہ گھر کی صاف صفائی بڑے قاعدے سے کرتا تھا۔ اس کے بعد وہ دونوں ہانگ کانگ اور سنگاپور میں بھی رہے۔
ان کے دوبچے ہیںاور وہ زندگی میں اونچے عہدوں پر رہے ہیں۔ ہم ان کے گھر ہانگ کانگ اور سنگاپور بھی رہنے گئے۔ ہمیں یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ آج بھی دونوںگھر کے سب کام مل جل کر کرتے ہیں، حالانکہ اب تو برسوں سے ان کے گھر میں ایک ہائوس کیپر عورت بھی رہتی ہے۔ لیکن یہ مثال اس لئے ضروری ہے کہ جب دو اعلیٰ عہدیدار اشخاص بے حد مصروف بین الاقوامی انداز زندگی اور خوشحالی کے باوجود بغیر کسی باہمی تنائو کے اپنے گھر کا کام سنبھال سکتے ہیں اور بچوں کی پرورش مل جل کر آسانی سے کرسکتے ہیں تو وہ جوڑے جن کی زندگی اتنی مصروف نہیں ہے، ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ آج کی شہری زندگی میں اس سمجھ کی زیادہ ضرورت ہے۔
٭٭٭