سراج الدین فلاحی
آج کل روپیہ کی ویلیو تیزی سے گر رہی ہے۔ اعدادوشمار پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ دو تین ہفتوں کے اندر ایشیا میں اس کی کارکردگی سب سے زیادہ خراب رہی ہے۔روپیہ کے گرنے کا مطلب ڈالر کے بالمقابل روپیہ کی ویلیو کا کم ہونا ہے۔ چونکہ دنیا میں امریکی ڈالر ایک مضبوط کرنسی ہے اس لئے عام طور پر ملکوں کے درمیان خریدوفروخت ڈالر میں ہی ہوتے ہیں۔ ہمارا ملک انڈیا بھی خام تیل، دفاعی سازو سامان، تکنیک وغیرہ ڈالر میں ہی امپورٹ کرتا ہے۔ اگر ڈالرکے بالمقابل روپیہ کمزور ہوتا ہے تو بیرون ممالک سے کوئی بھی سامان خریدنے کے لئے ہمیں پہلے کی نسبت زیادہ روپیہ ادا کرنا ہوتا ہے۔دورحاضر میں دنیا کے اندر فلوٹنگ ایکسچینج ریٹ سسٹم چل رہا ہے۔ اس سسٹم میں کسی بھی ملک کی کرنسی کی ویلیو بازار میں موجود ڈیمانڈ اور سپلائی کے میکانزم پر منحصر ہوتی ہے، کرنسی کی ڈیمانڈ بڑھتی ہے تو اس کی ویلیو میں اضافہ ہوتا ہے اس کے برعکس اگر ڈیمانڈ میں کمی ہوتی ہے تو اس کی ویلیو میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ چند روز قبل روپیہ میں ایک ہی دن کے اندر 105 پیسے کی گراوٹ درج کی گئی ہے جو کہ گزشتہ 20 ماہ میں سب سے بڑی گراوٹ بتائی جا رہی ہے۔ کووڈ وبا کی پہلی لہر کے بعد اب ہماری کرنسی 75 روپیہ فی ڈالر کے حساب سے سب سے نچلی سطح پر آگئی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ کون سے عوامل کارفرما ہیں جو روپیہ کی ویلیو میں کمی کا سبب بن رہے ہیں؟ نیز روپیہ کی ویلیو میں کمی سے ہماری معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
چونکہ دنیا میں امریکی ڈالر ایک مضبوط کرنسی ہے اس لئے عام طور پر ملکوں کے درمیان خریدوفروخت ڈالر میں ہی ہوتے ہیں۔ ہمارا ملک انڈیا بھی خام تیل، دفاعی سازو سامان، تکنیک وغیرہ ڈالر میں ہی امپورٹ کرتا ہے۔ اگر ڈالرکے بالمقابل روپیہ کمزور ہوتا ہے تو بیرون ممالک سے کوئی بھی سامان خریدنے کے لئے ہمیں پہلے کی نسبت زیادہ روپیہ ادا کرنا ہوتا ہے۔
کورونا کی دوسری لہر کووڈکیسز میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے۔ فی دن دو لاکھ نئے مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے، اس کی وجہ سے بازار جو مندی سے ابھر رہا تھا دوبارہ مندی کی طرف جا رہا ہے۔ مالیاتی سال 2021-22 میں GDP میں جس گروتھ کی امید لگائی جا رہی تھی اس پر کافی منفی اثر پڑا ہے۔ چنانچہ غیر ملکی سرمایہ کار جو ہمارے ملک میں بڑی بڑی سرمایہ کاری کر رہے تھے اور شیئر مارکیٹ میں پیسے لگا رہے تھے وہ اب اپنے شیئرز بیچ کر جا رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ آنے والے دنوں میں گروتھ پر کافی اثر پڑے گا اور روپیہ کی ویلیو مزید گرے گی۔ حالیہ دنوں میں امریکی ڈالر جس طرح یوروپین کرنسی یورو کے بالمقابل مضبوط ہوا ہے اور ڈالر کا جو انڈیکس ہے وہ جس طرح لگاتار بڑھا ہے اس کی بنا پر بھی روپیہ اپنی ویلیو کھوتا جا رہا ہے۔
ان سب وجوہات کے علاوہ روپیہ کے گرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حال ہی میں RBI نے (G-SAP) Govt Securities Acquisition Programme نامی ایک پروگرام لانچ کیا ہے جس میں RBI بازار سے ایک لاکھ کروڑ روپے کے بانڈز خریدے گا، جس کے نتیجے میں مارکیٹ میں ایک لاکھ کروڑ کی لیکویڈیٹی آ جائے گی۔ واضح رہے سرکار کی طرف سے وقتا فوقتا بازار میں کئی طرح کے بانڈز جاری کئے جاتے ہیں? جسے بینک اور مالیاتی ادارے خریدتے ہیں اس لئے بازار میں بینکوں اور مالیاتی اداروں کے پاس سرکار کی سیکورٹیز موجود رہتی ہیں۔ ماضی میں RBI ان سیکورٹیز کو واپس کب خریدے گا یہ بتلاتا نہیں تھا۔ ابھی RBI نے پہلی بار اسے خریدنے کا اعلان کیا ہے۔ آپ نے اس سال بجٹ میں دیکھا ہوگا کہ مالیاتی خسارہ (Fiscal Deficit) بہت زیادہ بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے سرکار کو 12 سے 13 لاکھ کروڑ روپے قرض لینا ہوگا۔ اتنا پیسہ کہاں سے آئے گا؟ ظاہر ہے سرکار بازار سے قرض لے گی۔ قرض لینے سے قبل RBI چاہتا ہے کہ شرح سود کو نیچے لایا جائے تاکہ لیے گئے قرض پر سرکار کو سود کم ادا کرنا پڑے۔اب شرح سود کم کیسے ہوگا؟ اسی کو کم کرنے کے لئے RBI بازار میں موجود سیکورٹیز کو خریدے گا۔ اس عمل سے مارکیٹ کے اندر گورنمنٹ سیکورٹیز کی سپلائی کم ہو جائے گی۔ جب گورنمنٹ سیکورٹیز کی سپلائی کم ہو جائے گی تو اس کے دام بڑھیں گے اور شرح سود نیچے آ جائے گی۔جب شرح سود نیچے آ جائے گی تو سرکار کو 12 سے 13 لاکھ روپے کا جو قرض لینا ہے وہ مارکیٹ سے کم داموں پر لے سکے گی۔ اسی لئے RBI نے ابھی مارکیٹ سے ایک لاکھ کروڑ روپے کی سیکورٹیز خریدنے کا اعلان کیا ہے۔ RBI نوٹ پرنٹ کر کے یہ سیکورٹیز خریدے گا۔ اس کا اثر ڈالر اور روپیہ پر اس طرح پڑے گا کہ جب سرکار ایک لاکھ کروڑ کا بانڈز یا سیکورٹیز خریدے گی تو مارکیٹ میں لیکویڈیٹی بڑھ جائے گی یعنی مارکیٹ میں روپیہ کی سپلائی بڑھ جائے گی۔ جب بھی کسی چیز کی سپلائی مارکیٹ میں بڑھ جاتی ہے تو اس کی قیمت کم ہوجاتی ہے ٹھیک اسی طرح جب روپیہ کی سپلائی مارکیٹ میں زیادہ ہو جائے گی تو اس کی قیمت کم ہو جائے گی اور روپیہ ڈالر کے بالمقابل کمزور ہو جائے گا۔
جب بھی ملک کی گھریلو کرنسی (روپیہ) کی ویلیو ڈالر کے بالمقابل گرتی ہے تو اس کا اثر معیشت پر پڑتا ہے اور امپورٹ مہنگے ہو جاتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا ملک نہ صرف بھاری مقدار میں کروڈ آئل امپورٹ کرتا ہے بلکہ اس کے علاوہ بے شمار اشیاء ایسی ہیں جنہیں ہم دوسرے ممالک سے خریدتے ہیں۔ انڈین کمپنیاں اور تاجر بھی الگ الگ ملکوں سے بہت ساری اشیاء امپورٹ کرتے ہیں۔ امپورٹ کرتے وقت انہیں ادائیگی ڈالر میں کرنی ہوتی ہے۔ جب روپیہ کمزور ہوتا ہے تو انہیں امپورٹ کے لئے زیادہ روپے ادا کرنے ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہمارا توازن ادائیگی ہمیشہ خسارے میں رہتاہے۔
جب روپیہ کی ویلیو ڈالر کے بالمقابل بہت زیادہ گرنے لگتی ہے تو ملک کا مرکزی بینک RBI دخل اندازی کرتا ہے اسے Managed Floating ایکسچینج کہتے ہیں۔ RBI عالمی منی مارکیٹ میں ڈالر کی خریدوفروخت کے ذریعہ یہ کام انجام دیتی ہے۔ جب RBIکو لگتا ہے کہ روپیہ کی ویلیو ڈالر کے مقابلے تیزی سے گر رہی (Depreciation of Rupees)ہے جس کی وجہ سے ڈالر مہنگا ہو گیا ہے اور ڈالر کے مہنگا ہونے کی وجہ سے انڈیا کا امپورٹ مہنگا ہو رہا ہے تو وہ روپیہ کی ویلیو کو سنبھالنے کے لئے عالمی منی مارکیٹ میں اپنے پاس رکھے ہوئے ڈالر کی سپلائی بڑھا دیتی ہے۔ چنانچہ جب ڈالر کی سپلائی اس کی ڈیمانڈ کی نسبت زیادہ ہو جاتی ہے تو ڈالر کے ریٹ گر جاتے ہیں۔ اس طرح ڈالر کے مقابلے روپیہ کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جب RBI کو لگتا ہے کہ روپیہ کی ویلیو ڈالر کے مقابلے زیادہ مضبوط ہو گئی (Appreciation of Rupees)ہے جس کی وجہ سے انڈیا کے سامان کافی مہنگے ہو گئے ہیں۔ نتیجتاً انڈیا کا ایکسپورٹ کم ہو گیا ہے تو وہ روپیہ کی ویلیو کو کم کرنے کے لئے عالمی منی مارکیٹ میں ڈالر کی ڈیمانڈبڑھا دیتی ہے۔ چنانچہ جب ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے تو ڈالر کے ریٹ بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ڈالر کے ریٹ بڑھنے کی وجہ سے ایک ڈالر زیادہ روپیہ خریدنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بالآخر انڈیا کا ایکسپورٹ بڑھ جاتا ہے۔چنانچہ Managed Floating ایک ایسا ہتھیار ہے جس کا استعمال کر کے RBI ڈالر کے مقابلے روپیہ کی ویلیو کو ایک خاص حد تک کنٹرول کر سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ RBI انڈین کرنسی کو سنبھالنے کے لئے کون سے اقدامات کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر روپیہ کی ویلیو اسی تیزی سے گرتی رہی تو یہ 78 روپیہ فی ڈالر تک جا سکتی ہے۔
٭٭٭