محمدطفیل ندوی
اللہ رب ا لعزت جس کی حفاظت خوداپنے ذمہ لیلیں تواس کاکوئی کچھ نہیں کرسکتابعثت نبویؐ سے قبل جب ابرہہ کعبۃ اللہ کوڈھانے کیلئے اپنے پورے مضبوط وطاقتورہاتھی اورلائولشکر کیساتھ مکہ کی طرف آیاتواس نے اس وقت کے کعبۃ اللہ کے متولی حضرت عبدالمطلب کے پاس آکران سے کہاکہ میں کعبہ کوڈھانے آیاہوں اورتمام جانوروں کو اپنے قبضے میں لے لیا لیکن حضرت عبدالمطلب نے پورے یقین واطمینان کیساتھ کہا میں اپنے اونٹ کامالک ہوں میرااونٹ واپس کردوکعبہ کامالک اللہ ہے وہ اپنے گھرکی حفاظت خود کریگااور بچالے گایہ سن کر ابرہہ اپنے فرعونی لہجہ میں کہنے لگا کہ اے سردار مکہ!سن لیجیے! میں کعبہ کو ڈھا کر اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا،اور روئے زمین سے اس کا نام و نشان مٹا دوں گا کیونکہ مکہ والوں نے میرے گرجا گھر کی بڑی بے حرمتی کی ہے اس لئے میں اس کا انتقام لینے کیلئے کعبہ کو مسمار کردینا ضروری سمجھتا ہوں۔
خوش نصیب ہے وہ شخص جس کو خداکی کتاب کی تلاوت نصیب ہو،جواس پرشب وروز غورکرے جس کاسینہ اس کی آیات سے بھراہواہواورجس کے دل ودماغ پراس کے احکام کی حکومت ہو،ایسے شخص پر اس دنیا کے شاہان تخت وتاج کوبھی رشک کرناچاہیے کیوں کہ ان کوجوکچھ ملاہے وہ بہت جلد فناہونیوالاہے اوراس کی دولت لازوال ہے۔ وہ اپنے تما م سازوسامان کے باوجود کل خداکے غضب سے اپنے آپ کوبچانہیں سکیں گے اوراس پرخداکے انعامات کی بارش ہورہی ہوگی۔
حضرت عبدالمطلب نے فرمایا کہ پھر آپ جانیں اورخدا جانے۔ میں آپ سے سفارش کرنے والا کون؟ اس گفتگو کے بعد ابرہہ نے تمام جانوروں کو واپس کر دینے کا حکم دے دیا۔ اور عبدالمطلب تمام اونٹوں اور بکریوں کو ساتھ لے کر اپنے گھر چلے آئے اور مکہ والوں سے فرمایا کہ تم لوگ اپنے اپنے مال مویشیوں کو لے کر مکہ سے باہر نکل جاؤ۔ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر اور دروں میں چھپ کر پناہ لو۔ مکہ والوں سے یہ کہہ کر پھر خود اپنے خاندان کے چند آدمیوں کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ میں گئے اور دروازہ کا حلقہ پکڑ کر انتہائی بے قراری اور گریہ و زاری کے ساتھ دربار باری میں اس طرح دعا مانگنے لگے کہ ’’اے اللہ !بے شک ہر شخص اپنے اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے‘‘ لہٰذا تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما،اور صلیب والوں اور صلیب کے بچاریوں کے مقابلہ میں اپنے اطاعت شعاروں کی مدد فرما۔
حضرت عبدالمطلب نے یہ دعا مانگی اور اپنے خاندان والوں کو ساتھ لے کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے اور خدا کی قدرت کا جلوہ دیکھنے لگے۔ابرہہ جب صبح کو کعبہ ڈھانے کیلئے اپنے لشکر جرار اور ہاتھیوں کی قطار کے ساتھ آگے بڑھا اور مقام ’’مغمس’’ میں پہنچا تو خود اس کا ہاتھی جس کا نام ’’محمود‘‘ تھا۔ایک دم بیٹھ گیا۔ ہر چند مارا، اور بار بار للکارا مگر ہاتھی نہیں اٹھا۔ اسی حال میں قہر الٰہی ابابیلوں کی شکل میں نمودار ہوا اور ننھے ننھے پرندے جھنڈ کے جھنڈ جن کی چونچ اور پنجوں میں تین تین کنکریاں تھیں سمندر کی جانب سے حرم کعبہ کی طرف آنے لگے۔ ابابیلوں کے ان لشکروں نے ابرہہ کی فوجوں پر اس زور وشور سے سنگ باری شروع کر دی کہ آن کی آن میں ابرہہ کے لشکر، اور اس کے ہاتھیوں کے پرخچے اڑ گئے۔ ابابیلوں کی سنگ باری خداوند قہار و جبار کے قہر و غضب کی ایسی مار تھی کہ جب کوئی کنکری کسی فیل سوار کے سرپر پڑتی تھی تو وہ اس آدمی کے بدن کو چھیدتی ہوئی ہاتھی کے بدن سے پار ہو جاتی تھی۔ ابرہہ کی فوج کا ایک آدمی بھی زندہ نہیں بچا اور سب کے سب ابرہہ اور اس کے ہاتھیوں سمیت اس طرح ہلاک و برباد ہو گئے کہ ان کے جسموں کی بوٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھر گئیں۔جس کاتذکرہ اللہ نے ایک مختصر سورہ ’’سورہ فیل‘‘میں کیاہے۔
یہی حال قرآن مقدس کی حفاظت کاہے بلکہ کعبۃ اللہ سے بھی زیادہ ہے کیوں کہ اللہ رب العزت نے صاف کہاہے ’’بیشک ہم نے قرآن کونازل کیاہے اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ‘‘جس وقت یہ قرآن مقدس نازل ہواہے اس وقت سے لیکر آج تک بیشمار ایسے شیطان اورناپاک ذہن افرادآئے جنہوں نے قرآن مقدس کو نشانہ بنایا، کبھی اس کابدل لانے کیلئے،کبھی اس میں تحریف کرنے کیلئے،کبھی اسے نذرآتش کرنے کیلئے لیکن جوبھی آیاوہ مکمل طریقے سے ناکام ہوگیا اس کی زندگیاں تباہ ہوگئیں، وہ نیست ونابودہوگیا۔آج سے چند سال قبل شیطانیت کاذہن رکھنے والے سلمان رشدی نے بھی ایک کتاب ’’شیطانی آیت ‘‘لکھی تھی اس وقت ایران کے سب سے بڑے شیعہ رہنما آیت اللہ خمینی نے اس پر فتوی لگادیااوراس کے سرقلم پردنیاکاسب سے بڑا انعام رکھا تھا۔آج وہ رشدی کون سی گمنامی کی زندگی میں بندہوگیا کچھ پتہ نہیں۔ یہ سب پانی کے بلبلے ہیں کب پھوٹ جائیں کچھ نہیں کہاجاسکتا۔اسی طرح عرب جس کو اپنی فصیح اللسانی اوربلاغت وادب پر نازتھا وہ اپنی تما م تر صلاحیت کے باوجود ناکام رہے ابوجہل جوحضورؐ کاجانی دشمن تھا شاید ہی کوئی ایسالمحہ ہو جس میں اس نے آپ ؐ کوتکلیف نہ دی ہو وہ آپ ؐکی نبوت کامنکر ،قرآن مقدس کامنکر،واقعہ معراج کامخالف مگر جب حضورؐمسجدمیں تلاوت فرماتے تووہ بھی چھپ کر مسجدکی دیوارسے کان لگاکر تلاوت سنتا۔
حضرت طفیل بن عدوسی جواپنے وقت کے بڑے ادیب تھے ان کولوگوں نے بہت بہکایاکہ آپ حضورؐسے نہ ملیں ان کے کلام میں جادوہے مگر وہ بھی بڑے ادیب اورفصیح اللسان تھے آپ نے جب حضورؐ سے تلاوت سنی تو پورے قبیلہ کیساتھ یہ کہتے ہوئے داخل اسلام ہوئے کہ یہ ایک سچاکلام ہے۔ قرآن نے توانہیں ڈنکے کی چوٹ پر چیلنج کیا تھااگر تمہیں اپنی زبان ولغت پرنازوفخر ہے توآئوکوئی ایک سورت لیکر،سورت نہیں لاسکتے توایک چھوٹی سی آیت لیکر تم سب جمع ہوجائو مل کر محنت کرو،کوشش کرو،جدوجہدکرو لیکن تما م کے تمام ادباء ،فصحاء ،بلغاء ناکام ونامرادرہے کیوں اسلئے کہ یہ انسانی کلام نہیں بلکہ فرشتوں کے سردارحضرت جبرئیل کے ذریعے امام الانبیاء رحمۃ اللعالمین حضرت محمدؐ پرنازل کردہ اللہ کاکلام ہے اوراس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ نے خود لے رکھی ہے۔ دیکھیے اللہ نے اس کی حفاظت کانظام کیسے بنارکھاہے۔ چھوٹے سے چھوٹابچہ اپنے سینہ میں قرآن مقدس کوزبر،زیر،پیش کیساتھ محفوظ کئے ہوئے ہے۔ جوان ،بوڑھے،مرد،خواتین بے شمار حفاظ کی شکل میں موجودہیں ،کوئی اس کی تفسیر سے اپنے سینے کو بحرالعلوم بنائے ہوئے ہے،کوئی اس کی قرات اورتلاوت سے اپنی زندگی کوسنوارے ہوئے ہے ہرطریقے سے اس کی حفاظت چودہ سوسال سے ہورہی ہے اورتاقیامت اس کی حفاظت ہوتی رہے گی وہ محفوظ رہیگا۔ شیطان ذہنیت لوگ آتے رہیں گے اورجاتے رہیں گے۔
لیکن ہمیں بھی اپنی زندگی کو قرآن مقدس کی تعلیمات پرڈھالناہوگاکیوں کہ قرآن کریم کی اس عظمت وجلالت کاتقاضابھی یہی ہے کہ اس کے حقوق کی کماحقہ رعایت کی جائے اہل ایمان اسے اپنے لئے حرزجان بنائیں۔ اس کی تلاوت سے ذہن وقلب سرشارکریں، اس پرعمل کرکے اپنی زندگی سنواریں اوراس کی تعلیم وتدریس کواپنی ترجیحات میںسرفہرست رکھیں۔درس قرآن کی محفلوں کااہتمام کریں اوراس کے آداب وشرائط کاپوراخیال رکھیں تاکہ ان کابھرپور فائدہ اٹھایاجاسکے۔اس میں کوئی گنجائش نہیں کہ اللہ رب العزت کی جانب سے قرآن کی صورت میں انسان کوجونصیحت نامہ ملاہے وہ اتناجامع ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں پرمحیط ہے وہ اس قدرواضح ومدلل ہے کہ اس میں ذرابھی پیچ وخم نہیں وہ اس قدردل نشیں ہے کہ ذہنوں کواپیل کرتاہے اوردلوں میں گھر کرجاتاہے۔ قرآن میں دی گئی نصیحت کاایک امتیازی پہلویہ بھی ہے کہ یہ پوری کتاب میں پھیلی ہوئی ہے۔ جہاں سے پڑھئے جس صفحہ کی آیات پر غورکیجئے کچھ نہ کچھ نصیحت یاتذکیر کی بات ضرورملتی ہے،کہیں عبادت الہی، مقررہ فرائض کی بجاآوری ،اللہ کاپسندیدہ طرززندگی اختیار کرنیکی ہدایات ملتی ہیں،توکہیںوالدین ،اقرباء ،پڑوسی، غرباء ومساکین کیساتھ حسن سلوک اورانسانی حقوق کی اداکرنیکی تلقین کی گئی ہے۔کہیں انفاق فی سبیل اللہ اورضرورت مندوں کی حاجت روائی کی تاکید ہے ،توکسی جگہ مالی معاملات میں دیانت داری سے کام لینے اوراپنے وغیر،دوست ودشمن، امیروغریب کی تفریق کے بغیرسب کیساتھ انصاف برتنے پرزوردیاگیا ہے۔ گویاقرآن کی نصیحت انسان کے ہرطبقے اورزندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتی ہے اوراس نصیحت پرعمل کرنیوالوں کودونوںجہاں میں فوزوفلاح کی ضمانت ملتی ہے درحقیقت انسان کیلئے سب سے بڑی بھلائی اورکامیابی اسی میں ہے کہ وہ ایمان کی دولت سے مالامال ہوجائے۔ خالق ومالک اوررب العالمین سے اس کارشتہ جڑجائے ،مضبوط ہوجائے اورہرطرف سے یکسوہوکراللہ کی بندگی میں لگ جائے ۔اسی میں اس کی عافیت ونجات ہے اوراخروی زندگی میں ہمیشہ ہمیش کاسکون اسی پرمنحصرہے۔
آخرمیں اس حقیقت کااظہار بھی ضروری معلوم ہوتاہے کہ نبی کریم ؐ اورصحابہ کرامؓ نے قرآنی تعلیمات وہدایات پرپوری طرح عمل کرکے امت کویہ دکھایاکہ قرآن کتاب عمل ہے اس پرعمل کئے بغیر اس کاحق ادانہیں ہوسکتا۔اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ حضوراکرمؐ کی پوری زندگی قرآن کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی۔ اپنے قول وعمل سے قرآنی آیات کی تشریح وتوضیح فرماناآپؐکے پیغمبرانہ مشن کاایک اہم حصہ تھا بلاشبہ آپؐ کی حیات مبارکہ قرآنی ہدایات وتعلیمات کاپرتوتھی یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اسے لوگوں کیلئے بہترین نمونہ قراردیا اوراخروی کامیابی کیلئے اپنی اطاعت کیساتھ اپنے رسول کی اطاعت کوبھی لازمی بتایا۔ ارشادربانی ہے’’یقیناتمہارے لئے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے‘‘اور’’اللہ کی اطاعت کرواوررسول کی اطاعت کروتاکہ تم پررحم کیاجائے‘‘،’’اورجوشخص اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرے اس نے بڑی کامیابی حاصل کی‘‘۔خوش نصیب ہے وہ شخص جس کو خداکی کتاب کی تلاوت نصیب ہو،جواس پرشب وروز غورکرے جس کاسینہ اس کی آیات سے بھراہواہواورجس کے دل ودماغ پراس کے احکام کی حکومت ہو،ایسے شخص پر اس دنیا کے شاہان تخت وتاج کوبھی رشک کرناچاہیے کیوں کہ ان کوجوکچھ ملاہے وہ بہت جلد فناہونیوالاہے اوراس کی دولت لازوال ہے۔ وہ اپنے تما م سازوسامان کے باوجود کل خداکے غضب سے اپنے آپ کوبچانہیں سکیں گے اوراس پرخداکے انعامات کی بارش ہورہی ہوگی۔ n