محمد کلیم الدین مصباحی،کرناٹک
رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تبارک وتعالی کی بڑی عظیم نعمت ہے۔اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے کو بند کردے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ۔اللہ کی طرف سے انوار وتجلیات کی ہر گھڑی موسلا دھار بارش ہوتی رہتی ہے ۔یہ وہ مہینہ ہے جس سے ملاقات کی تمنا خود سرور کائناتؐ نے کی ہے ۔’’ اے اللہ ہمارے لئے رجب اور شعبان کے مہینے مین برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہونچا ،، (شعب ایمان ج 3)۔ہم غور کریں کہ آپ ؐ ماہ رمضان کی آمد سے دو مہینہ پہلے اس ماہ سے ملنے کی اشتیاق رکھتے ہیں اور اللہ سے دعا فرما رہے ہیں کہ مجھے رمضان عطا فرما ۔یہ حدیث ماہ رمضان کی فضیلت کو ظاہر کرتی ہے ۔اس ماہ کی عظیم عبادت روزہ ہے جس کو اللہ تعالی نے ایمان والوں پر فرض کیا ۔اللہ تعالی قران کریم میں ارشاد فرماتا ہے۔’’اے ایمان والوتم پر روزے فرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ تمہیں پرہیز گاری ملے‘‘ (سورہ بقرہ آیت 183 )۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال ہماری زندگی میں رمضان کی بہاریں آتی ہیں ،ہم روزے رکھتے ہیں ،تراویح کا اہتمام کرتے ہیں دیگر اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں مگر ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔ہمیں اس پر غور کرنا ہوگا اور اپنے اندر کی اس کمی کو دور کرنا ہوگا اور جس مقصد کے لئے اللہ نے روزہ کو فرض کیا ہے ہم اس کے حصول کے لئے کوشش کرتے رہیں ۔
علامہ پیر کرم شاہ ازہری ؒ،تفسیر ضیاء القرآن میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں’’روزے کا مقصد اعلی تقوی اور پر ہیز گاری ہے اور اس سخت ریاضت کا پھل یہ ہے کہ تم متقی اور پاک باز بن جاؤ،روزے کا مقصد صرف یہ نہیں کہ تم صرف کھانے پینے اور جماع سے پر ہیز کرو بلکہ مقصد یہ ہے کہ تم تمام اخلاق رذیلہ اور اعمال سئیہ سے مکمل طور پر بری ہو جاؤ،تم پیاس سے تڑپ رہے ہو ،تم بھوک سے بے تاب ہو رہے ہو ،تمہیں کوئی بھی نہیں دیکھ رہا ،ٹھنڈے پانی کی بوتل اور لذیذ کھانابھی پاس موجود ہے لیکن تم ہاتھ بڑھانا تو کجا ،آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے ،اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ تمہارے رب کا ٰحکم ہے ،اب جب حلال چیزیں اپنے رب کے حکم سے تم نے ترک کردیںتو وہ چیزیں جس کو تمہارے رب نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام کیا ہے مثلاََچوری،رشوت،بد دیانتی،جھوٹ وغیرہ ان کو بھی یقیناََ چھوڑنا پڑے گا یہی تقوی کا تقاضا ہے،یہی روزے کا مقصد اصلی ہے ‘‘(بحوالہ دروس رمضان ، ۹۰؍محمد فہیم مصطفائی)۔
روزہ کی فضیلت :حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے ،کہ رسول اللہ نے فرمایا!روزہ ڈھال ہے اور روزہ دار بیہودہ نہ بکے نہ جہالت کرے۔اگر کوئی اس سے لڑے یا گالی دے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں ۔دو مرتبہ۔قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ روزہ دا ر کے منہ کی بو اللہ عز وجل کے نزدیک مشک کی خوشبوسے زیادہ عمدہ ہے ۔اور روزہ دار اپنا کھنا ،پینا اور خواہش نفس میری وجہ سے چھوڑتا ہے ۔اور روزہ میرے لئے ہے اور میں اس کی جزا دوں گا اور نیکی دس گنے تک ہے (صحیح البخاری کتاب الصوم ،باب فضل الصوم) ۔اس حدیث پاک سے کئی باتیں ہمیں معلوم ہوتی ہیں ۔
(۱) روزہ ،روزہ دار کے لئے جہنم سے ڈھال ہے یعنی جہنم سے بچانے والا ہے ۔ (۲)روزہ دار کے منہ سے بھوک وپیاس کی وجہ سے جو بو آتی ہے اللہ تعالی اسے مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند فرماتا ہے ۔ (۳)اللہ نے روزہ کو اپنی طرف منسوب کیا ہے یعنی روزہ خالص میرے لئے ہے ۔نماز ،حج۔زکوۃ ان میں کوئی نہ کوئی عمل ایسا ضرور پایا جاتا ہے جس سے دوسروں کو اس عمل پر مطلع ہونا لازم ہے مگر روزہ ایک ایسی عبات ہے جس میں کو ئی ایسا فعل نہیں جس سے لوگ اس پر مطلع ہو ں ۔پھر تنہائی میں ایسے بیشمار مواقع ملتے ہیں کہ اگر انسان کھالے تو کسی کو خبر نہیں ہوگی ۔اس لئے روزہ میں بہ نسبت دوسری عبادت کے ریاء کے شائبہ کا دخل نہیں ہوتا ۔اس لئے فرمایا کہ روزہ خالص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا اور اس کی جزا کیا دیگا اور کتنا دیگا وہ رب کریم ہی جانتا ہے ۔(۴)اس حدیث پاک کے ذریعے نبی کریم ؐنے ہماری تربیت فرمائی کہ ہم حالت روزہ میں اپنے شب و روز کیسے گذاریں ،ہمارے اخلاق و کردار کیسے ہوں ،لوگوں کے ساتھ ہمارا برتاؤ کس طرح کا ہونا چاہئے ۔اس کی تربیت اس طرح فرمائی گئی کہ ہم حالت روزہ میں بیہودہ اور فحش نہ بکے ۔لڑائی یا جھگڑا ،یا ایسا کام جو لڑائی یا جھگڑ ے کا سبب بنے اس سے بچیں ۔اور اگر کوئی لڑائی پر آمادہ ہو یا گالی گلوج کرے تو ہم اس کا جواب نہ دیں بلکہ اس پر صبر کر لیں اور کہہ دیں کہ ہم روزہ سے ہیں اور یہ سب ہم کو زیب نہیں دیتا ۔
روزہ دار کی فضیلت: ۱۔حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے تھے کہ رسول اللہ نے فرمایا !روزہ دار کے لئے خوش ہونے کے دو مواقع ہیں جس وقت وہ خوش ہوگا ۔جب وہ افطار کرے گا خوش ہوگا ۔(قسم قسم کے ما کولات ومشروبات کو دیکھ کر خوش ہونا مراد نہیں ہے کیونکہ یہ فطری،طبعی ہے اور اس پرکوئی ثواب نہیں ہے بلکہ اس بات پرخوش ہونا کہ انہیں روزہ جیسی عظیم عبادت کی توفیق ملی اور طاعات میں ایک روزے کا اضافہ ہوا یہ خوشی ایسی ہے جوکہ موجب اجر ہے ) ۲۔ جب (قیامت کے دن ) اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزہ پر خوش ہوگا (صحیح البخاری کتاب الصوم)۔
۲۔حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا !جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے ۔قیامت کے اس دروازے سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے ۔ان کے علاوہ اور کوئی اس سے داخل نہ ہوگا ۔فرمایا جائے گا روزہ دار کہاں ہے تو یہ لوگ کھڑے ہوں گے ان کے علاوہ اور کوئی اس دروازے سے داخل نہ ہوگا جب روزہ دار داخل ہو لیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر کوئی داخل نہ ہوگا۔(صحیح البخاری کتاب الصوم)۔
مذکورہ دونوں حدیثوں میں اللہ کے رسول ؐ نے روزہ دار کی فضیلت کو بیان فرمایا ہے اللہ ہمیں روزہ رکھنے کی توفیق بخشے ۔
روزہ کی حالت میں بری بات یا برا کام کرنا :حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ نے فرمایا !جو شخص روزے کی حالت میں بری بات ،برا عمل نہ چھوڑے تو اللہ تعالی کو کچھ حاجت نہیں کہا اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے(صحیح البخاری کتاب الصوم)۔
اس حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے روزہ کی مشروعیت کی عظیم حکمت کو بیان فرمایا ہے کہ روزہ صرف کھانے ،پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے بلکہ روزہ کو اللہ نے ایک عظیم مقصد کے تحت فرض کیا ہے۔جس کا ذکر اللہ نے قرآن کی اس آیت میں کیا ہے’’اے ایمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ تمہیں پرہیز گار ی ملے ‘‘(القرآن ) ۔
اسی مقصد کو آپؐ نے اس حدیث میں بیان کیا ہے اور وہ ہے تقوی ۔ تقوی طاعات کو بجالانے اور معصیت سے اجتناب کرنے میں ہے ۔اس حدیث میں اللہ کے نبیؐ نے روزہ داروں کو تعلیم دی کہ حالت روزہ میں (حالانکہ برا کام یا برا عمل روزے کی حالت میں کیا جائے یا روزے کے علاوہ وقت میں گناہ ،گناہ ہی ہوتا ہے )ہر طرح کے برے کا م اور بری بات خواہ وہ جھوٹ ہو یا چغلی یا کسی کی غیبت ،یا کسی کی عیب جوئی ،یہ گناہ ہمارے روزے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اس کا اجر کم کردیتے ہیں ہمیں اس سے بچنا چاہئے۔ہمیں ایک بات یاد رکھنا چاہئے کہ اطاعت اس وقت نافع ہوگی جب معصیت سے اجتناب کیا جائے ۔معاصی کا ارتکاب طاعات کو بے نور کر دیتا ہے(نزہۃ القاری جلد5)۔
’’اسی لئے کہا گیا ہے کہ نیکی کا کام نیک اور بد دونوں کرتے ہیں اور معاصی سے صرف صدیق بچتے ہیں‘‘ (نزہۃ القاری جلد 5)۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال ہماری زندگی میں رمضان کی بہاریں آتی ہیں ،ہم روزے رکھتے ہیں ،تراویح کا اہتمام کرتے ہیں دیگر اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں مگر ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔ہمیں اس پر غور کرنا ہوگا اور اپنے اندر کی اس کمی کو دور کرنا ہوگا اور جس مقصد کے لئے اللہ نے روزہ کو فرض کیا ہے ہم اس کے حصول کے لئے کوشش کرتے رہیں ۔اللہ ہم سب کو ماہ رمضان کی برکتیں عطا فرمائے اور اپنے صدیقین بندوں میں شامل فرمائے ۔آمین n