ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
ہمارے ملک کی مخصوص پہچان کثیرالمذاہب ہونے کے باوجود سیکولر ملک کی ہے، دستور ہند کی شروعات تمہید (پریمبل) سے ہوتی ہے جس میں ملک کے تمام لوگ یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم ہندوستان کے عوام متانت و سنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ ہندوستان کو ایک مقتدر سماج وادی غیر مذہبی عوامی جمہوریہ بنائیں گے اور اس کے تمام شہریوں کے لیے خیال، اظہار، عقیدہ، دین اور عبادت کی آزادی ہوگی۔ ہمارے ملک کی پارلیمنٹ نے 1972میں 42ویں ترمیمی قانون کے ساتھ دستور کے پریمبل میں لفظ سیکولر یعنی غیرمذہبی کا اضافہ کیا تھا جس کا مطلب ہے کہ ہمارے ملک بحیثیت ریاست کے کسی بھی مخصوص مذہبی شناخت کا علمبردار نہیں ہوگا بلکہ ہمارے ملک میں تمام ہی مذاہب کو یکساں و برابر قانونی اہمیت حاصل ہوگی، دستوری تحفظات تمام ہی مذاہب کو برابر یکساں فراہم کیے جائیں گے۔ ہمارے ملک میں صدیوں سے بہت سے مذاہب، الگ الگ تہذیب، زبان اور مختلف شناخت رکھنے والے طبقات اس ملک کی متحدہ تہذیب کے علمبردار نیز اس ملک کی تہذیب و تمدن کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی کے حصہ دار تھے جن کو مساویانہ و برابر کا دستوری درجہ و تحفظ دینا ضروری تھا تاکہ ملک میں امن و امان اور عدل و انصاف کا ماحول قائم کیا جاسکے۔
ملک کے آزاد ہونے کے بعد دستور ساز اسمبلی کے سامنے ایک بڑا چیلنج تھا کہ دستور ہند و دستوری ریاست میں مذہب اور مذہبی آزادی کی اہمیت و حیثیت کیا ہوگی، دستور ساز اسمبلی کی ایک ایڈوائزری کمیٹی برائے بنیادی حقوق کی تشکیل عمل میں آئی تھی جس کے سربراہ ولبھ بھائی پٹیل تھے، اس ایڈوائزری کمیٹی نے اپنی سفارشات میں مذہبی آزادی کو بنیادی حقوق میں شامل کرنے کی سفارشات پیش کی تھیں۔ دستور ہند کے آرٹیکل 25سے لے کر28تک مذہبی آزادی اور اس سے متعلق امور پر مبنی ہیں، جن میں آرٹیکل25کی اہمیت سب سے زیادہ ہے جس کے بارے میں ہر شہری کو جاننا ضروری ہے تاہم یہ آزادی شہریوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں کے لیے بھی بنیادی حق کا درجہ رکھتی ہے۔
دستور ہند اور دیگر قوانین کا مقصد ایک ایسا سماج بنانے کی کوشش کرنا تھا جس میں تمام مذاہب کے افراد ایک دوسرے کے مذہبی عقائد و تعلیمات کا احترام کریں، ایک تکثیری سماج جہاں متفرق مذاہب اپنی اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ، اپنی منفرد شناخت کے ساتھ مل جل کر ایک خوبصورت سماج بنائیں، تاہم ہم اور ہمارا موجودہ سماج ان عظیم ہستیوں کے بنائے دستور کے تحریری خاکوں میں عملی رنگ بھرنے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔
آرٹیکل 25کے مطابق ہر شہری کو مافی الضمیرکو ماننے کی پوری پوری آزادی ہوگی، یعنی یہ فرد واحد کا ذاتی معاملہ ہوگا کہ وہ اپنے اور اپنے بنانے والے خالق و مالک کے درمیان مذہبی رشتہ کس طرح کا رکھنا چاہتا ہے، یا رشتہ رکھنا چاہتا ہے یا نہیں یہ وہ ضمیر کی آواز کے مطابق طے کرسکتا ہے، یعنی ہر شہری یہ خود طے کرے گا کہ اس کو کس مذہب کی اور اس مذہب کی کن تعلیمات پر عمل کرنا ہے یا کسی بھی مذہب کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں۔ جب کہ آرٹیکل25کا دوسرا حصہ فرد واحد کو اپنے مذہب پر علی الاعلان مخصوص مذہبی شناخت و لباس کے ساتھ عمل کرنے، ذاتی و سماجی زندگی میں مذہبی رسومات و عبادات کو ادا کرنے نیز مذہبی تعلیمات کو عام کرنے کی پوری پوری آزادی فراہم کرتا ہے۔ مثلاً سکھ مذہب کو ماننے والے سر پر پگڑی اور ساتھ میں کرپان رکھ سکتے ہیں، ہر مذہب کے ماننے والے اپنے مخصوص مذہبی لباس کو پہن کر آزادی کے ساتھ گھوم سکتے ہیں، اپنے مذہب کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانے یا عام کرنے کے لیے ٹی وی یا سوشل میڈیا پر ویڈیو نشر کیے جاسکتے ہیں، مذہبی کتابیں کھلے عام بازاروں میں خریدی اور فروخت کی جاسکتی ہیں۔
ان تمام مذہبی آزادی اور بنیادی حق کے ساتھ ہی آرٹیکل 25 کچھ شرائط اور اصول بھی پیش کرتا ہے، یعنی اگر کسی کی مذہبی تعلیمات یا عبادات یا رسومات کی وجہ سے سماج میں پبلک آرڈر(امن و امان) اخلاقیات یا صحت پر منفی اثر پڑتا ہے تو حکومت اس میں دخل اندازی کرسکتی ہے، یعنی عام حالات میں تو حکومت یا ریاست کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی شہری اور اس کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کرے تاہم اگر مذہبی تعلیمات یا رسومات سے سماج میں اخلاقی افراتفری پیدا ہونے کا ڈر ہو تو حکومت مذہبی معاملات میں بھی دخل دے سکتی ہے مثلاً ستی کی رسم کو ختم کرنے کے لیے قانون کی تدوین، چھواچھوت کو ختم کرنے کی غرض سے Untouchability (Offences) Act, 1955 بناکر ذات پات کی بنیاد پر کسی بھی شخص کو مذہبی رسومات یا مقامات میں جانے یا شامل ہونے سے روکنے کو قانوناً جرم قرار دینے والا قانون بنایا گیا، پارلیمنٹ نے تین طلاق کے مذہبی معاملہ پر روک تھام کے لیےThe Muslim Women (Protection of Rights on Marriage) Act, 2019 قانون پاس کیا، اس قانون کو پاس کرنے کے لیے حکومت نے اخلاقی بنیاد کاہی سہارا لیا تھا۔
دستور ہند کے مطابق حکومت یا ریاست قانون یا اصول و ضوابط کے ذریعے مذہبی معاملات میں بھی دخل انداز ہوسکتی ہے تاہم اس کی دو صورتیں ہیں، پہلی صورت یہ ہے کہ مذہبی عبادات یا رسومات سے متعلق معاشی، مالیاتی، سیاسی یا سیکولر سرگرمیوں کو منضبط کرنا ہو، مثلاً کسی مذہبی مقام مسجد یا مندر کی تعمیر کی شرائط، بجلی پانی و دیگر کھانے پینے و اشیائے خورد کا نظام، بہت سے مندر یا دھرم شالا میں قیام کا نظم یا مستقل گیسٹ ہاؤس و اسپتال کی سہولیات وغیرہ کے علاوہ ذرائع آمدورفت و مالیات سے متعلق معاملات میں دخل انداز ہوسکتی ہے، جب کہ دوسری صورت ہے سماجی فلاح اور اصلاح کے مقاصد کی بنیاد پر مذہبی امور میں مداخلت مثلاً کسی بھی ہندو مندر کو ہندو مذہب کے تمام پیروکاروں کے لیے حکومت کھول سکتی ہے۔ حالیہ کچھ واقعات نے مذہبی آزادی اور دستور ہند میں مذہبی کتابوں کی قانونی حیثیت کو موضوع بحث بنا دیا ہے۔ کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ95کے تحت کوئی بھی اخبار، کتاب یا کوئی بھی دستاویز جو کہ تحریری شکل میں ہو اگر اس کتاب، اخبار یا دستاویز کے ذریعے ملک کے خلاف بغاوت یعنی تعزیرات ہند کی دفعہ124اے یا کسی مذہب یا مذہبی طبقے کے خلاف اکسانے بھڑکانے یا نفرت پھیلانے کی کوشش یا جرم کرنا تعزیرات ہند کی دفعات153اے اور بی، فحش کتاب یا لٹریچر سے متعلق جرائم کا تعزیرات ہند کی دفعہ 292 اور293کے جرائم، یا کسی مذہبی طبقے کے مذہبی عقائد کو چوٹ پہنچاکر مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کا تعزیرات ہند کی دفعہ 295اے کے تحت جرم ہوناپایا جائے تو صوبائی حکومت اس اخبار، کتاب یا دستاویز پر پابندی عائد کرتے ہوئے ضبط کرسکتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تعزیرات ہند کی دفعات 153اے اور 295اے کا وقتاً فوقتاً غلط استعمال بھی ہوتا رہا ہے، دستور ہند کو تیار کرنے والے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی تقاریر کے مجموعہ کی اشاعت کے خلاف مقدمے پر الٰہ آباد ہائی کورٹ کی کل جج بنچ نے 1973میں للئی سنگھ یادو بنام اسٹیٹ آف اترپردیش کے فیصلے میں کہا کہ کتاب ہندو مذہب پر اصولی تنقیدوں پر منحصر ہے جس میں ہندو مذہب کی کوئی توہین یا بے عزتی نہیں کی گئی ہے، نہ ہی مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کسی طرح سے بھڑکانے یا نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے۔
کلکتہ ہائی کورٹ نے قرآن پاک کی متفرق آیات پر اعتراض کے ساتھ پابندی و ضابطگی کے لیے دائر پٹیشن کا چندمال چوپڑا بنام اسٹیٹ آف ویسٹ بنگال کے مقدمے کا 24نومبر 1987کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ قرآن آسمانی کتاب ہے، جس کو ہندوستان کے علاوہ پوری دنیا کے مسلمان اپنی مذہبی کتاب مانتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کو کسی انسان نے نہیں لکھا ہے، قرآن کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے، مذہب کے خلاف عدالتی کارروائی کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے چنانچہ عدالت نے چندمال چوپڑا کی پٹیشن کو خارج کردیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دستور ہند اور دیگر قوانین کا مقصد ایک ایسا سماج بنانے کی کوشش کرنا تھا جس میں تمام مذاہب کے افراد ایک دوسرے کے مذہبی عقائد و تعلیمات کا احترام کریں، ایک تکثیری سماج جہاں متفرق مذاہب اپنی اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ، اپنی منفرد شناخت کے ساتھ مل جل کر ایک خوبصورت سماج بنائیں، تاہم ہم اور ہمارا موجودہ سماج ان عظیم ہستیوں کے بنائے دستور کے تحریری خاکوں میں عملی رنگ بھرنے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔
[email protected]